حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کی شفقت

٭ سہ ماہی ’’خدیجہ‘‘ کا سیدنا طاہرؒ نمبر میں مکرمہ ناہید تبسم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضورؒ کے خلیفہ بننے کے بعد میری پہلی ملاقات اسلام آباد (پاکستان) میں ہوئی جب حضورؒ نے وہاں لجنہ کی عاملہ کے ساتھ ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران باقی ممبرات نے اپنے اپنے رومال جو وہ گھر سے لائی ہوئی تھیں، نکال کر جمع کئے اور حضورؒ کے پاس رکھ دیئے کہ حضورؒ انہیں ہاتھ میں لے کر تبرکاً واپس دے دیویں۔ مجھے اس کا علم نہ تھا اور دل میں بے حد افسوس تھا کہ مَیں محروم رہ جاؤں گی اور تبرک نہ مل سکے گا۔ اسی اثناء میں میری نگاہ ٹشو پیپر کے ڈبے پر پڑی۔ مَیں نے دو ٹشو تہہ کرکے دوسرے رومالوں میں رکھ دیئے۔ حضورؒ گفتگو کے دوران باری باری رومال ہاتھ میں لے کر چہرہ پر پھیر کر واپس رکھتے جاتے۔ جب آپؒ کے ہاتھ میں ٹشو آیا تو مسکرادیئے اور پوچھا: یہ کس کا ہے؟ مَیں نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ یہ میرا ہے۔ تمام عورتیں میری جانب دیکھنے لگیں۔ حضورؒ نے نہایت ہی شفقت سے مسکراتے ہوئے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اپنا رومال نکال کر اُسے چہرے پر پھیرا اور مجھے دیتے ہوئے فرمایا: یہ آپ رکھ لیں۔… اکثر ایسے مواقع زندگی میں آئے کہ حضورؒ کی شفقت نے ہمارے دامن خوشی سے بھر دیئے مگر اُس پہلے تحفے کی لذت کبھی کم نہ ہوئی۔
میری شادی کے بعد حضورؒ نے میرے سسر (جو 1985ء میں اسیرراہ مولیٰ بھی رہ چکے تھے) کے حوالہ سے فرمایا کہ اگرچہ تم بھی مجھے بہت لاڈلی ہو مگر چونکہ وہ بہت خدمت دین کرتے ہیں اس لئے مجھے بہت پیارے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خدمت دین کرنے والوں کے لئے آپؒ کے دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ پھر میرے شوہر نعیم کے بارہ میں بھی مجھے فرمایا کہ وہ بہت نیک فطرت انسان نظر آتے ہیں، اگر تمہاری شادی کسی اکھڑ مزاج آدمی سے ہوجاتی تو میرا دل تمہاری طرف سے ہمیشہ بے چین رہتا۔ بعد میں نعیم کو گلے میں غدودوں کے پھولنے سے کئی سال تک تکلیف رہی اور کئی آپریشن ہوئے۔ حضورؒ نے بہت دعائیں دیں اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ شفا عطا فرمائی۔
ایک مرتبہ خط میں حضورؒ نے مجھے لکھا کہ مجھے خاموش خوبیاں بہت اچھی لگتی ہیں اور جی چاہتا ہے کہ جماعت کا ہر فرد اُن خوبیوں کا حامل ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں