حضرت عبداللہ بن جحشؓ
ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ جون 2002ء میں آنحضورﷺ کے صحابی حضرت عبداللہ بن جحشؓ کے بارہ میں مکرم عبدالماجد طاہر صاحب کا مضمون ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
آپؓ کا نام عبداللہ، والد کا نام جحش اور والدہ کا نام اُمیمہ تھا جو حضرت عبدالمطلب کی صاحبزادی اور آنحضورﷺ کی پھوپھی تھیں۔ آپؓ کو آنحضورؐ کے خسر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ آپؓ نے ابتدائی زمانہ میں ہی آنحضورﷺ کی آواز پر لبیک کہا اور کفار کے بہت مظالم برداشت کئے اور ان مظالم سے تنگ آکر آپؓ کے خاندان نے دو مرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آنحضورﷺ ابھی دارِ ارقم میں پناہ گزیں تھے۔
ہجرت مدینہ کے بعد آپؓ حبشہ سے مکہ تشریف لائے اور اپنے خاندان کے اسلام قبول کرنے والے تمام افراد کے ساتھ مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینہ میں آپؓ کی مؤاخات حضرت عاصمؓ بن ثابت بن ابی افلح انصاری سے قائم ہوئی اور آپؓ نے اُن کے گھر پر ہی قیام کیا۔
آنحضورﷺ نے ایک بار آپؓ کے بارہ میں فرمایا: ’’گو عبداللہ بن جحش تم لوگوں میں سب سے بہتر نہیں ہے تاہم بھوک پیاس کی سختیوں کو زیادہ برداشت کرسکتا ہے‘‘۔ 2ہجری میں آنحضورﷺ نے آپؓ کو ایک جمیعت کا امیر مقرر فرمایا اور ایک سربمہر خط دے کر فرمایا کہ دو روز سفر کرنے کے بعد کھول کر پڑھنا۔ چنانچہ حسب ارشاد دو منازل طے کرنے کے بعد آپؓ نے خط پڑھا تو اُس میں حکم دیا گیا تھا کہ مکہ اور طائف کے درمیان واقع نخلستان میں پہنچ کر قریش کی نقل و حرکت اور دیگر امور کا پتہ چلائیں۔ آپؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مَیں رسول اللہ کے اس فرمان کو پورا کرکے رہوں گا۔ تم میں سے جو شہادت کا آرزومند ہے وہ میرے ساتھ چلے، جو ناپسند کرتا ہے وہ لَوٹ جائے، مَیں کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ سب نے ہی پورے جوش کے ساتھ رفاقت کی حامی بھری اور نخلستان میں پہنچ گئے۔ ایک روز ایک تجارتی قافلہ قریب سے گزرا تو آپؓ نے اپنی جمیعت کے ساتھ اُن پر حملہ کردیا۔ اس حملہ میں قافلہ کا سرغنہ عمروبن حضرمی مارا گیا، دو افراد گرفتار ہوئے اور بہت سا مال غنیمت ہاتھ لگا جسے لے کر آپؓ مدینہ پہنچے۔
آپؓ اخلاص و فدائیت کا ایک نمونہ تھے۔ 7؍شوال کو 3ہجری کو احد کے میدان میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان جنگ ہوئی۔ اس سے ایک روز قبل آپؓ نے دعا کی : خدایا! مجھے ایسا مدّمقابل دے جو بہت شجاع اور سریع الغضب ہو۔ مَیں تیری راہ میں اُس سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ مجھے قتل کرکے ناک، کان کاٹ ڈالے۔ پھر جب مَیں تجھ سے ملوں گا تو تُو فرمائے گا: اے عبداللہ! تیرے ناک، کان کیوں کاٹے گئے؟ تو عرض کروں گا: تیرے لئے اور تیرے رسولؐ کے لئے۔
جنگ احد میں آپؓ بہت بہادری اور جوش سے لڑ رہے تھے کہ آپؓ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ آنحضورﷺ نے آپؓ کو نہتے دیکھا تو کھجور کی ایک چھڑی عطا فرمائی۔ آپؓ کافی دیر تک اُسی سے لڑتے رہے۔ اس دوران ابوالحکم بن افنس ثقفی نے حملہ کرکے آپؓ کو شہید کردیا۔ پھر مشرکین نے آپؓ کی نعش کا مثلہ کیا اور آپؓ کے مختلف اعضاء کاٹ کر ہار بناکر پہنا۔
آپؓ نے چالیس سال سے زائد عمر پائی اور اپنے ماموں حضرت حمزہؓ کے ساتھ ایک ہی قبر میں مدفون ہوئے۔