حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے کارنامے

خلافت راشدہ کے بعد آنحضور ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق نیم تربیت یافتہ مسلمانوں میں جاہلی رجحانات عود کر آئے اور امت محمدیہ انتشار کا شکار ہونے لگی- 61ھ میں حضرت امام حسینؑ کی شہادت کا واقعہ رونما ہوا- حرم مقدس میں جنگ و جدل شروع ہوگیا اور حجاج کی حرم پر سنگ باری سے خانہ کعبہ کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا- حکام نے اپنے مخالفین کا قتل عام شروع کردیا- مروان نے ایک بدعت یہ جاری کی کہ خطبہ، عید کی نماز سے پہلے شروع کروادیا- خطبات میں حضرت علیؓ کے خلاف زبانِ طعن دراز کی جانے لگی- ایسے سنگین حالات میں اللہ تعالیٰ نے تجدید دین کے لئے اپنا وعدہ پورا کیا اور 99ھ میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے وجود میں مسلمانوں کو ایک مجدد عطا کیا-
حضرت عمر بن عبدالعزیز 61ھ میں پیدا ہوئے- آپ بانی سلطنت بنو امیہ مروان کے پوتے تھے اور آپ کی والدہ حضرت عمر بن خطابؓ کی پوتی تھیں-حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ میری اولاد میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کے چہرے پر داغ ہوگا اور وہ زمین کو عدل سے بھردے گا- یہ پیشگوئی حضرت عمر بن عبدالعزیز کے وجود میں لفظاً لفظاً پوری ہوئی- جب آپ اپنے پیشرو سلیمان کی تدفین سے فارغ ہوکر آ رہے تھے تو آپ نے شاہی سواریاں لَوٹا دیں اور فرمایا میرے لئے میرا خچر ہی کافی ہے- خلیفہ بنتے ہی آپ نے پہلا اعلان یہ کیا کہ میں کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں بلکہ صرف احکام الٰہی کو نافذ کرنے والا ہوں- چنانچہ واقعۃً دو سال میں آپ نے بدعات کا خاتمہ کیا، امراء و عمال کا احتساب کیا اور بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کردی- آپ صرف دو سال پانچ ماہ خلیفہ رہ کر101ھ میں چالیس سال کی عمر میں وفات پاگئے- قرائن موجود ہیں کہ آپکے خاندان والوں نے زہر دے کر آپ کی زندگی کا خاتمہ کیا-
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے تجدیدی کارناموں کے بارے میں ایک مضمون مکرم نصیر احمد انجم صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23 و 24؍جولائی 1998ء میں شامل اشاعت ہے-
حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کا سب سے بڑا کارنامہ تدوین حدیث کی طرف عملی توجہ ہے- چنانچہ پھر علماء کی اس طرف توجہ ہوئی اور بعد ازاں احادیث کے عظیم الشان مجموعے تیار ہوئے-
آپؒ نے دوسرا کام یہ کیا کہ سختی سے اسلامی حدود و شرائع کی پیروی کروائی اور بدعات سے پرہیز کی تلقین کی- آپؒ سے پہلے نماز باجماعت میں بہت بے قاعدگی آگئی تھی حتّٰی کہ حجاج نے نماز کی پابندی بالکل ترک کردی تھی- آپؒ نے دوبارہ نماز کو کھڑا کیا اور ایک بار فرمایا جس نے نماز ضائع کی وہ دوسرے فرائض اسلام کا سب سے زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا- اسی طرح آپؒ کے دور میں زکوٰۃ کا نظام ایسا مؤثر ہوا کہ زکوٰۃ و صدقہ قبول کرنے والا کوئی نہ ملتا تھا- اسی طرح حجاج نومسلموں سے بھی جزیہ وصول کیا کرتا تھا، آپ نے اسے بند کروادیا- پھر مروان کا وہ حکم منسوخ کردیا کہ باغ فدک اُس کی ذاتی جاگیر میں شامل سمجھا جائے- آپؒ نے آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین کے طرز عمل کے مطابق اُس کی آمدنی بنو ہاشم پر خرچ کرنا شروع کردی-
