حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا تاریخی انٹرویو
مجلس خدام الاحمدیہ یو کے کو صدسالہ خلافت جوبلی 2008ء کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک تاریخی انٹرویو کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جو قریباً تین گھنٹہ دورانیہ پر مشتمل تھا۔ انٹرویو پینل مکرم صاحبزادہ مرزا فخر احمد صاحب، مکرم طارق احمد بی ٹی صاحب ، مکرم ٹامی کالون صاحب اور مکرم ندیم الرحمٰن صاحب پر مشتمل تھا۔ یہ انٹرویو روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9 اور 10مئی 2012ء میں شامل اشاعت ہے جس میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے۔
٭ حضورانور ایدہ اللہ نے اپنے بچپن کے حوالہ سے بتایا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی وفات کے وقت مَیں پندرہ سال کا تھا۔ چھوٹی عمر میں بھی ایک عزت اور احترام ہوتا تھا۔ باوجود اس کے کہ وہ میرے نانا تھے کبھی ہم جرأت نہیں کرتے تھے کہ اُن کے سامنے بات کریں یا آرام سے چلے جائیں۔ خلافت کا احترام بہت تھا۔ ایک واقعہ جس نے میرے دل میں خلافت کا مزید احترام پیدا کردیا یوں ہے کہ میرے دادا حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ جو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے سب سے چھوٹے بھائی تھے،
وہ ایک دن مجھے ساتھ لے گئے۔مَیں نو سال کا تھا یا شائد اس سے بھی چھوٹا۔ قصرِ خلافت میں خود وہ نیچے کھڑے ہوگئے اور مجھے اوپر بھیجا کہ جاؤاور بتاؤ کہ مَیں ملنے آیا ہوں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اُن دنوں بیمار تھے اور اوپر کمرے میں آرام کیا کرتے تھے۔ یہ نہیں کہ چھوٹا بھائی ہے تو گھر میں گھس گئے،پہلے کہا کہ جاکر اطلاع کرو۔ اس وقت حضرت چھوٹی آپا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ساتھ ڈیوٹی پر تھیں۔ مَیں نے بتایا کہ دادا ملنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے بلا لاؤ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ لیٹے ہوئے تھے تو وہاں چھوٹی آپا نے اُن کے سرہانے کرسی رکھ دی کہ آئیں گے توبیٹھ کر باتیں کرلیں گے۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ السلام علیکم کرکے بجائے کرسی پر بیٹھنے کے اُن کی چارپائی کے ساتھ نیچے بیٹھ گئے اور پھر بڑے ادب سے احترام سے باتیں ہوئیں۔ اور پھر وہ کھڑے ہوئے اور سلام کر کے اس طرح احترام سے نکلے ہیں ایک طرف سے ہو کے کہ اس وقت مجھے مزید خیال ہوا کہ یہ ہے خلافت کا احترام جو عملی شکل میرے دادا نے مجھے دکھائی۔ جس جس طرح عمر بڑھتی گئی تو پھر ہمیں احترام کی وجہ سے اَور زیادہ جھجک پیدا ہوتی گئی۔ خوف ڈر نہیں تھا بلکہ جھجک احترام کی وجہ سے ہوتی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ میرے نانا تھے اور نانا ہونے کی بےتکلّفی کی وجہ سے مذاق بھی کرلیا کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ہم میں جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ہم بھی اسی طرح آگے سے جواب دے دیں۔
٭ حضورانور ایدہ اللہ نے اپنے بچپن کے حوالہ سے مزید بتایا کہ مَیں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اور سب سے چھوٹے بھائی بہن جو ہوتے ہیں ان کو ہر کوئی جو بڑا ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ میرا یہ کام کردو اور میرا یہ کام کردو ۔ لیکن ہم بہن بھائیوں میں تعلق بھی بڑا تھا خاص طور پر سب سے بڑی بہن اور میرے سے Immediate بڑے بھائی جو ہیں ان سے میرا خاص تعلق تھا۔ اور باقی بہن بھائیوں کا بھی احترام اور ادب وغیرہ بڑا تھا۔ کبھی تُوتکار نہیں کی، کبھی بھی سامنے اونچی آواز میں نہیں بولے۔ تربیت ہماری یہ تھی کہ بچپن سے ہی اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کے ساتھ منسلک تھے اور میرے بڑے بھائی زعیم محلہ تھے، اور مَیں اس لحاظ سے اُن کی اَور بھی عزت کرتا تھا۔
٭ بچپن میں تو میری کوئی Hobbies نہیں تھیں مگر باقاعدہ گیم ہم ضرور کیا کرتے تھے۔ دوسرے ہمارے والد صاحب کو شکار کا بڑا شوق تھا۔ ہر ہفتہ میں چھٹی کے دن وہ شکار پر جاتے تھے اور ہمیں بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ شروع کے زمانہ میں ربوہ کے ساتھ کا علاقہ جنگل کی طرح تھا۔ اتنا آباد نہیں ہوا تھا۔ ہم پیدل ہی جاتے تھے اور ربوہ سے باہر نکلتے ہی شکار شروع ہوجاتا تھا۔ فاختہ، خرگوش، تیتر اور اس کے علاوہ کبوتر بھی مل جایا کرتے تھے۔ اس لئے بچپن سے ہی اس کا شوق تھا۔ ہمارے پاس ائیر گن ہوتی تھی۔ ہم دونوں بھائی خود بھی نکل جاتے تھے۔ جلسے کے بعد وہاں پرالی آیا کرتی تھی، اس میں فاختائیں اور چڑیاں وغیرہ بہت آتی تھیں۔ بہرحال اس لحاظ سے یہ (شکار) بھی ایک ہابی رہی اور بڑے ہوکر جب بھی وقت ملتا تھا یا سیزن آتاتھا تو ہفتہ میں ایک دفعہ ضرور شکار کے لئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ شام کو ہم باقاعدہ گیم بھی کرتے تھے۔ کرکٹ یا بیڈمنٹن وغیرہ باہر جاکر کھیلتے رہے ہیں۔ مَیں کھیل میں حصہ لیتا رہا ہوں۔ مگر کسی بھی کھیل میں زیادہ اچھا نہیں تھا۔ کھیلوں سے دیوانگی والا لگائو اور شوق نہیں تھا۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ کرکٹ میچ ہورہا ہو تو صبح سے شام تک اسے دیکھنے کے لئے بیٹھے رہتے ہیں۔ میرے ساتھ ایسا نہیں تھا لیکن مجھے کرکٹ پسند ہے۔
ابّا کے ساتھ جاجاکر بچپن سے ہی شکار کا شوق ہوگیا تھا۔ بلکہ بعض دفعہ ہمیں اتنا چلاتے تھے کہ ہم لوگ تھک جاتے تھے۔ جس دن خرگوش کا شکار ہوتا تو اس دن مشکل پڑجاتی تھی کیونکہ اٹھا کر لانا بڑا مشکل ہوتا تھا۔
٭ بچپن میں اپنے روحانی تجربات کے حوالہ سے حضورانور ایدہ اللہ نے بتایا کہ ایسے روحانی تجارب بہت ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کی ہستی کے زندہ ثبوت کے طور پر متأثر کیا ۔ ایک واقعہ اس وقت کا ہے جب میں پندرہ سال کا تھا۔ میٹرک کے امتحان میں میرا Mathsکا پیپر بہت خراب ہوا تھا اور بظاہر کوئی امید نہیں تھی کہ میں کامیاب ہوسکوں گا۔ چنانچہ اس کا ایک ہی حل تھا کہ خدا کے آگے جھکا جائے۔ اس لئے رزلٹ آنے تک تین ماہ کا جو وقت تھا اس میں مَیں نے بہت دعائیں کیں۔ یہ میرے لئے ایک قسم کا زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ آخرکار جب رزلٹ آیا تو مَیں امتحان میں پاس تھا۔مجھے اس بات پر خوشی کے ساتھ ساتھ سخت تعجب تھا کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوا کیونکہ ریاضی کے پرچہ میں دس فیصد سے زیادہ نمبروں کی توقع نہیں کررہا تھا، اس میں مجھے ـ”C” گریڈ ملا۔ پھر کچھ دیر بعد پتہ لگا کہ چونکہ اس سال ریاضی کا سخت اور مشکل پرچہ ڈالا گیا تھا اس لئے بعض طلباء کے آواز اٹھانے پر سیکنڈری بورڈ نے Grace Marks دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تو مَیں سمجھتا ہوں کہ ان دعاؤں کا فیض خود مجھے بھی پہنچا اور میرے علاوہ اس کا فائدہ دیگر طلباء کو بھی ہوا۔
٭ حضور انور نے بچپن کی تربیت کے بارہ میں فرمایا کہ میری پرورش اور تربیت میں خاندان مسیح موعودؑ کے دیگر افراد کی نسبت میری اپنی فیملی کا کردار اور اثر زیادہ ہے۔ ہمارے گھر کا ماحول بہت دینی اور نظم و ضبط کی سختی سے پابندی کرنے والا ماحول تھا۔ اس لئے گھر کا کوئی فرد اسلام کی بنیادی تعلیم سے اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ابّا مجھے نمازِ فجر کے لئے اٹھایا کرتے تھے اور اگر مَیں گہری نیند میں ہوتا تو وہ میرے منہ پر پانی کے چھینٹے مارا کرتے تھے۔ فجر کے بعد وہ مجھے اور میرے بھائی کو ورزش کرنے کو کہتے تھے اور خود بھی ورزش کیا کرتے تھے اور ہم انہیں Follow کیا کرتے تھے۔ تو بچپن کی ابتدائی عمر سے ہی Disciplined اور قواعد و ضوابط کے مطابق زندگی تھی۔ ہمارے گھر میں سولہ سترہ سال کی عمر تک یہ خاص طور پر ہدایت تھی کہ مغرب کے بعد گھر سے باہر نہیں نکلنا۔ باوجود اس کے کہ ہمارے ارد گرد اپنے لوگ ہی ہمسائے تھے اور گھروں کے بیچ میں دروازے کھلا کرتے تھے۔ لیکن ہدایت تھی کہ عشاء کے بعد فوراًگھر آنا ہے۔ ایک دفعہ جب میرے بھائی F.Sc. میں پڑھتے تھے، اس وقت کالج میں یونین الیکشن ہورہے تھے تو وہ دوپہر کو گھرنہیں آئے۔ ہمارے والد صاحب یہی سمجھے کہ کوئی پریکٹیکل ہے۔ لیکن جب مغرب کا وقت گزر گیا تو انہوں نے کالج فون کیا تو پتہ لگا کہ بھائی کالج کی الیکشن Campaign میں شامل تھے۔ چنانچہ جب واپس آئے تو ابّا نے کہا کہ یہ غلط طریقہ ہے، جو کرنا ہے مغرب سے پہلے پہلے کرناچاہیے۔
٭ صحابہؓ میں حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ کے پاس بھی مَیں گیا ہوں۔ جو بھی آتا تھا تو دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا کیا کرتے تھے۔ حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحبؓ بقاپوری بھی ابّا کے پاس اکثر آیا کرتے تھے۔ اُن کے ساتھ بھی بیٹھ جایا کرتا تھا، میں سات آٹھ سال کا تھا جب اُن کی وفات ہوئی۔ پھر مولوی قدرت اللہ سنوری صاحبؓ کا آنا جانا بھی کافی تھا۔ وہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے فارم پر سندھ میں رہے ہیں۔ ایک دفعہ حضورؓ سندھ دورہ پر گئے۔ شاید کپاس کی فصل تھی۔ دیکھ رہے تھے کہ ایکٹر کی کتنی Yield نکل آئے گی۔ اِنہوں نے کہا کہ اتنی نکل آئے گی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور عبدالرحیم درد صاحب آپس میں انگریزی میں باتیں کرنے لگے (کہ مولوی صاحب کو شاید سمجھ نہ آئے) کہ یہ ایسے ہی کہتے ہیں، اتنی نہیں نکل سکتی۔ مولوی صاحب تو سمجھتے تھے، وہ کہنے لگے میاں صاحب! اتنی نکل آئے گی کیونکہ مَیں نے اس فارم کے ہر کونے میں دو دو نفل پڑھے ہوئے ہیں۔ تو پرانے بزرگوں کی ایک بات یہ بھی تھی کہ ان کا دعائوں پر اتنا یقین تھا اور دعائوں سے بہت کام لیتے تھے۔
٭ حضور انور نے اپنے زمانۂ طالبعلمی کے بارہ میں فرمایا کہ مَیں اپنے تمام ساتھیوں میں سے کمزور ترین طالبعلم تھا۔ دسویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے مزید تعلیم کے لئے میڈیکل سائنس کے مضامین منتخب کئے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ میں ایک کمزور طالب علم ہوں میری ہمّت بلند تھی۔ البتہ مَیں ان مضامین میں چل نہ سکا۔ لہٰذا دو سال بعد میں نے آرٹس کے مضامین رکھ لئے۔ اِس کے باوجود بھی مَیں بورڈ کا امتحان پہلی کوشش میں پاس نہیں کرسکا اور ایک مضمون میں مجھے دوبارہ بیٹھنا پڑا۔ گریجوایشن کے وقت بھی دوسری کوشش میں ہی کامیاب ہوسکا۔ اس کے بعد مَیں ایگریکلچر یونیورسٹی میں چلاگیا کیونکہ بچپن سے ہی اس کے ساتھ میری دلچسپی تھی۔ مَیں اپنے ابّا کے ساتھ زرعی فارم پر جایا کرتا تھا۔ گو کہ زرعی یونیورسٹی میں میری تعلیمی کارکردگی بہت اچھی نہ تھی پھر بھی مَیں اچھے نمبروں سے کامیاب ہوگیا۔ میرے خیال میں اس کے پیچھے میری دعائیں اور مستقبل کے لئے میرے اچھے ارادے ہی تھے۔ کیونکہ جب مَیں نے زندگی وقف کرنے کا ارادہ کیا تو مَیں نے اللہ کے حضوردعا کی کہ اے اللہ! مَیں ایسا اسی صورت میں کروں گا اگر M.Sc. کے فائنل امتحان میں میری فرسٹ ڈویژن آئے۔ یہ رزلٹ اسی دعا کا نتیجہ تھا۔
٭ حضور انور نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے حوالہ سے بیان فرمایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جب فوت ہوئے تو اس وقت مَیں پندرہ سال کا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ میرے ماموں تھے۔ خلیفہ منتخب ہونے کے بعد میرے ساتھ اُن کی محبت اور شفقت پہلے سے کئی گُنا بڑھ گئی تھی۔
جب مَیں یونیورسٹی میں تھا تو حضورؒ نے مجھے فرمایا کہ میں وہاں سے اُن کے لئے خالص شہد لے کر آؤں۔ یونیورسٹی میں ایک ڈیپارٹمنٹ کا نام Apiculture Department تھا جس میں شہد کی مکھیاں پالنے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ میں وہاں سے ان کے لئے خالص شہد لے کر آتا تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھے کچھ پیسے دیئے۔ مَیں نے کہا کہ ابھی رہنے دیں جب مَیں شہد لے آؤں گا تو تب پیسے لے لوں گا۔ انہوں نے کہا نہیں تم یہ پیسے لے لو کیونکہ میرا طریق ہے کہ جب میں کسی کو کہہ کر کوئی چیز منگواتا ہوں تو اس کی ادائیگی پہلے کرتا ہوں۔ اتفاقاً اُس مرتبہ مجھے شہد نہ مل سکا۔ یونیورسٹی کے ایک احمدی پروفیسر سے مَیں نے ذکر کیا کہ مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے لئے شہد چاہئے۔ تو انہوں نے ایسا شہد لاکر دیا جس کے اندر چھتہ بھی موجود تھا۔ انہوں نے مجھ سے اس شہد کی قیمت نہیں لی تھی چنانچہ میں نے وہ شہد لاکر دیا اور 20 روپے جو حضورؒ نے مجھے شہد کے لئے دیئے تھے واپس دینے چاہے تو حضورؒ نے فرمایا کہ میں دی ہوئی رقم واپس نہیں لیا کرتا۔ یہ پیسے تمہارے ہیں خواہ شہد دینے والے نے تم سے رقم لی ہو یا نہ لی ہو۔
٭ جب میں نے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کیا تو تحریک جدید نے فیصلہ کیا کہ اُنہیں اس مضمون کے Qualified کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے خیال میں نہ ہی وہ مجھے دفتری کام سونپ سکتے تھے اور نہ ہی انہیں افریقن ممالک میں ہمارے سکولوں کے لئے اس مضمون کے کسی ٹیچر کی ضرورت تھی۔ اس پر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ ’’تمہیں اس کی ضرورت نہیں مگر مجھے اس کی ضرورت ہے‘‘۔ پھر آپؒ نے مجھے نصرت جہاں سکیم کے تحت غانا جانے کا ارشاد فرمایا۔ روانگی کے وقت جب مَیں ملنے گیا تو حضورؒ نے مجھے گلے لگایا۔ کسی خلیفہ سے گلے ملنے کا یہ میرے لئے پہلا موقعہ تھا۔ اس موقع پر حضورؒ نے ایک نہایت اہم بات جو مجھ سے فرمائی وہ یہ تھی کہ:
ہمیشہ یاد رکھنا کہ تم غاناایک واقف زندگی کے طور پر جارہے ہو اور یہ بھی یاد رکھنا کہ تم حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہو اس لئے لوگوں کی نظریں تم پر ہوں گی۔ لہٰذا ہمیشہ اپنے اللہ کو یاد رکھنا۔ کوئی ایسا کام نہ کرنا جو اسلام کی تعلیم اور احمدیت کی روایات کے خلاف ہو۔
٭ حضور انور نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے حوالہ سے بیان فرمایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے میرا بچپن سے ہی بہت قریبی تعلق تھا۔ 1972ء میں اتفاقاً مری میں ہمارا اکٹھا چند دن کا پروگرام بن گیا۔ وہاں مَیں آپ کے ساتھ مل کر ہائیکنگ اور کوہ پیمائی کرتا رہا ۔ ہم نے سارا وقت بہت بے تکلفی کے ماحول میں گزارا۔ جب آپ خلیفہ بنے تو مَیں اُس وقت غانامیں تھا اور آپ کے خلیفہ بننے کے بعد آپ سے میری پہلی ملاقات یہاں لندن میں 1985ء میں ہوئی جبکہ مَیں غانا سے ربوہ جاتے ہوئے لندن میں دو دن کے لئے ٹھہرا تھا ۔ گوکہ خلیفہ بننے سے پہلے مَیں آپ سے بہت بے تکلّف تھا لیکن اب آپ کی شخصیت مکمل طور پر بدل چکی تھی اور اس کے واسطہ سے میرے انداز میں بھی ایک تبدیلی پیدا ہوچکی تھی۔ چنانچہ مختلف امورپر گفتگو بھی ہوئی مگر اب وہ پہلے والی بات نہ تھی۔ بعد میں حضورؒ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ تم غاناواپس جانے کی بجائے ربوہ میں ہی رہو اور آپؒ نے ربوہ میں ہی میری تقرری فرمادی۔
پھر حضورؒ نے اپنے کچھ نجی کاموں کی ذمہ داریاں بھی مجھے سونپ دیں۔ میں حضورؒ کی سندھ، پنجاب اور دیگر جگہوں پر موجود زرعی زمینوں کی دیکھ بھال بھی کرتا تھا۔ پھر حضورؒ نے مجھ پر اس قدر اعتماد کیا کہ یہ سارے کام میرے سپرد کردئیے۔ جب کبھی مَیں کوئی مشورہ عرض کرتا تو حضور فوراً قبول فرمالیتے۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی معاملہ میں کسی اَور نے مجھ سے مختلف رائے دی ہو اور حضورؒ نے میری تجویز کو منظور نہ فرمایا ہو۔
اس کے علاوہ حضورؒ نے جماعتی معاملات میں بھی مجھ پر بہت اعتماد کیا ۔ آپ نے مجھے ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا جو پاکستان میں سب سے بڑا جماعتی عہدہ ہے۔ مَیں ناتجربہ کار تھااور کم عمر بھی تھا۔ اُس وقت حالانکہ مجھ سے زیادہ تجربہ کار لوگ بھی موجود تھے جومجھ سے کہیں زیادہ قابلیت رکھنے والے، روحانی لحاظ سے بلند مرتبت والے، ذہنی صلاحیتوں میں بھی بڑھ کر تھے اور بھی بہت سے Factors تھے مگر پتہ نہیں کیوں مجھے اس عہدہ پر مقرر فرمایا؟ شاید یہ تمام خدائی منشاء تھا یا حضورؒ کا مجھ پر اعتماد اور آپ کی دعائیں تھی۔ پاکستان میں انتظامی امور کے چلانے میں کافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر مَیں ان مشکلات پر قابو پانے میں بآسانی کامیاب ہوگیا۔
٭ اطفال الاحمدیہ میں 9یا10سال کی عمر میں مجھے اپنے گروپ کا سائق مقرر کردیاگیا۔ پھر محلّہ میں خدام الاحمدیہ کے مختلف شعبوں کا منتظم اور پھر زعیم بنا۔ اس کے بعد مہتمم مقامی ربوہ کی مجلس عاملہ میں ناظم عمومی مقرر ہوا۔پھر جب مَیں فیصل آباد ایگریکلچر یونیورسٹی چلا گیا تو یونیورسٹی کے حلقہ کا زعیم منتخب ہوا۔ یہ حلقہ پہلے نچلی ترین سطح پر تھا لیکن اس کے بعد اس حلقہ نے بہت جلد ترقی کی۔ اس کی ایک وجہ وہ تجربہ بھی تھا جو مجھے بچپن سے ہی مجلس کے کاموں کا ربوہ میں حاصل ہوا تھا۔
پھر جب مَیں تعلیم مکمل کر کے فیصل آباد سے ربوہ واپس آیا تو مجھے خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں مہتمم صحت ِ جسمانی مقرر کردیا گیا۔ اس کے بعد واقف زندگی کے طور پر غانا میں میری تقرری ہوگئی۔ 1985 ء میں غانا سے واپس آیا تو چند ماہ کے لئے مہتمم تجنید، پھر مہتمم صحت ِجسمانی اور پھر مہتمم مجالسِ بیرو ن مقرر ہوا اور پہلی مجلس جس کا مَیں نے دورہ کیا یُوکے کی مجلس تھی۔ یہ 1988ء کا واقعہ ہے۔ اس وقت صفی صاحب قائد خدام الاحمدیہ یُوکے ہوا کرتے تھے۔ یہاں محمود ہال میں مَیں نے خدام الاحمدیہ کی میٹنگ کی تھی۔ اسی سال حضورؒ کے نمائندہ کے طور پر جرمنی میں ہونے والے خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے افتتاح کے لئے بھی بھجوایا گیا تھا۔ پھر 1989ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے سسٹم میں تبدیلی فرمائی اور ہر ملک کو اپنا صدر خدام الاحمدیہ مقرر کرنے کی ہدایت فرمائی۔
٭ 1971ء میں گریجویشن مکمل کرکے مَیں نے پاکستان آرمی کے لئے اپلائی کیا۔ اگرچہ اُس وقت بھی میری خواہش وقف زندگی ہی کی تھی لیکن چونکہ میرے گریڈ اتنے زیادہ اچھے نہ تھے اس لئے میں نے یہ سوچا کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ چونکہ تم کچھ اَور نہیں کرسکتے تھے اس لئے تم نے زندگی وقف کردی ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ پاکستان آرمی جوائن کرلوں۔ لیکن آخری ٹیسٹ میں جو کوہاٹ میں ہوا تھا مجھے Reject کردیا گیا۔ وہاں ایک Practical task کے دوران ہمارے گروپ کے لئے مقرر میجر نے مجھ سے کہا کہ جب تم کسی گروپ لیڈر کے تحت کام کر رہے تھے تو اپنا کام کرنے کے ساتھ ساتھ گروپ لیڈر کو مسلسل مشورے دے رہے تھے اور جب تم گروپ لیڈر بنائے گئے تو اُس وقت بھی تم اپنے ماتحت ساتھیوں کو احکامات دے رہے تھے اس لئے میرا خیال ہے کہ تم آرمی کی بجائے کوئی ایسا جاب تلاش کرلو جہاں تم دوسروں کو احکامات دے سکو۔
پس ابتدا سے ہی جب آپ ’اطفال الاحمدیہ‘ یا ’خدام الاحمدیہ‘ میں کام کررہے ہوتے ہیں تو آپ مسائل کا سامنا کرنا اور انہیں حل کرنا سیکھتے ہیں۔ دوسروں کی راہنمائی کرتے ہیں اور اچھی تجاویز دینا سیکھتے ہیں۔
٭ حضور انور نے اپنے زمانہ اسیری کے حوالہ سے بیان فرمایا کہ مجھے جو اسیرراہ مولیٰ بننے کا موقع ملا تو اصل معاملہ ہمارے شہر ربوہ کے نام کی تبدیلی کا تھا۔ چونکہ ربوہ کا لفظ قرآن کریم میں آیا ہے اس لئے مولویوں کے مطالبہ پر پنجاب اسمبلی میں ربوہ کا نام پہلے صدیق آباد تجویز کیا گیا مگر بعد میں انہیں خیال آیا کہ اس نام میں بھی اسلامی رنگ پایا جاتا ہے۔آخرکاروہ چناب نگر کے نام پر متفق ہوئے۔ پنجاب ا سمبلی نے یہ قراردادپاس کی تو ربوہ کی Main شاہراہ پر لگے سائن بورڈوں پر (جن پر ربوہ لکھا ہوا تھا ) کسی سرکاری اہلکار نے سفیدی پھیر دی۔ کسی شخص نے اس سفیدی کو دھو دیا۔ اور یہ معاملہ احمدیوں اور غیراحمدیوں کے درمیان خاصی کشیدگی کا باعث بن گیا تھا۔ پھر ربوہ کے بس سٹینڈ کے سامنے لکھی ہوئی قرآنی آیت یا عربی زبان میں چند الفاظ پر کسی نے Paint کردیا تو ایک شرارتی مولوی نے یہ آواز اٹھائی کہ مرزا مسرور احمد اور صدر عمومی کرنل ایاز احمد خانصاحب اور دو دیگر افراد نے یہ کام کیا ہے۔ چنانچہ ہمارے خلاف ربوہ کے پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج کرادیا گیا۔ مخالفین اس کیس میں دفعہ 295-C کے تحت کارروائی کرنا چاہتے تھے جس کے تحت حتمی سزا موت یعنی پھانسی ہو سکتی ہے۔ اس پر صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی اجازت سے اس F.I.R کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ مَیں عدالت کے سامنے پیش ہوا تو عدالت نے فیصلہ دیا کہ یہ کیس واپس سیشن کورٹ بھیج دیا جائے جہاں یا تو ضمانت منظور کی جائے گی یا کیس کی سماعت ہو گی۔ چنانچہ پہلے یہ کیس جھنگ کی سیشن کورٹ میں اور پھر چنیوٹ منتقل کردیا گیا جہاں ہماری چار یا پانچ دفعہ پیشی ہوئی۔ ہمارے حق میں بہت سی شہادتوں اور دلائل کے باوجود جج نے ہمیں مجرم قرار دے کر جیل بھجوانے کا فیصلہ دیدیا۔ عموماً عدالت میں پولیس نہیں ہوتی مگر چونکہ پہلے سے یہ امر طے شدہ تھا اس لئے فیصلے سے پہلے ہی پولیس نے ہمیں گھیرا ہوا تھا۔ ہمیں پتہ تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ ہمارے دو ساتھی ماسٹر محمد حسین صاحب اور ایک لڑکا اکبر بھی ملزم قرار دئیے گئے تھے۔ چنانچہ پولیس انسپکٹر نے آگے بڑھ کر ان دونوں کو ہتھکڑیاں لگادیں۔ مَیں نے یہ دیکھا تو اپنے ہاتھ بھی آگے کردئیے کہ پھر مجھے بھی ہتھکڑی لگائو۔ وہ انسپکٹر بہت گھبرایا ہوااور شرمندہ تھا۔ کہنے لگا نہیں نہیں ہمیں صرف ان دونوں کو ہتھکڑی لگانے کو کہا گیا ہے آپ کو نہیں۔ہم آپ کو صرف ان دونوں کے ساتھ پولیس سٹیشن لے جائیں گے۔ چنانچہ وہ ہمیں پولیس سٹیشن لے گئے۔ یہ جمعہ کا دن تھا مسجد اقصیٰ میں جمعہ پڑھانے والے امام صاحب نے ہمارے خلاف ہونے والے کیس کا ذکر کردیا اور یہ بھی کہ ہمیں گرفتار کرلیا گیا ہے ۔چنانچہ جمعہ کے بعد قریباً سارا ربوہ پولیس سٹیشن کے باہر جمع ہو گیا۔ ہر طرف مرد، عورتیں اور بچے کھڑے نظر آتے تھے۔ ہمیں ایک رات ربوہ کے پولیس سٹیشن میں رکھ کر اگلے دن جھنگ لے جایا گیا۔
