حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ ستمبر 2009ء میں مکرم مولانا عبدالوہاب صاحب (امیر جماعت احمدیہ غانا) کے قلم سے حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ سے متعلق چند یادیں شامل اشاعت ہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے 1970ء میں غانا کا پہلا دورہ فرمایا۔جب آپ اکرا کے ایئرپورٹ پر پہنچے تو استقبال کرنے والے ہزاروں احمدیوں میں وزیر ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن بھی شامل تھے۔ اُن کے ساتھ ایک غیرازجماعت دوست Hon. B. K. Adama بھی تھے جو اُس وقت وزیردفاع تھے۔ غانا میں چیف صاحبان جب گھر سے نکلتے ہیں تو اُن کے احترام کی علامت کے طور پر کوئی شخص اُن کے اوپر چھتری تان کر رکھتا ہے۔ اسی سوچ کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہم نے ایک چھتری تیار کروائی تھی۔ وزیردفاع جناب Adama صاحب نے شدید اصرار کرکے وہ چھتری خود پکڑی اور اپنے منصب کی پرواہ کئے بغیر یہ چھتری پکڑنا اپنے لئے اعزاز سمجھا۔
غانا میں اتوار کو تعطیل ہوتی ہے اور غانا کے صدر اُس روز کسی سے نہیں ملتے۔ جب حضورؒ تشریف لائے تو وہ بھی اتوار کا دن تھا۔ غانا کے صدر مملکت H.E. Hilla Liman تھے جنہوں نے ہماری یہ درخواست بخوشی منظور کرلی کہ حضورؒ کی تشریف آوری کے بعد حضورؒ کے ساتھ اُن کی ملاقات اتوار کو ہی ہوجائے۔ اسی طرح واپسی کے وقت بھی ایسا ہوا کہ حضورؒ نے ہفتہ کے روز روانہ ہونا تھا۔ جبکہ جمعہ سالٹ پانڈ میں پڑھانا تھا اور کسی قدر تاخیر سے جمعہ کو واپس اکرا پہنچنا تھا۔ حضورؒ کی خواہش تھی کہ روانگی سے قبل صدر مملکت سے مل کر اُن کا شکریہ ادا کرکے جائیں۔ جب صدر مملکت سے اس بات کا ذکر ہوا تو انہوں نے فراخ دلی سے کہا کہ مَیں انتظار کروں گا، جب بھی اکرا پہنچیں تشریف لے آئیں۔ چنانچہ صدر مملکت رات دس بجے تک انتظار کرتے رہے۔ پھر حضور انور نے رات کو شرف ملاقات بخشا۔
غانا میں جب فوجی انقلاب آیا تو ملک کے موجودہ اور سابق سربراہان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ صرف H.E. Hilla Liman کو کچھ نہیں کہا گیا۔ میرا ذوق یہی کہتا ہے کہ انہوں نے چونکہ حضورؒ کی بے حد عزّت افزائی کی تھی اس لئے اُن کی نیکی کی یہ جزائے خیر اللہ تعالیٰ نے دی۔
غانا کے شمالی گاؤں Salaga میں جماعت نے اپنا سیکنڈری سکول کھولا تو لوگ سیکولر تعلیم کے حق میں نہیں تھے۔ احمدی مبلغین نے تین ماہ اُن کے درمیان رہ کر انہیں سیکنڈری سکول کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ فوجی انقلاب کے بعد حکومت نے وہاں ایک اور سکول کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس پر ہمیں پریشانی ہوئی کہ اتنے تھوڑے پڑھنے والوں کے لئے اگر ایک اَور سکول کھلتا ہے تو شاید ہمیں اپنا سکول بند کرنا پڑے۔ خاکسار نے متعلقہ افسر سے معاملہ سلجھانے کے لئے ملنے کی کوشش کی لیکن جب بھی گیا اُسے شراب میں دھت پایا۔ اس پر سارے حالات حضورؒ کی خدمت میں تحریر کردیئے تو حضورؒ نے بذریعہ تار جواباً فرمایا: “We will run it ourselves by the Grace of Allah” ۔ چنانچہ جماعت نے دس سال تک بغیر کسی مدد کے یہ سکول چلایا اور پھر حکومت نے اس کا معیار دیکھ کر سرکاری امداد بھی شروع کردی۔ یہ وہی سکول ہے جس کے حصہ میں یہ تاریخی اعزاز بھی آیا کہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دو سال تک اس کے پرنسپل رہے۔
حضورؒ نے دورہ کے دوران کماسی یونیورسٹی میں خطاب بھی فرمایا۔ خطاب کے بعد سوالات کئے گئے جن میں سے ایک یہ تھا کہ مذہبی دنیا میں آپ کا کیا مقام ہے؟ آپؒ نے بے ساختہ فرمایا: “I am the humblest of the humble”.۔
ایک صحافی نے پوچھا کہ دنیا میں امن قائم کرنے کا کیا طریق ہے؟ حضورؒ نے فرمایا: “Man should love man”۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے جب مجلس نصرت جہاں کا آغاز فرمایا تو غانا کے امیر مکرم مولانا بشارت احمد بشیر صاحب سے فرمایا کہ ٹیچی مان میں ہسپتال کھولیں۔ یہ ہسپتال ابتدائی طور پر ایک احمدی کے مکان میں کھولنا تھا جس کے لئے مردان سے مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب وہاں پہنچے۔ اس پر ٹیچی مان کے عیسائیوں نے احتجاج کیا اور وزارت صحت کو لکھا کہ یہاں پہلے ہی دو ہسپتال کام کررہے ہیں، تیسرا کھولنے کی ضرورت نہیں۔ ادھر خدا تعالیٰ نے یہ معجزہ دکھایا کہ ایک ہسپتال کا ڈاکٹر اچانک بیمار ہوکر فوت ہوگیا جبکہ عیسائی ہسپتال کا ڈاکٹر بھی اتنا بیمار پڑا کہ مریض دیکھنے کے قابل نہ رہا۔ ایسے میں عیسائیوں کے ہسپتال میں ایک ایمرجنسی کیس آیا تو وہاں کی یورپین نرسیں احمدی ڈاکٹر کے پاس آئیں کہ وہ وہاں آکر مریض کو اٹینڈ کرلیں۔ پہلے تو ہمارے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس معاملہ میں پہلے ہی بہت ٹینشن ہے اس لئے مَیں نہیں آسکتا۔ لیکن پھر نرسوں کے اصرار پر ڈاکٹر صاحب عیسائیوں کے ہسپتال چلے گئے اور مریض کا علاج کیا تو اُس کی جان بچ گئی۔ جب وزارت صحت کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے عیسائی ہسپتال والوں کو لکھا کہ پہلے آپ سمجھتے تھے کہ تیسرے ہسپتال کی ضرورت نہیں لیکن اب آپ نے احمدی ڈاکٹر کو بلاکر عملاً ثابت کردیا ہے کہ ہسپتال کی ضرورت موجود ہے۔ چنانچہ احمدیہ ہسپتال کا افتتاح عمل میں آیا جس کی افتتاحی تقریب میں حکومت نے ایک وزیرکو بھی بھیجا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں