حضرت صغریٰ بیگم صاحبہؓ حرم ثانی حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ

حضرت صغریٰ بیگم صاحبہ حرم ثانی حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ خلیفۃالمسیح الاول المعروف ’’اماں جی‘‘ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ لدھیانوی کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت صوفی صاحبؓ بھی حضرت مسیح موعودؑ کے عاشق مریدوں میں سے تھے اور گو آپ حضورؑ کے دعویٰ سے قبل وفات پاگئے تھے لیکن حضورؑ نے آپؓ کا نام 313 ؍اصحاب میں شامل فرمایا ہے اور آپؓ کا بطور خاص محبت بھرا ذکر فرمایا ہے۔
حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ اپنی اہلیہ اول حضرت سیدہ فاطمہ بی بی صاحبہؓ کے ہمراہ 1885ء میں جموں میں مقیم تھے جب آپؓ کا حضورؑ سے غائبانہ تعارف کسی اشتہار کے ذریعے سے ہوا اور آپؓ حضورؑ کے ایسے ارادتمندوں میں شامل ہوئے کہ جب جماعت احمدیہ کی تاسیس ہوئی تو آپ کوسب سے پہلے بیعت کرنے کی دائمی سعادت حاصل ہوئی۔آپؓ کی حرم اول میں سے کئی بچے ہوئے جن میں سے اکثر بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ حضور علیہ السلام نے آپؓ کو کئی تعزیتی خطوط تحریر فرمائے اور بالآخر آپؓ کو نکاح ثانی کا مشورہ دیا اور حضرت صغریٰ بیگم صاحبہؓ کا رشتہ بھی خود ہی تجویز فرمایا۔ یہ شادی 1889ء میں ہی بیعت اولیٰ سے قبل ہوئی اور حضرت اقدسؑ خود حضرت مولوی صاحبؓ اور چند دیگر احباب کے ہمراہ لدھیانہ تشریف لے گئے اور نکاح کے ساتھ رخصتانہ کی بابرکت تقریب منعقد ہوئی اور شادی کے بعد 1892ء تک آپؓ حضرت مولوی صاحبؓ کے ساتھ جموں میں رہیں۔ آپؓ نے عورتوں میں سب سے پہلے حضورؑ کی بیعت کرنے کی سعادت بھی پائی۔ 1892ء میں جب حضرت مولوی صاحبؓ مہاراجہ جموں و کشمیر کی ملازمت سے فارغ ہوکر اپنے آبائی شہر بھیرہ تشریف لے گئے تو آپؓ کی دونوں بیویاں بھی آپؓ کے ہمراہ تھیں۔ بھیرہ میں آپؓ نے اپنے مکان اور شفاخانہ کی تعمیر شروع کی تو 1893ء میں عمارتی سامان کی خرید کے لئے لاہور تشریف لائے اور اس خیال پر کہ حضرت اقدسؑ کو بھی ملتا جاؤں قادیان بھی حاضر ہوئے۔ لیکن قادیان پہنچے تو حضورعلیہ السلام کی خواہش پر وہیں کے ہو رہے اور ایک ہفتے بعد حضورؑ کے ارشاد پر حضرت اماں جیؓ کو بھی وہیں بلوالیا اس طرح 1893ء سے حضرت اماں جیؓ بھی مستقل قادیان میں رہائش پذیر ہوگئیں۔ کچھ عرصے بعد حضرت مولوی صاحبؓ نے اپنی حرم اول کو بھی قادیان بلوالیا جو 1905ء میں وفات پاگئیں۔
حضرت سیدہ صغریٰ بیگم صاحبہؓ کو خلافتِ اولیٰ کے دور میں حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ کی خاص خدمت کی توفیق ملی۔ حضرت اماں جیؓ کو پے در پے کئی غم بھی دیکھنے پڑے جب آپؓ کے کئی بچے فوت ہوئے لیکن آپؓ نے ہمیشہ صبر کا دامن تھامے رکھا۔آپؓ اپنے شوہر نامدار کی طرح علمی ذوق بھی رکھتی تھیں اور فارسی تو مادری زبان کی طرح تھی۔ سلسلہ کی خدمت پر ہمیشہ کمربستہ رہیں۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی وفات ہوئی تو حضرت اماں جیؓ خلافت سے ہی وابستہ رہیں بلکہ اپنی ایک کم عمر بیٹی حضرت سیدہ امۃالحی صاحبہؓ بھی حضرت مصلح موعودؓ کے عقد میں دے دی۔ دس سال بعد جب حضرت سیدہ امۃالحی صاحبہؓاپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کو یادگار چھوڑ کر وفات پاگئیں تو یہ حضرت اماں جیؓ کے لئے بہت بڑا حادثہ اور صدمہ تھا۔ان بچوں کی پرورش میں بھی حضرت اماں جیؓ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی وفات کے چھ ماہ بعد آپؓ کے ایک بیٹے محمد عبداللہ بھی وفات پاگئے جبکہ ایک اور بیٹے حضرت میاں عبدالحی صاحب بھی اپنی والدہ کی زندگی میں ہی وفات پاگئے۔ غرض حضرت اماں جیؓ پر بڑی آزمائشیں آئیں لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو صبر و شکر کی دولت سے مالا مال رکھا۔
تقسیم ملک کے بعد حضرت اماں جیؓ بھی اپنی اولاد کے ساتھ پاکستان منتقل ہوگئیں جہاں حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کا اور آپکی اولاد کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ آخری عمر میں آپؓ کو کئی عوارض لاحق ہوگئے۔ بالآخر 6 و 7؍ اگست 1955ء کی درمیانی شب 83 سال کی عمر میں آپؓ وفات پاگئیں۔ حضرت مصلح موعودؓ اس وقت بغرض علاج یورپ میں مقیم تھے۔ چنانچہ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ نے جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں تدفین عمل میں آئی۔
حضرت اماں جیؓ کا ذکرخیر مکرم محمود مجیب اصغر صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍دسمبر 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں