حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ
حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ 1843ء میں قاضی کوٹ ( ضلع گوجرانوالہ) میں جناب قاضی غلام احمد صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپؓ اپنے والدین کے ہاں گیارہ لڑکیوں کے بعد پہلی نرینہ اولاد تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی پیدائش سے قبل ہی آپ کے والد صاحب کو بشارت دی تھی کہ اُن کے ہاں بیٹا ہوگا جس کا نام ضیاء الدین ہوگا۔ اُنہیں اس بشارت پر اس قدر یقین تھا کہ آپؓ کی پیدائش سے پہلے ہی وہ اپنی اہلیہ کو ’’ضیاء کی والدہ‘‘ کہا کرتے تھے۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍ستمبر 1999ء میں حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ کا ذکر خیر مکرم احسان اللہ دانش صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت قاضی صاحبؓ کا درمیانہ قد، گول چہرہ اور روشن آنکھیں تھیں۔ رنگ سانولا تھا۔ لباس بہت سادہ ہوتا تھا۔ حضرت مسیح موعود کا عطا کردہ ایک کوٹ بھی پہنا کرتے تھے۔
آپؓ کو بزرگوں کی زیارت کا بہت شوق تھا اور حضرت مولوی عبداللہ غزنوی صاحب سے عقیدت ہونے کی وجہ سے امرتسر میں آمد و رفت تھی۔ اس آمد و رفت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم ہوا چنانچہ فروری 1884ء میں قادیان پہنچے۔ آپؓ نے اُسی زمانہ میں شناخت کرلیا کہ یہی وہ منزل مقصود ہے جس کی انہیں تلاش تھی۔ چنانچہ واپس جاتے ہوئے کالی سیاہی سے مسجد اقصیٰ کی دیوار پر آپؓ نے ایک فارسی عبارت تحریر کی جس کا مضمون یہ تھا کہ میری والدہ جو بوڑھی اور ضعیفہ ہیں، نہ ہوتیں تو مَیں حضرت مرزا صاحب کی معیت سے جدا نہ ہوتا۔
23؍مارچ 1989ء کو چالیسویں نمبر پر بیعت کی سعادت عطا ہوئی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کو بہت ابتلاء پیش آئیں گے، سو ایسا ہی ہوا اور بیعت سے واپسی کے سفر کے دوران ہی آپؓ کو اپنی اہلیہ کی بیماری کی اطلاع ملی جو گیارہ ماہ اذیت میں رہ کر وفات پاگئیں۔ اہلیہ کی بیماری کی وجہ سے دو بچے بھی بیمار ہوکر فوت ہوگئے۔ مخالفت تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ آپؓ نے حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تو حضور نے جواباً نصیحت کرنے کے بعد فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ ان تمام مصیبتوں سے مخلصی عنایت کردے گا، دشمن ذلیل و خوار ہوں گے‘‘۔ حضور نے بعد ازاں اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ میں آپؓ کے حوالہ سے نشانات کا ذکر فرمایا ہے۔ نیز کتاب ’’نزول المسیح‘‘ میں چار پیشگوئیوں کے گواہ کے طور پر بھی آپؓ کا نام تحریر فرمایا ہے۔
جب آپؓ کا اپنے علاقہ میں مقاطعہ جاری تھا تو حضور کے ارشاد پر قادیان آگئے اور ایک معمولی سی دوکان کرلی۔ آپؓ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ آپؓ کے جسمانی باپ کا نام بھی غلام احمد ہے اور روحانی باپ کا نام بھی غلام احمد ہے۔ آپؓ کے دو بیٹوں کو بھی 313؍ اصحاب میں شامل ہونے کی توفیق عطا ہوئی۔
ایک بار حضور کے خادم حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ نے حضور سے آپؓ کے بارہ میں پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو حضور نے آپؓ کا نام و پتہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ اس شخص کو ہمارے ساتھ عشق ہے۔
آپؓ کی وفات 15؍مئی 1904ء کو ہوئی۔ وفات سے کچھ دیر پہلے آپؓ نے خواہش کرکے کھڑکی میں سے حضور کی زیارت کی۔ حضور ان ایام میں گورداسپور تشریف لے جایا کرتے تھے اور اُس کمرہ کے سامنے سے گزرتے تھے جہاں آپؓ بیمار پڑے تھے۔ جب حضور کو آپؓ کی خواہش کا علم ہوا تو فرمایا: ’’اگر وہ مجھ سے کہتے تو مَیں ضرور آتا‘‘۔ حضور کو آپؓ کی وفات سے بہت تکلیف ہوئی۔ حضور نے تحریر لکھنا بند کردی اور بیقراری سے ٹہلتے رہے۔ آپؓ کی وفات کے وقت اللہ تعالیٰ نے حضور کو الہاماً فرمایا: وہ بیچارہ فوت ہوگیا ہے۔
حضور علیہ السلام نے گورداسپور سے واپسی پر حضرت قاضی صاحبؓ کا جنازہ پڑھایا اور بہت لمبی دعا کی۔ بعد ازاں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے فرمایا: پرانے آدمیوں کی ایسی ہی قدر ہوتی ہے۔
حضرت قاضی صاحبؓ بہت رقیق القلب اور منکسرالمزاج تھے۔ چھوٹی عمر میں تہجد پڑھنا شروع کی اور تا دم مرگ کبھی ناغہ نہ کیا۔