جھنگ جیل کی بیرکس کے اندر بہت سے جرائم پیشہ افراد تھے۔ کئی قتل میں ملوث تھے۔ کالعدم دہشتگرد تنظیم سے تعلق رکھنے والے بھی تھے۔ ہم اپنے حلیوں اور چہروں سے اُن سے مشابہت نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے ہم انہیں بہت معززدکھائی دیئے۔ پہلے انہوں نے خیال کیا کہ شاید حکومت یا انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ نے ہمیں اُن سے تفتیش کرنے یا معلومات حاصل کرنے کیلئے بھیجا ہے اس وجہ سے وہ کافی گھبرا گئے۔لیکن بعد میں جب اُن کو معلوم ہوا کہ ہم احمدی ہیں اور ہمارے خلاف کیس کی تفصیلات کا انہیںعلم ہوا تو ان میں سے بعض نے ہمارے ساتھ ہمدردانہ رویّہ اختیار کیا اور جو دہشتگرد تنظیم سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ ان چار احمدیوں کے خلاف کیا کیا جائے۔
جیل کی جس بیرک میں ہمیں بھیجا گیا تھا وہ غالباً صرف چالیس افراد کے لئے تھی لیکن اس میں 200 کے قریب افراد تھے لہٰذا وہاں بیٹھنے کے لئے بھی جگہ تلاش کرنا مشکل تھا۔ ایک شخص نے ہمیں اپنی دری دی کہ آپ یہاں بیٹھ جائیں۔ ہم کچھ دیر وہاں بیٹھے اور دوپہر کا کھانا وہیں کھایا۔ شام کو ہمیں احساس ہوگیا کہ رات یہیں گزارنی پڑے گی۔ وہاں سونا ویسے ہی محال تھا۔ چنانچہ ہم نے آپس میں مشورہ کیا اور صدر عمومی کرنل ایاز محمود خان صاحب نے کہا کہ مجھے جیلر سے بات کرنے دیں کہ ہم ان کے ساتھ نہیں ٹھہر سکتے کیونکہ ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ لوگ منصوبہ بندی کرچکے ہیں کہ رات کو ہمیں نقصان پہنچائیں گے۔ پاکستا نی جیلوں میں اگرچہ اسلحہ وغیرہ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن ہمیں وہاں جاکر معلوم ہوا کہ جیل کے اندر کس طرح چمچ کے دستے کو رگڑ کر تیز دھار والے چاقو کی شکل دیدی جاتی ہے۔
سپرنٹنڈنٹ جیل بات کو سمجھ گیا اور شام چھ بجے کے قریب انہوں نے یہ انتظام کیا کہ دوسرے لوگوں کو وہاں سے نکال کرکسی اَور جگہ منتقل کردیا۔ اس بات پر دوسرے لوگ ہم سے بہت ناراض ہوئے۔ وہ سب اَن پڑھ اور جرائم پیشہ لوگ تھے۔ ہم نے چندگھنٹے اُن میں گزارے تو ان میں سے بعض نے بتایا تھا کہ اس نے تین قتل کئے ہوئے ہیں اور بعض نے اپنی بہن کا قتل کیا تھا اور بعض ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث تھے۔ بہرحال یہ چند گھنٹے ایک عجیب تجربہ تھا۔ ہم نے اخبارات میں ایک دفعہ یہ خبر پڑھی تھی کہ جیل کے اندر دو گروپوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں دو پارٹیوں کے کئی افراد قتل کردئیے گئے ۔ اُس وقت یہ سمجھنا مشکل تھا کہ جیل کے اندر ایسا کرنا کس طرح ممکن ہے مگر وہاں جانے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ یہ کس طرح ہوتا ہے۔
ہم نے ایک رات وہاں گزاری۔ اگلے دن انہوں نے ہمیں پانی اور صاف ستھری ٹائلٹ کی سہولت فراہم کردی۔ ہم نے قریباً دس دن وہاں گزارے۔ جماعت کے لوگوں کو اس بارہ میں تشویش اور فکرمندی تھی۔ سات آٹھ دنوں کے بعد میں نے جان لیا کہ یہ کیس لمبا چلے گا۔ 295-C ایسی دفعہ تھی کہ اگر اس کی ضمانت کروا بھی لی جاتی تو کوئی اَور دفعہ لگاکر کیس بنا دیا جاتا۔ مخالفین کو پورا یقین تھا کہ اِس شخص کو یونہی نہیں جانے دیا جائے گا۔ چنانچہ سات آٹھ دنوں کے بعد میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو لکھ دیا کہ میرا خیال ہے کہ اس کیس کو کچھ وقت لگے گا اس لئے مناسب ہے کہ کسی اَور کو ناظر اعلیٰ مقرر کردیا جائے تاکہ وہ انجمن کے معاملات کو بغیر کسی رکاوٹ کے چلاتا رہے۔ حضورؒ نے جواب بھجوایا کہ ناظر اعلیٰ آپ ہی رہیں گے ۔ جیل کے افسران نے ہمارے ساتھ فراخدلانہ سلوک روا رکھا اور مجھے اس بات کی اجازت دے دی کہ مَیں چیک وغیرہ سائن کرسکوں۔ دیگر ذمہ داریاں قائم مقام ناظر اعلیٰ جن کو مَیں نے مقرر کیا تھا ادا کرتے رہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی طرف سے یہ جواب ملنے کے بعد کہ ’’ناظراعلیٰ آپ ہی رہیں گے‘‘ مَیں سمجھ گیا تھا کہ اللہ کے فضل سے اب یہ کیس لمبا نہیں چلے گا۔ جیل میںبعض ساتھیوں نے کچھ خوابیں بھی دیکھی تھیں جن کی مَیں نے یہ تعبیر کی کہ ہم جلد قید سے رہا کر دئیے جائیں گے۔
گیارہ دن کے بعد ہم میں سے دو کو رہا کردیا گیا۔ باقی دو کو بھی اگلے دن چھوڑ دیا گیا۔
کیس تیار کرنے والے مجسٹریٹ نے اس کیس کو اس طرح تیار کیا کہ اس میں جرم کی شدّت کو خوب اچھی طرح بیان کیا گیا تھا۔ اور آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ وہ مجسٹریٹ میرا دوست تھا یا کم از کم میرا دوست ہونے کا اظہار کرتا تھا۔ مَیں اُسے اچھی طرح جانتا تھا۔ اُسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ کیس کی سنگینی اس حد تک پہنچ جائے گی۔ چنانچہ جب اس نے ہمیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھا تو اس نے ایک اور رپورٹ تیار کی کہ اسے کچھ اَور شواہد اور اشارے ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مجرم نہیں ہیں۔ لیکن حکّام مخالفین سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ انہوں نے مخالفین کو پتہ نہیں لگنے دیا کہ وہ اس کیس کو ختم کرنے جارہے ہیں اور انہوں نے ایسا کر دیا۔ مخالف یہی سمجھتا رہا کہ ہمارے خلاف کیس چل رہا ہے۔
(آئندہ شمارہ میں جاری ہے)
(دوسری و آخری قسط)
مجلس خدام الاحمدیہ یُو کے کو صدسالہ خلافت جوبلی 2008ء کے موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک تاریخی انٹرویو کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جو روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9 اور 10مئی 2012ء میں شامل اشاعت ہے۔ اس انٹرویو میں سے انتخاب کی دوسری اور آخری قسط ہدیۂ قارئین ہے۔
٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ افریقہ میں مَیں نے اپنے قیام کو کافی Enjoy کیا۔ جب میں وہاں گیا تھا اس وقت مجھے پتہ نہیں تھا کہ میں ایک ایسی جگہ جارہا ہوں جہاں بجلی، گیس اور پانی نہیں ہے۔ سکول کے پرنسپل مجھے کماسی سے اپنے ساتھ سلاگا لے گئے جوغانا کے شمال میں ایک دُور دراز قصبہ ہے ۔یہاں ہماری رہائش ایک بہت چھوٹے سے مکان میں تھی۔ دو کمرے تھے اور سامنے تین چار فٹ کا برآمدہ تھا۔ ایک طرف کچن اور ٹائلٹ باتھ تھا۔ ایک کمرہ میں مَیں رہتا تھا اور ایک کمرہ میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے۔اس طرح رہنا بہت مشکل تھا اور آپ کو پتہ ہے کہ ایک احمدی کے لئے کتنی مشکل ہوسکتی ہے جہاں ساتھ ہی ایک فیملی بھی رہتی ہو۔ ٹائلٹ جانا ہو یا کسی اور جگہ جانا ہو اس کے لئے پہلے اعلان کرنا پڑتا تھاکہ میں باہر آرہا ہوں یا فلاں جگہ جانا چاہتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اپنی ہر حرکت کے بارہ میں پہلے سے آگاہ کرنا پڑتا تھا کہ مَیں کیا کرنا چاہتا ہوں۔ میں چند ماہ ان کے ساتھ وہاں قیام پذیر رہا۔ پھر مَیں نے الگ گھر میں رہائش رکھ لی۔ ایک سال تک اپنی فیملی کے بغیر اکیلا رہا۔
سلاگا سے ستّر میل کے فاصلے پر ایک بڑا شہر ٹمالےؔ تھا۔ اُن دنوں ہم سکول کے لئے ایک نئے بلاک کی تعمیر کررہے تھے اور عمارتی سامان خریدنے ٹمالے جایا کرتے تھے بلکہ گھر کی اشیاء اور کھانے پینے کی چیزیں خریدنے کے لئے بھی وہاں جاتے تھے۔ ٹمالےؔ جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کی کوئی اچھی سہولت موجود نہیں تھی۔ گورنمنٹ کی صرف ایک بس تھی جو صبح کے وقت اور پھر شام کو ٹمالےؔ جایا کرتی تھی۔ ہم اس سفر سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کب بس خراب ہوجائے گی۔ سب سے پہلے مَیں نے ٹمالےؔ میں رہنے والے مبلغین سے ہی چپاتی بنانا سیکھی تھی۔ عام طور پر مَیں ناشتہ بریڈ اور انڈے سے کرتا تھا۔ دوپہر کا کھانا نہیں ہوتا تھا۔ قریباً چار بجے سکول بند ہونے کے بعد مَیں شام کاکھانا تیار کرتا تھا۔’یام‘ یااسی قسم کے کسی سالن کے ساتھ کچھ چپاتیاں بناتا تھا۔ شروع کے اُن دنوں میں میرا وزن 25 پائونڈ کم ہوگیا تھا جو کچھ دیر بعد ٹھیک ہوگیا۔ تو یہ ایک Adventure تھا جسے مَیں نے Enjoy کیا۔
اُن دنوں ایک اَور ایڈونچر بھی ہوا۔ یہ بس جب ٹمالےؔجانے کے لئے سلاگاؔ پہنچتی تھی تو اس میں کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی۔ اس لئے ہم اس میں اُس وقت سوار ہوجاتے جب یہ ٹمالےؔ سے آرہی ہوتی اور پھر پہلے 17میل کے فاصلے پرواقع آخری سٹاپ (Lake) تک جاتے کیونکہ وہاں بس خالی ہوجایا کرتی تھی اور بیٹھنے کی جگہ مل جاتی تھی۔ لیکن اس طرح ہمیں مجموعی طور پر 34میل کا زائد سفر کرنا پڑتا تھا۔
ایک دفعہ مَیں اور ہمارے مبلغ رزاق بٹ صاحب ٹمالےؔ جارہے تھے۔ لیکن جب بس اپنے آخری سٹاپ (Lake) پر پہنچی تو خراب ہوگئی۔ یہ شام کا وقت تھا۔ اس وقت مَیں عمارتی سامان خریدنے جارہا تھا۔ سکول کی تعمیر کے سلسلہ میں وہاں سارے کام ہمیں خود ہی کرنے پڑتے تھے۔ بِلڈر بھی ہم ہی تھے اور کنٹریکٹر بھی ہم خود تھے۔سب کچھ ہم ہی ہوا کرتے تھے۔ لہٰذا میرے بریف کیس میں کافی بڑی رقم موجود تھی اور رات ہو رہی تھی اس لئے ڈر تھا۔ اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ یہ خوف تھا کہ کہیں کوئی یہ بریف کیس چھین کر نہ بھاگ جائے۔
آٹھ، نو اور پھر رات کے دس بج گئے لیکن بس کی مرمت کا کام مکمل نہ ہو سکا۔ آخر انہوں نے اعلان کیا کہ ایک ٹرک ڈرائیور کے ذریعہ جو ٹمالے جارہا تھا وہاں پیغام بھجوایا ہے اس لئے جلد ہی دوسری بس آجائے گی۔ لیکن یہ جلد ہی آٹھ گھنٹے طویل تھا۔ چنانچہ ساری رات ہمیں وہاں گزارنی پڑی۔ مجھے ایک بنچ نظر آیا جس پر مَیں بیٹھ گیا اور بریف کیس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑلیا۔ تاکہ اگر مَیں سو جاؤں اور کوئی شخص بریف کیس چھیننے کی کوشش کرے تو جھٹکے سے میری آنکھ کھل جائے۔ میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آدھی رات آپ سولیں اور آدھی رات مَیں سولوں گا۔ اگلی صبح 4 بجے کے قریب بس آگئی اور پھر ہم ٹمالے پہنچے۔
ایک دفعہ سفر کے دوران راستہ میں ہی یہ بس خراب ہوگئی۔ جب ہمیں کوئی متبادل ذریعہ سفر نہ مل سکا تو ہم نے سامان سے لدے ہوئے ایک ٹرک پر بیٹھ کر 70 میل کا فاصلہ طے کیا ۔اس طرح کے کئی مواقع کو مَیں نے Enjoy کیا۔
جب ہم وہاں زرعی فارم چلا رہے تھے تو مَیں روزانہ اپنی رہائش سے فارم تک قریباً 35میل کا فاصلہ ٹریکٹر پر طے کیا کرتا تھا۔ کبھی خود ٹریکٹر چلا کر اور کبھی ٹریکٹر کے مڈگارڈ پر بیٹھ کر جاتا تھا۔ لیکن جتنی دیر وہاں پہنچنے میں لگتی تھی اس وقت تک آدمی اتنا تھک چکا ہوتا تھا کہ وہاں پہنچ کر کام کرنا مشکل ہوجاتا تھا۔ پھر مَیں نے رات فارم پر گزارنی شروع کردی۔ وہاں رہائش کے لئے کوئی کمرہ بھی نہیں تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ ہم وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ رات کو قیام کرتے تھے۔ ایک جھونپڑی نما کمرے کے فرش پر دری بچھادی جاتی تھی جس پر سو جایا کرتے تھے۔ مَیں نے تو کئی راتیں جنگل میں بھی گزاری ہیں۔ رات کو جب آنکھ کھلتی تو اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھتا تھا کیونکہ اس علاقہ میں سانپ اور بچھو بہت پائے جاتے تھے۔
٭ زرعی ماہرین کی رائے تھی کہ غانا میں گندم نہیں اُگائی جاسکتی۔ مَیں نے محسوس کیا کہ ’ہماتان‘ موسم کے دوران درجہ حرارت گر جاتا ہے اس لئے گندم اُگائی جاسکتی ہے۔ مگر وہاں پانی نہیں تھا اس لئے تجویز کیا کہ دریائے وولٹا جو بُرکینافاسو سے آکر غانا میں سے گزرتے ہوئے سمندر میں گرتا ہے، وہاں اگر ہمیں پانی یا آبپاشی کی سہولتیں مل جائیں تو وہاں گندم کاشت کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ میرے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ نائیجیریا کے جس علاقہ میں آبپاشی کی سہولت موجود ہے وہاں گندم کاشت کی جارہی ہے۔ خوش قسمتی سے ہمیں ایک پانی کا پمپ اور چھڑکاؤ کرنے والے آلات بھی میسر آگئے۔ اگرچہ اس کے ذریعے صرف چند ایکڑ رقبہ کو پانی دیا جاسکتا تھا لیکن یہ کم ازکم میرے تجربہ کے لئے کافی تھا۔
چنانچہ مَیں نے نائیجیریا سے اپنے ایک دوست سے گندم کے بیج منگوائے اور اس طرح گندم کی کاشت کا کامیاب تجربہ کیا۔ مَیں نے اس کام پر دو سال صَرف کئے تھے مگر بعد میں آبپاشی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اسے جاری نہیں رکھا جاسکا۔
٭ خلافت خامسہ کے انتخاب کے وقت جب میرے نام کا اعلان ہوا تو مَیں یہ دعا کر رہا تھا کہ حاضرین میں سے کوئی میرے لئے نہ کھڑا ہو۔ بلکہ پہلی دفعہ جب گنتی میں کوئی غلطی لگی تو مَیں نے سر اٹھا کر دیکھا توجو ہاتھ کھڑے تھے مجھے یہی لگ رہا تھا کہ بہت تھو ڑے سے ہاتھ ہیں۔ تو مَیں نے کہا شکر ہے کوئی اَور نامزد ہوجائے گا۔
دوسری دفعہ پھر انہوں ہاتھ کھڑے کروائے تو مَیں نے دیکھا تو کہا کہ ہیں تو کافی لیکن ابھی بھی کافی ہاتھ باقی ہیں جو کسی اَور کے حق میں کھڑے ہوں گے۔ لیکن جب انہوں نے فائنل اناؤنسمنٹ کی تو مَیں پوری طرح کانپ اٹھا۔ بلکہ مَیں نے اسی مجلس میں یہ کہا کہ اب تو کوئی جائے مفر نہیں اور Excuse نہیں کر سکتے ، اس سے دوڑ نہیں سکتے۔ قواعد اجازت نہیں دیتے، نہیں تو مَیں شاید اس کو چھوڑ دیتا۔ … میرا تو نام جب صدر خدام الاحمدیہ کے لئے پیش ہوتا رہا، دو دفعہ پیش ہوا، مَیں تو وہاں بھی دعا کرتا رہا ہوں کہ نہ بنوں۔
