ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیرۃ پر ایک مضمون مکرم صوفی محمد اسحاق صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ اپریل 2001ء میں شامل اشاعت ہے۔
حضرت عائشہؓ کا رخصتانہ نو برس کی عمر میں ہوا جس کے بعد نو سال آپؓ نے آنحضورﷺ کے عقد زوجیت میں گزارے۔ سایۂ نبوی میں اس نو سالہ عرصہ میں آپؓ نے آنحضرتﷺ کے اَخلاقِ عالیہ کو اپنے اندر اس طرح سمولیا کہ پھر عمر بھر ان اخلاقِ نبوی کا مظہر بنی رہیں۔آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ مَیں فخر نہیں کرتی بلکہ بطور واقعہ کہتی ہوں کہ خدا نے مجھے نو ایسی باتوں سے نوازا ہے جن میں میرا کوئی مدمقابل نہیں ہے۔ یعنی خواب میں فرشتہ نے آنحضورﷺ کے سامنے میری تصویر پیش کی، سات برس کی عمر میں میرا نکاح آپؐ سے ہوا، نو برس کی عمر میں رخصتانہ ہوا، صرف مَیں ہی آپؐ کی کنواری بیوی تھی، آنحضورﷺ نے خود اپنی بیویوں سے کہا کہ صرف عائشہ کی خوابگاہ میں ہی مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے، مَیں آپؐ کی محبوب ترین رفیقۂ حیات تھی، میری شان میں اور میری وجہ سے قرآن کریم کی متعدد آیات نازل ہوئیں (مثلاً سورۃالنور:12 تا 19 اور سورۃالمائدہ:7)، مَیں نے حضرت جبرائیلؑ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، آنحضرتﷺ کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ آپؐ کا سرِ مبارک میری گود میں تھا۔
مزید برآں حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حجرہ میں ہی آنحضورﷺ کی تدفین ہوئی جو خود ایک وجہ فضیلت ہے۔
حضرت عائشہؓ کی زندگی میں ایک واقعہ افک ایسا ہے جس کا اثر آپؓ کے دل پر بہت گہرا ہوا۔ اس دوران آپؓ شدید پریشان رہیں حتیٰ کہ خدا تعالیٰ نے خود آپؓ کی براء ت فرمادی۔
سخاوت میں حضرت عائشہؓ آنحضورﷺ کی بہترین جانشین تھیں۔ کبھی کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا۔ ایک بار رمضان میں افطاری سے پہلے جب ایک سوالی عورت آگئی تو خادمہ کے عرض کرنے کے باوجود کہ افطار کے لئے اَور کچھ نہیں ہے، آپؓ نے اپنا کھانا اُسے دینے کا حکم دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں کسی نے بکری کے گوشت کی پوری ران بھیجی تو آپؓ نے خادمہ سے فرمایا: اب بتاؤ کہ کیا اللہ نے ہمیں بھوکا رکھا ہے؟
جب شام کا ملک فتح ہوا تو وہاں سے چکی کا پسا ہوا باریک آٹا مدینہ پہنچا۔ جب اُس کی روٹی پکاکر آپؓ کو پیش کی گئی تو پہلا نوالہ کھاتے ہی آپؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا کہ اس روٹی سے مجھے آنحضورﷺ یاد آگئے ہیں کہ آخری عمر میں آپؐ کے دانت اس قدر کمزور ہوچکے تھے کہ ہم گندم کو پتھرکی سلوں پر پیس کر جب روٹی آپؐ کو پیش کرتی تھیں تو بوجہ آٹا موٹا ہونے کے آپؐ سے پوری طرح چبائی نہیں جاتی تھی اور اب اس باریک آٹے کی روٹی کا نوالہ میرے گلے میں اٹک گیا ہے کہ کاش حضورؐ کی زندگی میں ایسا عمدہ آٹا ہمیں ملتا۔
آنحضورﷺ کی عبادات فرائض، سنن اور نوافل میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہے کہ جس کو حضرت عائشہؓ نے اختیار کرکے تاعمر اس پر عمل نہ کیا ہو۔ ہر سال باقاعدہ حج کرنے جاتیں کیونکہ آپؐ نے آنحضورﷺ سے سُن رکھا تھا کہ عورتوں کا حج کرنا ہی اُن کا جہاد ہے۔
حضرت عائشہؓ کے متعلق امام زہریؒ فرماتے ہیں: ’’آپؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ دینی علم رکھتی تھیں، بڑے بڑے صحابہؓ آپؓ سے مسائل پوچھا کرتے تھے‘‘۔ اسی طرح حضرت ابوسلمہؓ نے فرمایا کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کی سنتوں کا جاننے والا اور رائے میں حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر فقیہ اور آیتوں کے شان نزول اور فرائض کے مسائل کا واقف کار کسی اَور کو نہیں دیکھا۔
آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اپنے مذہب کا ایک حصہ ان (یعنی حضرت عائشہؓ) سے سیکھو۔ ایک اَور حدیث ہے کہ نصف دین اِن سے سیکھو کیونکہ یہ نصف دین کی حامل ہیں۔