اُس زمانہ میں شراب نوشی کا رواج عام ہو رہا تھا- آپؒ نے حکماً اس پر پابندی لگادی اور شراب نوشی کی دکانوں کو بند کروا دیا- آپؒ نے شخصی خلافت کا جاری رواج ختم کردیا اور منع کردیا کہ نماز کے بعد خلفاء پر درود بھیجا جائے یا لوگ مخصوص طریق پر انہیں سلام کریں- خلیفہ کے ساتھ نقیب اور علمبردار کا چلنا بھی موقوف کردیا- حتّٰی کہ فجر اور عشاء کی نمازوں کے وقت شمع بردار کا ساتھ جانا بھی بند کروادیا- بلکہ ذاتی کاموں کے وقت بیت المال کا چراغ گُل کروا دیتے- آپؒ نے شاہی خاندان کو ملنے والا وظیفہ خاصہ بھی بند کروادیا-
آپؒ کے دور میں ایک بار پھر اسلامی خلافت جاری ہوگئی- آپؒ کے خطوط میں اخلاقی نصائح ہوتیں یا اسلامی قوانین اور تعزیرات کی وضاحت ہوتی- آپؒ نے نوحہ گری اور عورتوں کا جنائز کے ساتھ جانا بند کروادیا-
آپؒ سے پہلے بہت سے اموال کو شاہی خاندان نے ذاتی جاگیر قرار دے دیا تھا لیکن آپؒ نے اپنی ساری موروثی جاگیر بیت المال کے سپرد کردی- یہ عمل سارے خاندان کی مخالفت مول لینے کے برابر تھا- چنانچہ جب کسی نے اولاد کے متعلق سوال کیا تو فرمایا کہ اولاد کو خدا کے سپرد کرتا ہوں- آپؒ بیت المال کی ذرا سی خیانت بھی برداشت نہ کرتے- چنانچہ جب ایک مرتبہ یمن کے بیت المال سے ایک اشرفی گُم ہوگئی- آپؒ نے وہاں کے حاکم کو لکھا کہ میں تمہاری امانت پر بدگمانی نہیں کرتا لیکن تمہیں لاپرواہی کا مجرم قرار دیتا ہوں- تم پر فرض ہے کہ اپنی صفائی پر شرعی قسم کھاؤ-
آپؒ سے پہلے قیدیوں سے بہت برا سلوک روا رکھا جاتا تھا- معمولی شبہ پر گرفتار کرکے قتل کردیئے جاتے تھے- جو قیدی جیل میں مر جائے وہ بے گور و کفن رہتے اور دوسرے قیدی تعفّن سے بچنے کے لئے خود پیسے جمع کرکے اسے دفناتے-
آپؒ نے حکم دیا کہ قیدی کو ایسی بیڑی نہ پہنائی جائے جس سے وہ کھڑا ہوکر نمازنہ پڑھ سکے نیز بجز قاتل کے ہر ایک کی بیڑی رات کو کھول دی جائے- قیدی کو موسم کے مطابق لباس بھی دیا جائے اور عورت کو برقعہ بھی دیا جائے- آپؒ نے قیدیوں کا پابند سلاسل ہوکر بھیک مانگنا موقوف کردیا اور فرمایا کہ جو لاوارث قیدی مر جائے تو اُس کی تجہیز و تکفین بیت المال سے کی جائے- اسی طرح تعزیر میں حد سے بڑھنے سے منع کیا اور فرمایا کہ بجز شرعی حق کے مسلمان کی پیٹھ ننگی نہ ہو- نیز آپؒ نے عورتوں کے حمام جانے پر پابندی لگادی اور حماموں کی دیواروں پر بنائی جانے والی تصاویر مٹوادیں-
آپؒ سے پہلے اموی خلفاء کے عہد میں عمال خطبے میں حضرت علیؓ پر لعن طعن کیا کرتے تھے- آپؒ نے اسے ختم کرکے یہ آیات پڑھنے کا حکم دیا ’ان اللہ یامر بالعدل والاحسان … لعلّکم تذکّرون‘- چنانچہ آج تک اسی پر عمل ہورہا ہے-
امیر معاویہ پارسیوں سے اُن کے تہوار کے روزایک کروڑ ہدیہ وصول کرتے تھے- آپؒ نے اسے یکلخت موقوف کردیا- بلکہ آپؒ نے علم کی ترویج کے لئے علماء اور طلباء کو وظائف جاری کئے اور علماء کو ہر طرف پھیلا دیا- آپؒ نے اسلامی فوج کو نصیحت کی کہ جب تک اسلام کی دعوت نہ دی جائے تب تک حملہ نہ کیا جائے- آپؒ نے بہت سے بادشاہوں کو تبلیغی خطوط بھی لکھے جن میں سے بعض نے اسلام بھی قبول کرلیا-

اپنا تبصرہ بھیجیں