٭ انتخاب خلافت کے وقت بطور ناظر اعلیٰ ساری انتظامی ذمہ داریا ں میرے سپرد تھیں، جماعت کے سارے معاملات چلانے کا ایک بوجھ تھا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تدفین کا معاملہ تھا، وہ کہاں ہوگی ؟ جنازہ کب ہوگا؟ یہ سارے مسائل طے کرنے تھے۔
٭ مَیں عملی طور پر ایک ایسا آدمی تھا جس کے لئے دفتر میں مسلسل دوگھنٹے بیٹھنا بھی مشکل تھا۔ تقریباً ہر دو گھنٹے بعد دفتر سے اٹھ کر راؤنڈ لگاتا اور مختلف دفاتر کو Visitکیا کرتا تھا۔ پھر واپس آکر دفتر بیٹھتا تھا۔ یہاں تک کہ ناظر اعلیٰ کی ذمہ داری ملنے کے بعد بھی میرا یہی دستور رہا، یہ ایک انتظامی عہدہ تھا۔ چنانچہ دفتر میں چھ سات گھنٹے گزارنے کے بعد مَیں اپنے فارم پر چلا جاتا تھا اور کچھ وقت وہاں گزارتا، اس دوران وہاں ایسے کام کیا کرتا تھا جس میں ذہنی بوجھ نہ ہو بلکہ اپنے ہاتھ سے مشقّت والاکام ہوتا تھا۔ بہرحال خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد میرے معمولات میں ایک U-turn آگیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ مجھ سے کیسے ہوگیا؟ یہ اللہ ہی تھا جو تمام کاموں کا کرنے والا تھا۔ پہلی ہی رات میرے اندرایک مکمل تبدیلی واقع ہوگئی تھی۔ مَیں صبح سے شام تک اور پھر رات گئے تک دفتر میں بیٹھ کر کام کرتا رہا۔ مجھے تقریر وغیرہ کرنے کا بالکل تجربہ نہیں تھا مگر خدا نے میری راہنمائی کی۔
٭ حضور انور نے اپنی روزمرہ مصروفیات کے حوالہ سے بیان فرمایا کہ آجکل مَیں بہت صبح اٹھتا ہوں۔ نوافل ادا کرنے کے بعد قرآن کریم کے چند رکوع کی تلاوت کرتا ہوں۔ پھر نمازِفجر کے بعد سیر کے لئے جاتا ہوں۔ واپس آکر نہاکر ناشتہ کرتا ہوں۔ اس کے بعد پھر قرآن کریم کی کچھ تلاوت کرتا ہوں اور آیات قرآنی پر غور و فکر کرتا ہوں۔ پھر چند منٹ استراحت کے بعد اپنے دفتر میں آجاتا ہوں جہاں میرے کاموں کا آغاز ہوتا ہے۔ مختلف دفتری امور کے علاوہ جماعتی عہدیداروں کے ساتھ میٹنگز اور دفتری ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ پھر نماز ظہرکی ادائیگی کے بعد مَیں دوپہر کا کھانا کھاتا ہوں۔ اس کے بعد چند منٹ قیلولہ کرتا ہوں اور پچیس سے تیس منٹ تک سوتا ہوں۔ پھر میں دوبارہ اپنے آفس میں آجاتا ہوں۔ پھر مغرب کی نماز سے ذرا پہلے مَیں چائے کے لئے اوپر گھر جاتا ہوں۔ مغرب کی نماز کے بعد واپس اپنے دفتر میں آ کر سنتیں ادا کرتا ہوں اور پھر یہیں پر اپنی ڈاک دیکھتا ہوں۔ پھر عام ملاقاتوں کا سلسلہ قریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہتا ہے جس کے بعد رات کا کھانا کھاکر عشاء کی نماز کے لئے جاتا ہوں۔ اور پھر واپس اپنے دفتر میں آجاتا ہوں اور دوبارہ ڈاک دیکھتا ہوں۔ یہ سلسلہ رات گیارہ بجے تک جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد اخبارات، جماعتی رسائل، یا کسی کتاب کا مطالعہ کرتا ہوں جس کے بعد سونے کے لئے چلا جاتا ہوں۔
٭ دنیا میں جہاں بھی احمدی احباب میرے ارد گرد ہوتے ہیں، وہی میری پسندیدہ جگہ ہوتی ہے۔ مگر مجھے افریقہ بہت پسند ہے خاص طور پر غانا کیونکہ مَیں نے کچھ عرصہ یہاں گزارا اور میری ابتدائی اور عملی زندگی کا آغاز غانا ہی سے ہوا۔
٭ قادیان میں جب آپ بہشتی مقبرہ میں داخل ہوتے ہیں خصوصاً وہ احاطہ جہاں حضرت مسیح موعودؑ کا مزار ہے، اس وقت کے جذبات کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ جذبات اُبل رہے ہوتے ہیں۔جب آپ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو اُس وقت اپنے پرقابو نہیں رہتا اور پھر جب آپ ان گلی کُوچوں کودیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ انہی گلیوں میں حضرت مسیح موعودؑ کے مبارک قدم پڑے تھے۔
میرا خیال ہے کہ قادیان میں جانے والے ہر فرد کے ایسے ہی جذبات اور احساسات ہوتے ہیں۔ اور مکّہ اور مدینہ جانے والوں کے جذبات اور احساسات اس سے بھی بڑھ کر ہوں گے۔
٭ مَیں نے احمدی طلباء کو ریسرچ کے میدان میں جانے کے لئے کہا ہے کیونکہ مغربی ملکوں میں ریسرچ کی فیلڈ کا مستقبل روشن ہے۔ بالخصوص چاروں سائنسز یعنی فزکس، کیمسٹری، میڈیسن اور کمپیوٹر سائنس کے مضامین میں۔ اسی طرح ایشیائی لوگوں کی بقا بھی اسی میں ہے کہ وہ مقامی لوگوں کی ضرورت بن جائیں کیونکہ اگر انہیں آپ کی ضرورت نہ ہو تو جہاں تک میں نے محسوس کیا ہے اُن کے دلوں میں آپ کے لئے نفرت کے مخفی جذبات پائے جاتے ہیں۔اگر آپ تعلیم یافتہ نہیں اور ان کے لئے کارآمد نہیں ہیں تو یہ آپ کو پسند نہیں کریں گے۔ خاص طور پر پچھلے چند سالوں میں رُونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے بھی یہ لوگ پہلے کی نسبت زیادہ حسّاس ہوگئے ہیں۔ اس لئے اب مسلمانوں کو تو خاص طور پر خود کو ریسرچ سے منسلک کرنا چاہئے۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا مقصد یہ تھا کہ بندے کو خدا تعالیٰ کے قریب تر لایا جائے۔ اور یہ چیلنج نہ صرف اِس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے بلکہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے وقت جبکہ جماعت کی بنیاد رکھی گئی تھی اُس وقت بھی یہی سب سے بڑا چیلنج تھا اور قیامت تک یہی سب سے بڑا چیلنج رہے گا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں روحانی ترقی کے ذریعہ قرب الٰہی کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے جس کے لئے ہمیں قرآن کریم کا مطالعہ اور قرآن کریم کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے مطالعہ اور آپ کی عطا کردہ راہنمائی کے ذریعہ اپنے روحانی معیار کو بلند کریں، اپنی ذہنی استعدادوں کو صیقل کریں، اپنے آپ کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے منور کریں۔ اسی طرح ہمیں چاہئے کہ اپنے عہد بیعت پر مضبوطی سے قائم رہیں اور خلفاء کی طرف سے دی جانے والی ہدایات پر مضبوطی سے کاربند ہوں۔
٭ جو لوگ وقت کی کمی کا شکوہ کرتے ہیں، اُن کو فعّال بنانے کے لئے سب سے پہلے تو اُنہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ کون ہیں۔ جب ایک دفعہ اُنہیں یہ احساس ہوجائے گا کہ وہ احمدی ہیں اور یہ کہ احمدی ہونے کا مقصد کیا ہے تو آپ انہیں فعّال بناسکیں گے۔ ان پر سختی کرنے سے یا صرف اُنہیں حکم دینے سے یا ان کے خلاف ایکشن لینے سے انہیں فعّال نہیں بنایا جاسکتا۔ انہیں اپنا دوست بنائیں۔ خدام الاحمدیہ میں ایک ایسی ٹیم ہونی چاہئے جو اپنے ایمان میں نہایت پختہ ہو۔ کوئی بحث یا کوئی دلیل جو احمدیت، اسلام ، مذہب یاخداکے خلاف ہوانہیں اپنے ایمان سے ہٹانہ سکے۔ اس ٹیم کے ممبران خشک مُلّاں کی طرح نہیں ہونے چاہئیں۔ وہ ایسے افراد کے ساتھ دوستی کر کے اُنہیں اپنے قریب لائیں۔
یہ ایک مسلسل جدّوجہد ہے اور دنیا کے اختتام تک مسلسل یہی طریق عمل رہے گا۔ کیونکہ قرآن مجید کہتا ہے ’’ذَکِّر‘‘ یعنی تم لوگوں کو مسلسل نصیحت اور یاد دہانی کراتے رہو اور انہیں مسلسل خدا تعالیٰ کی طرف اور اچھے کاموں کی طرف بلاتے رہو۔ مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور ہر ایک سے اس کی طبیعت اور نیچر کے مطابق ڈیل (Deal) اور ٹریٹ (Treat) کیا جاتاہے۔
٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے عہدیداران کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ:
لوگ عام افرادِ جماعت کے بُرے سلوک کو تو برداشت کرلیتے ہیں اور زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ لیکن عہدیداران کی طرف سے زیادتی ہو تو شکوے شکایات اس حد تک جاتے ہیں کہ بالآخر جماعت سے ہی لاتعلقی اختیار کرلیتے ہیں۔ اس لئے جماعتی عہدیداران کو اپنا رویّہ تبدیل کرنا چاہئے، وہ نیک اور متقی ہونے چاہئیں اور اُن کو ایسا طرزعمل اختیار کرنا چاہئے جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ: ’’ہر صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا‘‘۔
٭ دینی اور گھریلو ذمہ داریوں میں توازن پیدا کرنے کے لئے یاد رکھیں کہ دن میں 24گھنٹے ہوتے ہیں۔ اپنے دن کو ذمہ داریوں کے لحاظ سے تقسیم کرلیں۔
آپ کو اپنے بچوں کی ضروریات کا خیال بھی رکھنا چاہئے اور ان کو کچھ وقت دینا چاہئے۔ کبھی بچوں اور فیملی کی طرف زیادہ توجہ درکار ہوگی تو کبھی جماعتی کام کی طرف۔ شام کو بالعموم فیملی کے لئے اور جماعتی کاموں کے لئے وقت نکالا جا سکتا ہے۔
جب ایک دفعہ آپ باقاعدگی سے جماعتی کاموں کے لئے روزانہ ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے وقت نکالنا شروع کر دیں گے تو پھر آپ اس کو ایڈجسٹ کر سکیں گے تا کہ آپ اپنے گھر والوں کو بھی کچھ نہ کچھ وقت دے سکیں گے۔آٹھ بجے شام تک آپ کے بچے ہوم ورک اور کھانے سے فارغ ہوچکے ہوتے ہیں اور آپ کی بیوی بھی فارغ ہوچکی ہوتی ہیں اس وقت آپ ان کے ساتھ کچھ وقت گزار سکتے ہیں۔ آپ کو اپنے بچوں کو کچھ نہ کچھ وقت ضرور دینا چاہئے۔ بالخصوص ان مغربی ملکوں میں جہاں جب بچے بڑے ہورہے ہوں تو اُن کے مسائل بھی سر اٹھا نے لگتے ہیں۔ جب وہ بارہ تیرہ سال کے ہوتے ہیں یعنی Teenager ہوتے ہیں تو مناسب یہی ہے کہ آپ اُن کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھیں تاکہ وہ آپ کے کنٹرول میں رہیں اوراپنے مسائل آپ کے ساتھ Discuss کرسکیں۔
بعض لوگ جماعتی کاموں کے اتنے عادی ہوتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ وقت جماعتی کاموں میںصرف کریں ۔ لیکن یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ٹھیک ہے کہ اس طرح کے لوگ بھی ہونے چاہئیں مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ کے ذہنوں میں یہ بات بھی رہنی چاہئے کہ آپ کے بیوی بچوں کا بھی آپ پر حق ہے ۔
٭ دنیا کے مسائل مختلف قسم کے ہیں۔ غیرترقی یافتہ ممالک اپنے معاشی مسائل سے دوچار ہیں جس کی ایک وجہ اُن کے اپنے لوگوں کی کرپشن ہے۔ نیز بڑی طاقتوں کی Exploitation ہے۔ یہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی جب تک جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر آپ خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے تو کوئی دوسرا آپ کے حالات نہیں بدل سکتا۔
ان مسائل کی ایک اَور وجہ غیرترقی یافتہ ملکوں کی لیڈرشپ بھی ہے۔ اب تک موجودہ جمہوری نظام والے ممالک میں صرف انڈیا ہی ہے جس کے لیڈر تیسری دنیا کے ممالک سے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ افریقن ممالک میں سے کوئی ایسی شخصیت مجھے دکھائی نہیں دی جو اپنے ملک کے ساتھ مخلص اور وفادار ہو سوائے اُن کے جنہوں نے اپنے ملکوں کی آزادی کے لئے بڑی محنت اور جدوجہد کی ہے جیسا کہ غانا میں کوامے نکرومہ کی اپنے وطن کے لئے اخلاص اور وفا واضح طور پرنظر آتی ہے۔ دراصل یہ کوامے نکرومہ ہی تھے جنہوں نے سارے افریقہ کی آزادی کی بنیاد رکھی۔
اگر مسلمان ممالک کے لیڈر اپنے ملک اور اپنے عوام سے مخلص ہوں اور اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل پیراہوں یا کم ازکم قرآنی ہدایات کی پیروی کریں تو ان مسلمان اقوام میں باہمی کشیدگی اور دشمنی نہ ہو۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب کبھی کوئی مسلمان ملک کسی دوسرے مسلمان ملک کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہو تو باقی سب مل کر جارحیت کرنے والے ملک کے خلاف کارروائی کریں یہاںتک کہ ان کے باہمی معاملات طے پاجائیں اور صلح ہوجائے۔ اور آپس میں معاملات طے پاجائیں تو اس کے بعد پھرآپس میں کوئی دشمنی یا کینہ نہ رکھیں۔ اس کے بعد اس ملک کی ترقی میں مدد کرنی چاہئے۔
لیڈرشپ کو جانچنے کے بہت سے پہلو ہیں مگر مختصراً یہ کہ جو کوئی بھی اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہو میرے نزدیک وہی شخص ایک اچھا لیڈر ہے۔ آپ سب کو علم ہے کہ مغربی طاقتوں کے دوہرے معیار ہیں۔ ایک معیار اپنے لئے اور دوسرا غیروں کے لئے۔ ایک معیار غریب قوموں کے لئے ہے اور دوسرا امیر قوموں کے لئے۔ اگر وہ ساری دنیا کے لوگوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنے لگ جائیں اور اگر وہ دنیا میں قیامِ امن کے لئے سنجیدہ ہوں توآپ کو ان مغربی طاقتوں کا افریقن ممالک کے ساتھ یا بہت سے ایشیائی ملکوں کے ساتھ یا مشرقی یورپ کے مسلمان ممالک کے ساتھ مختلف سلوک نظر نہیں آئے گا۔ بوسنیا اور سربیا کے معاملہ کو ہی دیکھ لیں کہ وہاں کیا ہوتا رہا ہے۔ اس طرح تو امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مغربی طاقتیں قیام امن کے لئے مخلص اور سنجیدہ نہیں ہیں۔
٭ یہ خیال کہ مذہب دنیاوی ترقی اور کیریئر کے راستہ میں رکاوٹ ہے، اس بارہ میں قرآن کریم کی تعلیمات بہت واضح ہیں۔ آپ قرآن کریم پڑھتے ہیں، یہ کتاب آپ کو ماڈرن سائنس، کائنات، ٹیکنالوجی بلکہ ہر چیزکے بارہ میں بتاتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ بھی وضاحت فرما چکے ہیں کہ یہ بات درست نہیں کہ مذہب جدید سائنس سے ہم آہنگ نہیں۔ اگر آپ ایک وکیل ہیں تو مذہب یہ نہیں کہتا کہ آپ وکیل نہیں بن سکتے۔ اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو مذہب یہ نہیں کہتا کہ آپ ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکتے۔
قرآن اور اسلام خود جدید علوم اور جدید سائنس کی طرف راہنمائی کررہے ہیں۔ تو پھر کیسے ممکن ہے کہ یہ اس کا راستہ روکے یا ایسے دنیاوی امور میں رکاوٹ ڈالے۔
1908ء میں جب جان کلیمنٹ نے حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کی۔ جان کلیمنٹ نیوزی لینڈ کے ایک ماہر فلکیات تھے اور انہوں نے ہی سمندری طوفانوں کو نام دئیے تھے۔ انہوں نے بھی یہی سوال کیا تھا کہ سائنس کے بارہ میں اسلام کیا کہتا ہے؟ حضرت مسیح موعودؑ نے جواب دیا کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ جدید علوم اور جدید ٹیکنالوجی کو Explore کیا جائے اور ان سے فوائد حاصل کئے جائیں، اس میں کوئی روک نہیں۔
پس مذہب جدید سائنسی علوم کے حصول میں مانع نہیں ہے بلکہ وہ تو کہتا ہے کہ دونوں ایک ساتھ کارفرما ہیں، مذہب سائنس کے متعلق معلومات دیتا ہے اور سائنس مذہب کے متعلق بتاتی ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے سائنسی تجربات کی بنیاد قرآنی آیات پر مبنی تھی۔ جب مذہب سائنسی تحقیقات میں کوئی روک نہیں ڈالتا تو پھر باقی معاملات میں کیوں روک بنے گا!۔
