حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ

کینیڈا سے شائع ہونے والے رسالہ ’’نحن انصاراللہ‘‘ جولائی تا دسمبر 2003ء میں مکرم سید جمیل احمد شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرا بچپن حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے گھر میں گزرا۔ میری والدہ بھی اسی خاندان کی پروردہ ہیں اور آپؓ نے ہی اُن کی شادی کا انتظام کیا۔ یہ میری والدہ کی عقیدت ہی تھی کہ جب مَیں چوتھی میں پڑھتا تھا تو انہوں نے مجھے آپؓ کی خدمت میں پیش کردیا۔ مَیں پھر آپؓ کے پیار و محبت کا ایسا گرویدہ ہوا کہ بس یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ آپؓ اُس وقت بیمار تھے۔ سکول سے واپس آکر مَیں آپؓ کے کمرہ میں ہی رہتا۔ آپؓ بہت دعاگو اور بہت کم گو تھے۔ کئی بار ذکرالٰہی کرتے ہوئے روتے تھے۔ مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ برآمدہ میں کرسی پر بیٹھ کر مطالعہ کرتے اور مجھے بھی پڑھنے کے لئے کہا کرتے۔ دل کے بہت نرم تھے، کبھی معمولی سی سرزنش بھی نہیں کی بلکہ میری ہر خواہش کو پورا کرتے۔ آپؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت بو زینب صاحبہؓ مجھے پڑھائی کی طرف توجہ دلاتیں، سلیقہ شعاری، صفائی اور نمازوں کی تلقین کرتیں۔ مجھ سے اپنے بچوں جیسا ہی پیار کرتیں۔ سکول فیس کے علاوہ مجھے دس روپے جیب خرچ بھی دیا کرتیں۔
حضرت میاں صاحبؓ کی خوراک نہایت سادہ تھی۔ ایک چپاتی بغیر مرچ کے شوربے یا یخنی کے ساتھ آپؓ کا معمول تھا۔ اس سے زیادہ کھاتے مَیں نے کبھی نہیں دیکھا۔ بہت عاجز انسان تھے۔ آپؓ کے کمرہ میں ایک فریم میں لکھا ہوا تھا: ’’وہ بادشاہ آیا اور معمّراللہ‘‘۔ مَیں نے بچپن میں ایک دفعہ پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ فرمایا کہ یہ حضرت مسیح موعودؑ کا ایک الہام ہے۔ اس سے زائد کچھ تشریح نہ فرمائی۔ مجھے بڑے ہوکر علم ہوا کہ یہ پیشگوئی آپؓ سے متعلقہ تھی۔

حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ

آپؓ بہت فیاض اور سخی تھے۔ کوئی سوال کرتا تو جیب میں ہاتھ ڈالتے اور بغیر گنتی کے سائل کو دیدیتے۔ مَیں نے کئی بار سو سو کے نوٹ سائل کے ہاتھ میں دیکھے۔ ایسے بے شمار واقعات کا مَیں عینی شاہد ہوں۔ جب کبھی مجھ سے دوا منگوائی تو سو روپے کا نوٹ دیتے۔ دوائیں بیس تیس روپے کی ہوتیں لیکن آپؓ نے کبھی بقایا واپس نہ لیا۔ ہر نیک خُلق میں آپؓ بادشاہ تھے لیکن مزاج بالکل فقیرانہ تھا۔
جب مَیں دسویں میں تھا تو آپؓ کافی بیمار تھے۔ آپؓ کی خدمت میں رہنے کی وجہ سے میری تعلیمی حالت میں کمزوری واقع ہوگئی اور میرا داخلہ سکول والوں نے نہ بھجوایا۔ تب مجھے افسردہ دیکھ کر آپؓ نے وجہ پوچھی اور میرے بتانے پر آپؓ شدید بیماری کی حالت کے باوجود میرے ساتھ سکول گئے۔ راستہ میں چلتے تھک جاتے۔ مَیں نے عرض کیا کہ دفتر سے جیپ منگوالیں لیکن آپؓ میرا بازو پکڑ کر چلتے رہے اور ہیڈماسٹر صاحب سے مل کر میرے داخلہ کے بھجوانے کا انتظام کیا۔
1952ء میں میرے والد کی وفات کے بعد تو ہمارے لئے گزراوقات مشکل ہوگئی۔ ہم کرایہ کے مکان میں رہتے تھے۔ اس پر حضرت میاں صاحبؓ نے ہماری رہائش کا انتظام اپنے داماد محترم نواب عباس احمد خان صاحب کی زیرتعمیر کوٹھی میں کردیا۔
حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے دادا جان کے پاس آیا کرتے تھے اور آپؓ کے پاؤں کی طرف بیٹھ جایا کرتے۔ آپ بچپن ہی سے بہت خاموش، کم گو اور شرم و حیا کا پیکر ہیں۔ روزانہ دو تین مرتبہ اپنے دادا جان کے پاس حاضر ہوتے، لباس ہمیشہ صاف ستھرا ہوتا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں