حضرت ملک عطاء اللہ صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7 نومبر 2008ء میں مکرم اویس ربّانی صاحب نے اپنے مضمون میں حضرت ملک عطاء اللہ صاحب کی سیرۃ پر روشنی ڈالی ہے۔
حضرت ملک عطاء اللہ صاحبؓ1882ء میں گجرات میں پیدا ہوئے ۔ والد ملک محمد رمضان لکڑی کے بہت بڑے بیوپاری اور گجرات شہر کے رئیس تھے۔ آپ کا خاندان علماء کا خاندان تھا۔ آپ نے مذہبی تعلیم اپنے تایا حافظ محمد حیات صاحب ملک سے حاصل کی جو اولاد نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ بہت محبت کرتے تھے۔ ابتدائی تعلیم مشن سکول گجرات میں حاصل کی۔ لاہور میں میڈیکل کالج کے طالب علم تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا ۔
اپنی قبول احمدیت کے بارہ میں آپؓ لکھتے ہیں کہ میرے پھوپھا مولوی میر احمد شاہ صاحب سکول میں ٹیچر تھے اور اکثر حضرت صاحب کی عربی کتابیں پڑھا کرتے تھے ۔ ایک روز غالباً ’’نور الحق‘‘ پڑھ رہے تھے کہ میں نے پوچھا کہ مرزا صاحب نے ان کتابوں میں کیا لکھا ہے ۔انہوں نے جواب دیا کہ مرزا صاحب نے اپنی ہر کتاب میں اپنے دعویٰ کو دوہرایا ہے اگر دلائل دیکھیں تو پیش نہیں جا تی۔اُن کے یہ الفاظ مجھ پر اس رنگ میں اثر اندازہوئے کہ میں حیرت میں پڑ گیا اور خیال کیا کہ اتنا بڑا عالم ہو کر مانتا بھی نہیں اور یہ بھی سمجھتا ہے کہ ان کے دلائل کا جواب نہیں۔
ہسپتال میں دو شخص احمدی تھے۔ میری ان سے گفتگو ہوئی تو میں قائل ہوگیا کہ مرزا صاحب سچے ہیں۔ ہماری برادری میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی چچازاد بہن عائشہ کی شادی ہوئی تھی۔ میں اس کے پاس اکثر آیا جایا کرتا اور وہ ہمیشہ مجھے بیعت کے لئے تحریک کیا کرتی تھی ۔ایک روز میں اور اس کا خاوند دونوں بیٹھک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُس نے دو پوسٹ کارڈ بھجوائے کہ دونوں بیعت کا خط لکھ دو۔ ہم دونوں نے اُسی وقت بیعت کے خط لکھ دیئے۔ قبولیت بیعت کا خط حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے قلم کا لکھا ہوا ہمیں موصول ہوا۔
مقدمہ کے سلسلہ میں حضرت صاحب جہلم تشریف لے گئے تو میں اسی گاڑی میں سوار ہوگیا۔ ہر سٹیشن پر بے شمار ہجوم ہوتا تھا۔جہلم میں بہت بھیڑ تھی ۔ عدالت کے سامنے میدان میں حضرت مسیح موعود کیلئے ایک کرسی بچھائی گئی اور اردگرد احباب کا حلقہ تھا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ میرے لیے آسمان نے بھی گواہی دی اور زمین نے بھی گواہی دی مگر یہ لوگ نہیں مانتے۔ فرمایا: مانیں گے اور ضرور مانیں گے بلکہ میرے مرنے کے بعد میری قبرکی مٹی کھود کر کھا جائیں گے اور کہیں گے کہ اس میں برکت ہے مگراس وقت کیا ہوگا۔ ؎

جب مرگئے تو آئے ہمارے مزار پر
پتھر پڑیں صنم تیرے ایسے پیار پر

حضرت صاحب کا یہ فرمانا تھا کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب اور عجب خان صاحب زار زار رونے لگے۔
جہلم کے سفر کے دوران آپؓ کو دستی بیعت کا بھی شرف حاصل ہوگیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات پر آپ نے فوراً خلافت ثانیہ کی بیعت کرلی۔ آپ موصی تھے اور تحریک جدید کا چندہ مکمل ادا کرنے پر السابقون الاوّلون کی فہرست میں شامل تھے۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا دیا ہوا سرٹیفیکیٹ بھی آپ کے پاس تھا۔