البتہ مذہب اس سے ضرورروکتا ہے کہ مثلاً اگر دنیا کہے کہ طوائف کے پاس جاؤ یا اس قسم کے بُرے کام کروتو اسے رکاوٹ تو نہیں کہتے یہ تو اخلاقی تعلیم ہے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ مذہب کو شراب نوشی یا کسی ایسی چیز سے جو نشہ کا عادی بنانے والی ہو منع نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن مذہب ایسی باتوں سے روکتا ہے۔ اگر اس قسم کی باتوں کو آپ دنیوی معاملات کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے مذہب ان سے روکتا ہے۔
٭ دنیا کے لوگوں اور اُن کی لیڈرشپ کو خدا کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ جب تک وہ اس بات کو نہیں سمجھتے اور اس کا احساس نہیں کرتے کہ انہیں اپنے خالق کی ہدایات اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے اور یہ کہ وہ ان سے کیا چاہتا ہے، اس وقت تک دنیا میں صحیح معنوں میں امن کا قیام نہیں ہوسکتا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ مَیں دو ہی مقاصد لے کر آیا ہوں۔ پہلا یہ کہ لوگوں کا تعلق خدا سے جوڑوں اور دوسرا یہ کہ انسان کو دوسرے انسانوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کروں۔
٭ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلی کا کلیۃً تعلق Check and balance system سے ہے۔ دنیا کے نظام میں جو اعتدال اور توازن اس کے خالق نے رکھا تھا اس کو اگر خراب کیا جائے تو لازماً اس کے نتیجہ میں عدم توازن کے مسائل پیدا ہوں گے۔ مگر اب جدید تحقیق کرنے والے اپنے مؤقف کوتبدیل کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف پٹرول اور گیسز کا استعمال اور درختوں کا کاٹا جانا ہی اس تبدیلی کا سبب نہیں ہے۔ تاہم میرے خیال میں اس بات میں بھی صداقت ہے، خاص طور پر افریقہ اور ایشیا کے ممالک میں جنگلات بڑی تیزی سے بلکہ مَیں تو کہوں گا کہ ظالمانہ طور پر کاٹے جارہے ہیں اور اس کے مقابل پر نئے درخت لگانے کی طرف توجہ نہیں ہے۔ دوبارہ جنگلات لگانے اور ان کے احیاء کے لئے کوئی کام نہیں ہورہا۔ اسی طرح یہاں پر بھی چونکہ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس وجہ سے جنگلات میں کمی ہورہی ہے۔ شہروں اور قصبوں میں شجر کاری کی جاسکتی ہے لیکن یہ نہیں کی جا رہی۔
اس کے ساتھ ساتھ جہاں آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، لوگوں میں سُستی بھی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ہر شخص کار کے ذریعہ سفر کرنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ تیسری دنیا کے ملکوں مثلاً نائیجیریا میں کاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ جب حکومت نے اس مشکل کے حل کے لئے ایسا اقدام کیا کہ ایک دن طاق نمبروں والی کاروں پر اور دوسرے دن جفت نمبر والی کاروں پر پابندی لگادی تو لوگوں نے اس مسئلہ کا یہ حل نکالا (کہ چونکہ اُس وقت وہاں کے لوگوںکے پاس پیسے کی فراوانی تھی) ہرگھرانے نے دوکاریں خرید لیں ایک طاق نمبر والی اور دوسری جفت نمبروالی۔
پس گیسوں کا اخراج مسلسل بڑھ رہاہے۔ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بھی ماحول کو متاثر کر رہے ہیں۔ پھر جنگلوں کو کاٹا جانا، مشینری کا استعمال، حتیٰ کہ پنکھے اور لائٹس یہ سب چیزیں گرین ہاؤس کو متأثر کر رہی ہیں۔ ان سب چیزوں پر غور کرنا ہوگا کہ کس طرح اس مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے؟ مگر درخت اور پودے لگانا سب سے اہم کام ہے۔ جب مَیں چھوٹی عمرکا تھا تو سفر کرتے ہوئے راولپنڈی سے اوپر مری کی طرف جاتے تو وہاں گھنے جنگلات دکھائی دیا کرتے تھے مگر اب وہ سارا علاقہ اور پہاڑ بنجر زمین کی طرح نظر آتے ہیں۔
٭ بعض یورپین ملکوں میں عورتوں کے سر ڈھانکنے سے متعلق قانون سازی کے بارہ میں ایک سوال کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اگر مسلمانوں میں اتحاد ہو تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے لباس اور مذہب کا حصہ ہے اور یہ ہماری عورتوں کے تقدس اور احترام سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر دنیا کی عورتیں ہر ملک میں متحد ہوں تو وہ کہہ سکتی ہیں کہ ہم سکارف میں اپنے آپ کوزیادہ آرام میں محسوس کرتی ہیں۔ یہ ہمارے تقدس کے لئے ہے۔ ہم اِسے ترک نہیں کرنا چاہتیں۔ عورتوں کی بہت سی تنظیمیں ہیں جنہوں نے دوہرے انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ بعض اوقات وہ کہتی ہیں کہ ہم سکارف نہیں چاہتیں اور بعض جگہوں پر وہ سکارف نہیں پہننا چاہتیں۔ لیکن جب مسلمان لڑکی کی پہچان کا معاملہ ہو تو وہ کہتی ہیں کہ ہماراسکارف ہونا چاہئے۔
سب سے پہلے تو آپ کو اپنے دل کو پاک صاف کرنا ہوگا۔ اگر مسلمان دنیا کے تمام ممالک متحد ہوں اور وہ پُرزور انداز میں کہیں کہ یہ ہمار ا مذہبی فریضہ ہے کہ ہماری عورتیں سکارف اوڑھیں اور ہم اسے کسی صورت بھی چھوڑ نہیں سکتے اور دنیا کے کسی بھی ملک کی کوئی مسلمان لڑکی سکارف کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے۔ تو ایسی صورت میں میرا خیال ہے کہ عیسائیوں کی طرف سے سکارف کے خلاف اس طرح کا شور و غوغا نہیں ہوگا۔ مگر بدقسمتی سے ہم اپنے ان مذہبی معاملات پر مضبوطی سے کاربند نہیں ہیں۔
صرف سکارف اوڑھنا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک بطور مسلمان کے مذہب پر مکمل طور پر عمل نہ کیا جائے۔ مَیں نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ احمدی لڑکیاں جو مضبوط ایمان والی ہیں، انہوں نے ایسے اعتراضات کے باوجود اپنے سروں سے سکارف نہیں ہٹایا۔ ایک لڑکی کو اِس وجہ سے اُس کے باس (Boss) کی طرف سے نوٹس دیا گیا تھا کہ اگر اس نے کام کے دوران اپنے دفتر میں سکارف اوڑھنا نہ چھوڑا تو اُسے کام سے فارغ کردیا جائے گا۔ اس احمدی لڑکی نے کہا کہ وہ سکارف لینا نہیں چھوڑے گی ۔ اُس آدمی یعنی اس کے باس (Boss) نے اسے ایک مہینہ کا نوٹس دیا تھا۔ وہ بہت نیک لڑکی تھی،اس نے خدا تعالیٰ سے دعا کی ۔ اس لڑکی نے بتایا کہ باس (Boss) کی دی ہوئی مدّت ختم ہونے سے پہلے خود اُس باس (Boss) کو ہی کام سے فارغ کردیا گیا۔
تو آپ کا خدا سے ذاتی تعلق ہونا چاہئے اور مسلمان ممالک میں یکجہتی ہونی چاہئے ۔اگر وہ سب اکھٹے اور متحد ہوں تو ان کا جواب یہ ہو گاکہ اچھا اگر تم ایسا کروگے تو ہم تمہیں یعنی مغربی ممالک کو تیل دینا بند کردیں گے۔تو اس کے نتیجہ میں یہ لوگ ڈھیلے پڑ جائیں گے۔ مگر کون ہے جو اس قدر جرأت والا قدم اٹھائے!؟
٭ اس سوال کے جواب میں کہ اگر انگلستان اور پاکستان کا میچ ہورہا ہو تو حضورانور کس کو Support کریں گے؟ حضورانور نے فرمایا کہ
’’حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ‘‘۔
عرض کیا گیا کہ اگر دونوں ملکوں کی نیشنیلٹی ہو تو پھر؟
حضور انور نے فرمایا کہ پھر آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ کو زیادہ Benefitsکہاں مل رہے ہیں؟