حضرت سیّدبیگم المعروف نانی جانؓ
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن14؍اگست 2023ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر1 میں مکرمہ امۃالرقیب ناصرہ صاحبہ کے قلم سے حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت سیّد بیگم صاحبہؓ المعروف حضرت نانی جان کا تعارف شامل اشاعت ہے۔
حضرت سیّدہ اماں جان نصرت جہاں بیگمؓ کی والدہ ماجدہ اور حضرت سیّد میر ناصر نوابؓ کی زوجہ محترمہ حضرت سیّد بیگمؓ حضرت فاطمہؓ کی مبارک حسینی نسل کی چشم وچراغ تھیں۔ آپؓ کے بزرگوں میں سے مرزا فولاد بیگ صاحب ایران سے آئے تھے۔ والدہ کا نام قادری بیگم صاحبہ ا ور والد صاحب کا نام سید عبدالکریم صاحب تھا۔ آپؓ والدہ کی جانب سے مغل اور والد کی جانب سے سیدالنسل تھیں۔آپؓ کی ایک چھوٹی ہمشیرہ معظم بیگم صاحبہ تھیں جو سید ابراہیم صاحب کی اہلیہ تھیں۔
آپؓ۱۸۴۸ء یا ۱۸۴۹ء میں پیدا ہوئیں۔ قرآن شریف، دینیات اور اردو زبان کی تعلیم حاصل کی۔ آپؓ کی شادی حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے ساتھ ہوئی۔ حضرت میر صاحبؓ کے یہ الفاظ(ہیں) ’’سولہ سال کی عمر میں میری فہمیدہ اور دانا ماں نے نشیب و فرازِ زمانہ کو مدّنظر رکھ کر میری شادی ایک شریف اور سادات خاندان میں کردی اور میرے خیال میں ایک بیڑی پہنا دی تاکہ میں آوارہ نہ ہوں۔ اس باعث سے مَیں بہت سی بلاؤں اور ابتلاؤں سے محفوظ رہا۔ ‘‘
آپؓ کی خوبیو ں اور پاکیزہ سیرت کی سب سے معتبر گواہی وہ ہے جو آپؓ کے معزز شوہر حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے یوں دی ہے: ’’اس با برکت بیوی نے جس سے میرا پالا پڑا تھا مجھے بہت ہی آرام دیا اور نہا یت ہی وفاداری سے میرے ساتھ اوقات بسری کی اور ہمیشہ نیک صلاح دیتی رہی، کبھی مجھ پر نا جا ئز دباؤ نہیں ڈالا ،نہ میری طاقت سے بڑھ کر تکلیف دی۔ میرے بچو ں کو بہت ہی شفقت اور جانفشانی سے پالا۔ نہ کبھی بچوں کو کوسا نہ مارا۔ اللہ تعالیٰ اسے دین ودنیا میں سرخرو رکھے اور بعد انتقال جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرماوے۔ بہرحال عسر اور یسر میںمیراساتھ دیا۔ جس کو میں نے مانا اس کو اس نے مانا۔ جس کو میں نے پیر بنایا اس نے بھی اس سے بلا تامل بیعت کی۔ چنانچہ عبد اللہ صاحب غزنوی کی میرے ساتھ بیعت کی۔ نیز مرزا صاحبؑ کو جب میں نے تسلیم کیا تو اس نے بھی مان لیا۔ ایسی بیویا ں بھی دنیا میں کم نظر آتی ہیں۔ یہ بھی میری ایک خوش نصیبی ہے جس کا میں شکر گزار ہو ں۔ کئی لوگ بسبب دینی اور دنیوی اختلاف کے بیویوں کے ہاتھ سے نالاں پائے جاتے ہیںجو گویا کہ دنیا کی دوزخ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ میں تو اپنی بیوی کے نیک سلوک سے دنیا میں ہی جنت میں ہوں۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡ تِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُط وَاللّٰہُ ذُوالۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ۔‘‘(سورۃ الحدیدآیت۲۲)
حضرت میر صاحبؓ نے ایک نظم بعنوان ’’حرمِ محترم‘‘ میں بھی اپنے دلی جذبات کا اظہار فرمایا ہے۔
آپؓ کے بطن سے تیرہ بچے ہوئے لیکن صرف تین زندہ رہے۔ 1۔حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ۔ 2۔حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ۔ 3۔حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ۔ باقی بچوں کی وفات پر آپؓ نے صبر ورضا کا نمونہ دکھایا۔
