حضرت شیخ اللہ بخش صاحبؓ آف بنوں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19نومبر 2008ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت شیخ اللہ بخش صاحبؓ آف بنوں کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت شیخ اللہ بخش صاحب ولد شیخ مراد بخش صاحب قوم ٹھاکر بنوں صوبہ سرحد کے رہنے والے تھے تقریباً 1883ء میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے والد صاحب کی دوسری اولاد تھے جو پہلے بیٹے کے بارہ سال سے بھی زائد عرصہ کے بعد پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد محکمہ ایکسائز میں انسپکٹر متعین ہوئے۔ نوجوانی میں عیسائیت کے مطالعہ سے اسلام کے بارہ میں شبہات میں گھر گئے۔ لیکن جب حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی آپ تک پہنچے اور آپ نے احمدیت قبول کرلی۔
اپنی قبول احمدیت کے حوالہ سے آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ 1905ء کے آخرمیں وانون میں ملازمت کے دوران مجھے ڈاکٹر علم الدین صاحب گجراتی سے بدر اخبار کے کچھ پرچے دیکھنے اور حضرت مسیح کی وفات کے دلائل سننے کا اتفاق ہوا اور جونہی مسیح کی وفات مجھ پر ثابت ہوگئی میں نے بغیر کسی توقف کے فوراً بیعت کا خط لکھ دیا۔ میرے احمدی ہونے پر والد صاحب نے کچھ ناراضگی کا خط لکھا جس پر ان کو اُن کی وہ دعا یاد کرائی گئی جو انہوں نے میری پیدائش سے پہلے کی تھی کہ ’’اے ارحم الراحمین و وہّاب خدا! جس طرح تونے (حضرت) ابراہام کی بڑھاپے میں آواز سنی اور اس کو اولاد دی میری فریاد بھی سن اور اولاد نرینہ عطا فرما‘‘۔ یہ دعا قبول ہوئی اور میری پیدائش ہوئی۔ میں نے اس دعا کو یاد کراتے ہوئے لکھا کہ آپ کی دعا کی حقیقی قبولیت اب ہوئی ہے جبکہ خدا نے اپنے فضل سے مجھے ہلاکت کے گڑھے سے نجات بخش کر اپنے مامور کی غلامی کا شرف بخشا ہے۔ اپریل 1906ء میں میں نے قادیان میں حاضر ہوکر مسجد مبارک میں حضور کے دست مبارک پر بیعت کی۔ جب میری نظر پہلی بار حضرت اقدسؑ پر پڑی تو مقدس، وجیہہ اور پُر شوکت و جلال پیر مرد دیکھ کر لرزہ طاری ہوگیا اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی جاری ہوگئی۔ بیعت کے بعد دوسرے دن میں واپس آگیا۔
پھر 1907ء کے موسم گرما میں والد صاحب امرتسر آئے اور بیمار تھے تو اُن کو قادیان لایا اور حضور کے ساتھ تعارف کراکر اُن کی صحت کے واسطے عرض کی گئی، یہ بھی کوشش تھی کہ وہ بیعت کرلیں گے لیکن افسوس کہ وہ اس نعمت سے محروم رہے۔ حضورؑ نے دعا کی اور مولوی نورالدین صاحب سے نسخہ لینے کی بھی ہدایت فرمائی چنانچہ نسخہ لینے کے بعد ہم واپس امرتسر چلے گئے۔ افسوس کہ مجھے حضرت جری اللہ کا دیکھنا پھر نصیب نہ ہوا اور مجھ پر وہ دن سخت تلخ تھا جبکہ حضور کے وصال کی خبر اخبار کے ذریعہ مجھے بنوں میں پہنچی۔
حضرت شیخ اللہ بخش صاحبؓ خلافت حقہ کے ساتھ وابستہ رہے اور 1936ء میں ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد ہجرت کرکے قادیان آگئے۔ یہاں محلہ دارالرحمت میں سکونت پذیر ہوئے اور خدمت دین کی توفیق پاتے رہے۔ قیام پاکستان پر آپؓ اپنے آبائی شہر بنوں چلے گئے اور وہیں 22دسمبر 1956ء کو بعمر 73سال وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ موصی تھے اور احمدیت کا ایک عملی نمونہ تھے۔ خلافت اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے ازحد محبت تھی اور نظام سلسلہ کا احترام اس قدر تھا کہ وہ اس کے خلاف کوئی بات برداشت نہ کر سکتے تھے، تبلیغ کا جذبہ بھرا ہوا تھا، مہمان نوازی میں وہ اپنی نظیر آپ تھے۔ بنوں میں افغانستان کے علاقہ خوست کے احمدی احباب، مربیان اور مرکزی نمائندے اور ملازم پیشہ احباب ہندوستان کے مختلف صوبوں سے آتے تھے، وہ سب کے سب شیخ صاحب کے ہاں فروکش ہوتے تھے۔ جو اُن کی رہائش کا انتظام کرتے اور ان کی خوراک اور ہر قسم کے آرام کا بے حد خیال رکھتے تھے۔
1944ء میں جناب خانصاحب نعمت اللہ خانصاحب برج انسپکٹر بمقام میدک ایک پل بنانے کے سلسلہ میں تشریف لائے ہوئے تھے۔ کسی احمدی دوست نے اُن کو ایک پمفلٹ دیا جس سے اُن کی توجہ احمدیت کی طرف مبذول ہوگئی اور مزید تحقیق کے لیے وہ دو تین ماہ تک بمعہ تین چار احباب ہر ہفتہ کو تشریف لاتے رہے اور تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ بالآخر اُن سب احباب نے بیعت کرلی۔
حضرت شیخ اللہ بخش صاحب کی پہلی اہلیہ کے ہاں اولاد نہ ہوتی تھی۔ 1919ء میں دوسرا نکاح کیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اس کے بعد پہلی اہلیہ سے ہی تین بچے پیدا ہوئے۔