حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؓ کی حسین یادیں
رسالہ ’’نورالدین‘‘ جرمنی کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں مکرم راشد ارشد خان صاحب ناظم اعلیٰ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکو پہلی مرتبہ قریب سے دیکھنے کا موقع صدسالہ جلسہ سالانہ قادیان میں حفاظت اسٹیج کی ڈیوٹی کے دوران ملا۔ خاکسار 1993ء میں جرمنی آ گیا اور یہاں حفاظت خاص، حفاظت اسٹیج اور اسی طرح دوسری جگہوں پر بھی آپؒ کے ساتھ ڈیوٹی کرنے کا موقع ملا۔ شادی کے بعد جب خاکسار کی فیملی ملاقات ہوئی۔ چونکہ یہ ملاقات اجتماع کے دوران ہی ہوئی تھی تومیرا ڈیوٹی بیج لگا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر حضورؒ نہ صرف یہ کہ خود بہت خوش ہوئے کہ یہ شخص جماعتی خدمت کرتا ہے بلکہ پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کو بھی بتایا اور اس طرح خاکسار کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔
جب ناظم اعلیٰ اجتماع کی ذمہ داری خاکسار کے سپرد کی گئی تو خاکسار نے حضورؒ کو دعا کے لئے خط لکھا کہ حضور دعا کریں کہ جوجو مسائل آئیں وہ ساتھ ساتھ حل بھی ہوتے جائیں۔ اس پر حضور ؒ کا جو جواب آیا اس میں یہ لکھا تھا کہ ﷲ تعالی ہمیشہ راہنمائی کرے اور اگر واقعتاً کوئی مسئلہ ہو تو فوراً صدر مجلس سے یا امیر ملک سے راہنمائی لے لیں۔ اس جواب میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض کام کرنے والے بعض چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی بجائے اپنے سے اعلیٰ عہدیدار کو بتانے کے براہ راست حضور اقدس کو لکھ دیتے ہیں۔ تو حضورؒ نے بطور لائحہ عمل خاکسار کو یہ نصیحت فرمائی۔ نیز خاکسار نے محسوس کیا کہ بعض ایسے مسائل جن کا بظاہر کوئی حل سجھائی نہیں دے رہا ہوتا۔ بجائے اس کے کہ ان پر خود دیر تک مغز ماری کی جائے اگر ان کواپنے سے بڑے عہدیدار کے سامنے رکھا جائے تو چونکہ ان کا زاویہ نگاہ بالکل اَور ہوتا ہے اور دماغ بھی زیادہ روشن ہوتا ہے تو ضرور کوئی نہ کوئی حل نکل آتا ہے۔
ایک بار حضور اقدسؒ اپنی رہائش گاہ سے نکل کر کبڈی کی گراؤنڈ کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک حضورؒ نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری کرکٹ کے میچ کا اسکور دریافت فرمایا۔ ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ حضور اقدسؒ اس میچ پر نظررکھے ہوئے ہیں۔ بعد ازاں ہم اِس میچ کی بھی ساتھ ساتھ رپورٹ دیتے رہے۔ حضورؒ کا کھیل کے دوران کھلا ڑیوں سے محبت کا جو انداز تھا، وہ کھلاڑی جنہوں نے حضور انورؒ کے سامنے میچزکھیلے ہیں ان کو ہمیشہ یاد رہے گا کہ کس طرح حضورؒ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ حضورؒ کو کبڈی کا بہت شوق تھا۔ آپؒ کو افضل اور سٹٹگارڈ کے نعیم احمد خالد صاحب کا کھیل بہت پسند تھا۔ جب کبڈی کی گراؤنڈ میں جاپھی کسی کبڈر کو ایسے پکڑ لیتا تھا کہ اسے چوٹ لگنے کا خدشہ ہوتا تھا تو حضورؒ کرسی پر بیٹھے ہوئے بے چین ہوجاتے تھے۔ حضورؒ کی یہی خواش ہوتی تھی کہ جس طرح گھر میں والدین بچوں کو کھیلتا دیکھتے ہیں لیکن وہ کبھی یہ نہیں چاہتے کہ کسی کو کہیں چوٹ لگ جائے۔
کینیڈا کی کبڈی کی ٹیم 1999ء میں آئی ہے۔ انہوں نے خاص حضور اقدس ؒسے اجازت لی تھی اور خوب تیاری کرکے کھیلنے کے لئے آئے تھے۔ جرمنی کی ٹیم بھی اچھی تھی اور برابر کی ٹیمیں تھیں۔ ہماری خواہش یہی تھی کہ جرمنی کی ٹیم جیتے۔ لیکن حضور اقدسؒ کی یہ خواہش تھی کہ یہ میچ کینیڈا کی ٹیم لے جائے۔ آخر میں کینیڈا کی ٹیم جیت گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ حضور اقدس کی دعاؤں سے جیتے۔
ایک بار حضور ؒ کبڈی کی گراؤنڈ میں جاتے ہوئے راستہ میں فٹ بال دیکھنے کے لئے رُک گئے۔ کرسیاں تھوڑی دور تھیں۔ حضورؒ وہاں نہیں گئے۔ ہم نے درخواست کی کہ حضورؒ یہیں کرسیاں منگوا لیتے ہیں تو حضورؒ نے بڑے ہی پیارے انداز میں فرمایا کہ خیر ہے ہم کھڑے ہو کر ہی فٹ بال کا میچ دیکھ لیں گے۔ اس طرح حضورؒ نے وہاں پر کھڑے ہو کر ہی فٹ بال کا میچ دیکھا۔
ایک دفعہ اجتماع کے موقع پر بہت زیادہ بارش ہوئی۔ اس وقت تقریباً ناممکن لگ رہا تھا کہ فائنل میچز ہوںگے۔ لیکن حضورؒ کی دعا سے یہ معجزہ بھی ہم نے دیکھا کہ نہ صرف یہ کہ بارش فوراً ختم ہو گئی بلکہ پانی بھی جیسے زمین میں ہی غائب ہو گیا۔ اور فائنل میچز بہت اچھے طریقے سے ہوئے۔
جب حضور اقدس کی جرمنی میں آمد ہوتی تھی تو اجتماع کی حاضری بھی معمول سے بہت زیادہ ہوتی تھی۔ لیکن ایسے ہی لگتا تھا کہ تمام انتظامات ایک خودکار طریقے سے خود بخود انجام پذیر ہو رہے ہیں اور چل رہے ہیں۔ لیکن جن اجتماعات میں حضور اقدس ؒ تشریف نہیں لاتے تھے تو بسا اوقات بہت زیادہ محنت اور وقت صرف ہو جاتا تھا۔ حضور اقدسؒ سالہا سال ہمارے اجتماعات میں تشریف لاتے رہے اور بڑے خوبصورت طریقے سے رہنمائی بھی فرماتے رہے۔
حضور اقدسؒ نے مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے لئے کافی دفعہ ’’جن‘‘ کا لفظ بھی استعمال فرمایا ہے۔ جو کام کرنے والے ہیں ان کو بھی اس چیز کا پتہ ہے کہ وہ کس قدر محنت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود کمیاں رہ جاتی ہیں۔ اوراِن کمیوں کو خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل سے پورا کرتا چلا جاتا ہے۔