آپؓ کو اپنے بچوں سے بےحد محبت تھی۔ حضرت شیخ محمود احمد عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ سخت بیمار ہو گئے۔ ان ایام میں حضرت میر صاحبؓ حضرت عرفانی کبیرؓ سے کچھ ناراض ہو گئے تھے اور دونوں الگ الگ تھے۔ کسی نے اس واقعہ کا ذکر حضرت نانی اماںؓ سے کر دیا۔ ان کو خیال گزرا کہ کہیں شیخ صاحب نے کو ئی بد دعا ہی نہ کر دی ہو جس کی وجہ سے میرا لخت جگر میرا بچہ بیمار ہوگیا اور اس قدر تکلیف اٹھا رہا ہے۔ وہ فو راًہمارے مکان پر آئیںاور گلی میں ڈیو ڑھی کے دروازے پر آکر بیٹھ گئیں اور کسی کو کہا شیخ صاحب کو اطلاع کردو کہ نانی اماں آئی ہیں۔ والد صاحب اسی وقت دوڑے آئے۔ نا نی اماںؓ کو یوں دروازے پر بیٹھے ہوئے دیکھ کرگھبرائے۔ قبل اس کے کہ ان کی سنیں، انہوں نے اپنی معذرت کا سلسلہ شروع کر دیا کہ آپ نے مجھے بلا لیا ہو تا۔ آپ نے یہ تکلیف کیوں کی۔ آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں۔ اس قسم کی بہت سی باتیں کہہ ڈالیں۔ نانی اماںؓ نے میر صاحبؓ کی طرف سے معذرت کی اور میر اسحاق صاحبؓ کی تکلیف کا رقت آمیز لہجے میں ذکر کر کے کہا کہ’’آپ کا دل دکھا۔ مجھ کو ڈر ہے کہ کہیںآپ نے کوئی بد دعا نہ کی ہو۔‘‘ والد صاحب نے ان کو یقین دلایا کہ مَیں تو ان کی ناراضگی کا کبھی خیال نہیں کرتا وہ ہمارے فائدے کے لیے کہتے ہیں اور میں آپ کی اولاد کے لیے کیوں بددعا کرنے لگا۔ جب ان کو یقین آیا اور تسلی ہو ئی توواپس ہوئیں۔
حضرت نانا جانؓ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے اچھے تعلقات تھے۔ ایک بار جب حضرت نانا جانؓ کو ملازمت کے سلسلہ میں ایک شہر تتلہ میں جانا ہوا تو آپ حضرت نانی جانؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بھائی مکرم مرزاغلام قادر صاحب کے مشورہ پہ قادیان دارالمسیح میں کچھ عرصہ کے لیے چھوڑ گئے۔ ان دنوں کا ایک واقعہ حضرت نانی جانؓ کی زبانی سیرت حضرت اماں جانؓ میں درج ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نانی جانؓ ایک شکرگزار فطرت رکھنے والی اور نیکی کا جواب نیکی سے دینے والی خاتون تھیں۔ آپؓ فرماتی ہیں: ان دنوں جب بھی تمہارے تایا (مکرم مرزا غلام قادر صاحب) گورداسپور سے قادیان آتے تھے تو ہمارے لیے پان لایا کرتے تھے اور میں ان کے واسطے کوئی اچھا سا کھانا وغیرہ تیار کرکے بھیجا کرتی تھی۔ ایک دفعہ جو میں نے شامی کباب ان کے لیے تیار کیے اور بھیجنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ گورداسپور واپس چلے گئے ہیں جس پہ مجھے خیال آیا کہ کباب تو تیار ہی ہیں میں ان کے چھوٹے بھائی کو بھجوادیتی ہوں چنانچہ میں نے نائن کے ہاتھ تمہارے ابا (حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ) کو بھجوا دیے اور نائن نے مجھے آکر کہا کہ وہ بہت شکرگزار ہوئے، اور انہوں نے بڑی خوشی سے کباب کھائے۔
حضرت نانی جانؓ کی سب سے بڑی نورِ نظر حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس و مطہر بیوی ہونے کا مقام عطا فرمایا۔ حضرت اقدس مسیح پاک علیہ السلام حضرت نانی جانؓ کا بہت احترام فرماتے اور محبت رکھتے تھے۔
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی نظر میں حضرت اما ں جانؓ کی بےحد قدرو قیمت تھی۔ بہت زیادہ دلداری اور خیال فرماتے۔ اس کا نقش اب تک میرے دل پر ہے۔ مگر ایک بار میں نے دیکھا کہ جب آپؑ نے ضروری سمجھا تو حضرت اماں جانؓ کی بھی تربیت فرمائی۔ ایک واقعہ عرض ہے بس یہی ایک بات دیکھی اور کبھی نہیں اور خود حضرت اماں جانؓ بھی تو ایک احسن نمونہ تھیں۔ ضرورت ہی پیش نہیں آئی کبھی بھی۔ صاف نظارہ یاد ہے۔ نیچے کے کمرے کے سامنے کے سہ درے میں نانی اماںؓ بیٹھی تھیں۔ کسی خادمہ نے ان کا کہا نہ مانا اور کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے حضرت اماں جانؓ کی طرف سے غلط فہمی نانی اماںؓ کو ہوگئی اور حضرت اماں جانؓ سے نانی اماںؓ ناراض ہوگئیں۔ اس وقت مجھے یاد ہے کہ حضرت نانی جانؓ غصہ میں کہہ رہی تھیں کہ لڑکی (حضرت اماں جانؓ کو حضرت نانی جانؓ لڑکی کہہ کر مخاطب کرتی تھیں) آخر میری بیٹی ہی تو ہے ہاں میرے حضرت، میرے سر کا تاج ہیں بیشک، وغیرہ وغیرہ۔ اتنے میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ حضرت اماں جانؓ کو اپنے آگے آگے لیے چلے آرہے ہیں۔ اس طرح کہ حضرت اماں جانؓ کے دونوں شانوں پر آپؑ کے دست مبارک ہیں اور حضرت اماں جانؓ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہ رہی ہیں۔ آپؑ خاموشی سے اسی طرح حضرت اماں جانؓ کو لے کر آگے بڑھے اور اسی طرح حضرت اماں جانؓ کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہو ئے نانی اماںؓ کے قدموں پر آپؓ کا سر جھکا دیا۔ پھر نانی اماںؓ نے حضرت اماں جانؓ کو اپنے ہاتھوں پر سنبھال لیا۔ شاید گلے بھی لگایا تھا اور آپؑ واپس تشریف لے گئے۔ کچھ سوچیں،اس زمانے کی اولادیں اکثریت ہوں گی جن کو ماؤں کی قدر نہیں۔ احمدی بچیو! اور بہنو! یہ نقشہ جو میں نے دیکھا اور یاد رہا۔ اس کو ذرا اپنی چشم تصور میں لاؤ کہ وہ شاہ دین اپنی خدا تعالیٰ کی جانب سے خدیجہ لقب پائے ہو ئے بیوی کو جس کی ہر وقت آپؑ کو خاطر مطلوب تھی اور جس کی عزت بہت زیادہ آپؑ کے دل میں تھی اس کی والدہ کی معمولی ناراضگی کاسن کر برداشت نہ کر سکااور خود لا کر اس کی ماں کے قدموں میں جھکا دیا۔ گویا یہ سمجھایا کہ تمہارا رتبہ بڑا ہے مگر یہ ماں ہے تمہارے لیے بھی اس کے قدموں تلے جنت ہے۔ اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْد۔
اسی طرح حضرت اماں جانؓ بھی حضرت نانی جانؓ کا۔ احترام فرماتیں اور خد مت کرتی تھیں۔
محترمہ استانی سکینۃالنساء بیگم صاحبہ تحریر کرتی ہیں کہ ’’حضرت اماں جانؓ نے اپنے دونوں بھائیوں اور والدین کو کافی عرصہ اپنے گھر میں ہی رکھا۔ حضرت نانی اماںؓ کی ایسی خدمت کرتے ہم نے دیکھا کہ کم از کم ہندوستان میں تو ایسی مثال کم ہی ملے گی۔ حضرت نانی اماںؓ کو اپنا وطن دہلی بہت پیارا تھا اور ان کے بعض غیراحمدی رشتہ دار بھی آتے تو حضرت اماں جانؓ کے گھر میں ان کی اتنی خاطر تواضع ہوتی کہ شاید حضرت نانی اماںؓ بھی نہ کرسکتیں۔ ‘‘
حضرت نانی اماںؓ ، حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی وفات کے بعد تقریباًآٹھ سال زندہ رہیں۔ آ خروقت تک وہ چلتی پھرتی رہتی تھیں اور عینک لگا کر پڑھ لیتی تھیں۔
حضرت نانی امّاںؓ کو جو بیٹی ملی وہ اُمّ المومنین کہلائی۔ داماد ملا تو ایسا جو جری اللہ فی حلل الانبیا ء تھا۔ خاوند ملا تو وہ اپنی شان میں بےنظیر، بیٹے ملے تو عارف باللہ اور خادم دین۔ انہوں نے سلسلہ کی ابتدائی حالت بھی دیکھی، ترقی اورعروج بھی دیکھا۔ اور بالآخر ۲۴،۲۳؍ نومبر ۱۹۳۲ء کی درمیانی شب کو تقریبا ً۸۵سال کی عمر میں وفات پاگئیں اور مقبرہ بہشتی میں چاردیواری کے اندر حضرت مسیح موعودؑ کے قدموں کی طرف حضرت میر صاحبؓ کے پہلو میں دفن ہو ئیں۔