حضرت ملک صاحبؓ وجیہ اور بارعب چہرہ کے مالک تھے۔ بہت نفاست پسند تھے۔نماز تہجد کے سختی سے پابند تھے ۔امام الصلوٰۃ کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔نماز تہجد کے بعد خوش الحانی سے تلاوت کرنا اور نماز فجر کے بعد چھ میل سیر کرنا آپ کا معمول تھا۔
قیام پاکستان سے قبل گجرات میں مسلم لیگ کے ایک جلسے میں قائداعظم محمد علی جناح کی موجودگی میں آپؓ نے تلاوت کی تو حاضرین کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔قائد اعظم نے آپ کا نام پوچھا اور کہا کہ آج تک میں نے ایسا خوش الحان قاری نہیں دیکھا۔
درّثمین اردو، فارسی، عربی کی اکثر نظمیں آپ کو زبانی یاد تھیں۔ کلام محمود کا خاصا حصہ بھی آپ کو یاد تھا۔
ملازمت کے سلسلہ میں آپ کا قیام ہندوستان کے بیشتر مقامات میں رہا ۔ نیز ایران، عراق، شام، چین (ہانگ کانگ) اور برما وغیرہ میں بھی مقیم ہوئے۔ فرانس جانے کا بھی آپؓ کو اتفاق ہوا۔ ہر جگہ دعوت الی اللہ کرنے کی توفیق پائی۔ پشاور میں قیام کے دوران سیکرٹری دعوت الی اللہ اور نشر واشاعت بھی رہے۔ ’’وفات مسیح ناصری‘‘ (ایک سو صفحات) اور ’’راہ نجات‘‘ وغیرہ رسائل تصنیف کئے۔مسجد کی تعمیر کے لئے نقد کے علاوہ بیوی کا تمام زیور پیش کردیا۔
گجرات میں مختلف شعبہ جات کے سیکرٹری رہنے کے علاوہ نائب وقائم مقام امیر ضلع گجرات کی حیثیت سے بھی کام کیا ۔ امرتسر میں آپ کا قیام اسی محلے میں تھا جس میں مشہور احراری لیڈر عطاء اللہ شاہ بخاری رہتے تھے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ محلہ کا کنواں پلید ہوگیا ہے کیونکہ مرزائی اس سے پانی بھرتا ہے۔ اسے پانی بھرنے سے روکو !آپ نے پانی سے روکنے والوں کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا ۔
ایک دفعہ آپؓ کو کسی گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کی مسجد کے دروازہ پر تالا لگا ہوا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس مسجد کو آسیب زدہ سمجھا جاتا ہے۔ آپؓ نے تالا کھولا، وضو کیا اور نماز بھی پڑھی۔ آپ کی دیکھا دیکھی یہ مسجد دوبارہ آباد ہو گئی ۔ آپ ایک عالم باعمل تھے۔ پنجابی، اردو، انگریزی، فارسی، عربی، پشتو چھ زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ کئی علاقائی زبانیں بھی جانتے تھے۔ پنجابی ،اردو ،فارسی میں شعر بھی کہتے تھے۔ تخلص شاکر تھا۔ بہت خوشخط تھے، کئی انعامات حاصل کئے۔
1934ء کے بعد لاکھوں روپے کی جائیداد آپ سے چھن گئی اور ذاتی جمع کردہ سرمایہ مقدمہ بازی میں ختم ہوگیا ۔ اس نقصان سے آپ کی طبیعت روحانیت کی طرف زیادہ مائل ہو گئی اور دنیاداری سے نفرت ہو گئی۔ آپ جب نوکری چھوڑ کرآئے تو آپ کے افسر نے آپ کو روکنے کی بہت کوشش کی اور کہا کہ میں نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ میرے سارے عملے میں عطاء اللہ جیسا قابل شخص کوئی نہیں اور آپ کا نام خان بہادری کے خطاب کے لئے بھیج چکا ہوں ۔ بعد ازاں آپ کو قلات میں وزارت اور ایران میں نائب سفارت کی پیش کش ہوئی مگر آپ نے قبول نہ کیں ۔
اگر غصہ آتا تو فوراً اُتر بھی جاتا اور خواہ کتنا بڑا قصور کیوں نہ سرزد ہو آپ فوراً معاف کر دیا کرتے تھے۔ آپ قانع اور صابر شاکر تھے جو مل جاتا کھا لیتے ۔ کتنی ہی قیمتی چیز ضائع ہوجاتی، انّاللہ پڑھ کر خاموش ہوجاتے اور پھر اُس کا ذکر نہ کرتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں