حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28جولائی 2011ء میں محترمہ تنرئین احمد صاحبہ کے ایک انگریزی مضمون کا ترجمہ (مکرم پروفیسر راجا نصراللہ خانصاحب کے قلم سے) شامل اشاعت ہے۔ یہ مضمون ’’احمدیہ گزٹ‘‘ امریکہ جون و جولائی 2003ء میں شائع ہوا تھا جو حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے حوالہ سے ایک خصوصی اشاعت تھی۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرے خسر حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو ہمیشہ میرے دل میں ایک خاص مقام حاصل رہے گا۔ میری دعا ہے کہ وہ ساری اچھی باتیں جو میں نے آپ سے کئی سالوں میں سیکھیں انہیں اپنی زندگی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کا حصہ بنا لوں ۔
جب حضرت مسیح موعودؑ کے بابرکت خاندان میں میرا رشتہ ہوا تو وہاں پر میرے لئے بہت سے نئے چہرے اور بہت سی نئی باتیں تھیں جن کے ساتھ مجھے مطابقت کرنا تھی۔ مَیں زیادہ اردو نہیں بول سکتی تھی۔ کیونکہ مَیں امریکہ میں پلی بڑھی تھی اس لئے مجھے زیادہ تر انگریزی زبان ہی آتی تھی۔ جب بھی آپ بات کر رہے ہوتے تو اس چیز کو یقینی بناتے کہ میں آپ کی بات سمجھ گئی ہوں خواہ ساری بات آپ کو دوبارہ انگریزی میں بتانا پڑتی۔ اس طرح ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ میری اردو بہتر ہوتی گئی لیکن اس کے باوجود اگر آپ خیال کرتے کہ ممکن ہے میں کسی بات کو سمجھ نہیں پائی تو میرے لئے دوبارہ اس کا انگریزی میں ترجمہ کر دیتے۔
آپ دانشمندی، عاجزی، رحمدلی، دیانت و صداقت اور محبت، سب صفات پر مشتمل حیرت انگیز شخصیت تھے۔ آپ کی فراست اور دانش مجھے ہمیشہ حیرت میں ڈال دیتی۔ کسی صورت حال کا تجزیہ کرنے، اس کے مثبت اور منفی پہلو پر نظر رکھنے، اس کے دُور رس اثرات اور اس کی باریکیوں کو بھانپ لینے کی آپ کی صلاحیت حیرت انگیز تھی۔ لیکن اپنے علم اور تجربہ کے باوجود آپ ہمیشہ کھلے دل سے دیگر احباب کے مشوروں اور جائزوں پر دھیان دیتے۔
عجز و انکسار آپ کی شخصیت کا مرکزی نقطہ تھا۔ انتہائی منکسرالمزاج شخص تھے۔ آپ حضرت مسیح موعودؑ کے پوتے تھے اور اپنے طور پر زبردست صاحبِ اثر و رسوخ تھے لیکن جب آپ لوگوں سے معاملہ کرتے، خواہ وہ امیر لوگ ہوتے یا غریب لوگ، وہ مرد یا عورتیں یا بچے ہوتے آپ اُن سب کے ساتھ انتہائی فروتنی اور بردباری سے پیش آتے۔ آپ کسی کو یہ محسوس نہ ہونے دیتے کہ وہ کسی لحاظ سے کم اہمیت کا حامل ہے۔ کسی قسم کا تصنّع نہ کرتے۔ آپ سراسر حقیقت پسند اور تقویٰ کی دولت سے مالا مال شخصیت تھے۔
آپ اکثرہمیں یہ بات سناتے کہ جب آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کی تو حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو یہ نصیحت فرمائی کہ اپنے گھرمیں کوئی ایسی (شان و شوکت والی) چیز نہ رکھو جو کسی غریب آدمی کو مرعوب کر دے اور آپ کے پاس مدد کے لئے آنے میں حائل ہوجائے۔
آپ کی دانشمندی اور فروتنی کی صفات کو غمگساری کے وصف نے چار چاند لگا دئیے تھے۔ جماعت اور اس کے کارکنان کے لئے آپ کی دردمندی، نیز اپنے دوستوں اور اپنے اہلِ خانہ کے لئے غمگساری قابل رشک تھی۔ آپ دوسروں کو ذرا سی بھی تکلیف دینے سے بہت پریشان ہوجاتے تھے لیکن اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں تھی کہ دوسروں کی مدد کرنے کے لئے آپ خود کتنی تکلیف اٹھا رہے ہیں ۔ کسی قریبی عزیز کی بیماری میں اُس کا غیرمعمولی خیال رکھتے اور پسندیدہ غذا، دوائیں اور دیگر ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کے لئے باقاعدہ کوشش کرتے۔
دیانت اور راستبازی آپ کی زندگی میں ایک مستقل قرینہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ آپ اس بارہ میں بہت محتاط رہتے تھے کہ آپ کا کوئی عمل کسی شخص کے لئے کسی طور پر بھی اعتراض کا کوئی موقع مہیا نہ کرے۔ آپ کا تقویٰ آپ کے ہر عمل کا نگران رہتا۔ گھر میں جماعتی امور کے لئے جو ٹیلی فون کی لائن تھی اُس سے بعض دفعہ کوئی انجانے میں ذاتی کال ہوجاتی تھی لیکن آپ ایسی تمام کالز کا بہت باریک بینی سے جائزہ لے کر اس بات کو یقینی بناتے کہ ان Calls کی رقم جماعت سے وصول نہ کی جائے۔
خلافت سے آپ کی محبت کا جذبہ ہر چیز پر حاوی تھا۔ اپنی لمبی علالت کے دوران اکثر شدید درد میں مبتلا رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک د فعہ آپ کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ حالت بہت تشویشناک تھی اور آپ بات کرنے میں بھی دشواری محسوس کر رہے تھے۔ ہم آپ کے پاس کھڑے تھے کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میرے میاں ظاہر احمد نے فون اٹھایا۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا فون تھا وہ آپ کا حال دریافت فرما رہے تھے۔ آپ کی صحت کے متعلق حضورؒ کو کچھ تفصیل بیان کرنے کے بعد میاں ظاہر احمد نے فون آپ کو دے دیا۔ ایک لمحہ کے توقف کے بغیر اور آواز میں درد کی ذرّہ سی بھی رمق ظاہر کئے بغیر آپ نے کہا: ’’السلام علیکم‘‘۔ اسی کھنکھناتے ہوئے لہجے میں جو آپ کی صحت کی حالت میں ہوتا تھا۔ چہرہ مسکراہٹ سے کھل اٹھا۔ وہ اپنے پیارے حضور سے باتیں کر رہے تھے اور اس لمحے دنیابھر کا درد آپ کے ولولہ و شوق کو ماند نہیں کرسکتا تھا۔
اہل خانہ کے ساتھ آپ کا پیار کبھی بھی باتوں کی حد تک نہیں تھا بلکہ آپ کا عمل، مشفقانہ سلوک اور خوبصورت رویّہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ ہم سے متعلقہ چھوٹی چھوٹی باتوں جیسے کہ خاص اہمیت اور خوشی کے دن، سالگرہ کے مواقع اور پسندیدہ کھانوں کو ذہن میں رکھتے۔ اگر کوئی ایسا مضمون آپ کے مطالعہ میں آتا جس کے متعلق آپ سمجھتے کہ یہ میری دلچسپی کا موضوع ہو گا تو وہ مجھے دیدیتے۔ بچوں سے دن بھر کے معمولات کے متعلق دریافت کرتے۔ سکول یا کھیل میں اُن کی عمدہ کارکردگی کی تعریف و تحسین کرتے۔ بچے آپ کے کمرہ سے ہمیشہ خوش اور مسکراتے ہوئے، بسکٹ اور چاکلیٹ پکڑے رخصت ہوتے کیونکہ آپ ہمیشہ ان کی کامیابیوں پر بھرپور خوشی کا اظہار کرتے اور ان کی کمزوریوں پر بے حد ہمدردانہ سلوک روا رکھتے اور ہمیشہ ان میں یہ تأثر اُجاگر کرتے کہ وہ اہم وجود ہیں ۔ وفات سے کوئی ایک ماہ قبل آپ ہسپتال میں داخل تھے۔ بچے ان کو وہاں ملنے گئے۔ آپ ان کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ انہیں قریب بلاکر دونوں کو ایک ایک سو ڈالر دئیے اور کہا کہ وہ جا کر ایسی چیزیں خرید لیں جو واقعی ان کی خواہش اور ضرورت کی ہو۔ عام طور پر تو بچوں کے پاس ایسی اشیاء کی نہ ختم ہونے والی لسٹ ہوتی ہے لیکن اس دن دونوں بچے وہ نقدی گھر لے آئے اور صدقہ دینے کی رقم میں ڈال دی کیونکہ دونوں کی صرف یہ خواہش تھی کہ ان کے دادا صحت یاب ہوجائیں ۔
یہ واقعی ہماری خوش قسمتی تھی کہ حضرت مرزا مظفر احمد صاحب ہماری زندگیوں کا اتنا اہم حصہ تھے۔ ہمیں ہمیشہ ان کی کسک بھری کمی محسوس ہوتی رہے گی۔
معروف شاعر عبدالسلام اسلام صاحب نے حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی وفات پر جو درد بھری نظم لکھی تھی، اس کے دو شعر یوں ہیں ؎
باغ احمد کا مہکتا پھول وہ
بن کے غنچہ، وہ گُلِ تر چل بسا
مثِل ساقی تھا وہ اپنی بزم میں
بادہ الفت لُٹا کر چل بسا