حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍دسمبر 1999ء میں مکرم احسان اللہ دانش صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ 23؍جون 1881ء کو قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ میں حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئے۔ آٹھ سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں آپؓ کو اپنے 313 صحابہ میں شمار کیا ہے۔ ستمبر 1901ء میں آپؓ ہجرت کرکے قادیان آبسے۔ آپؓ کے والد محترم کچھ ہی عرصہ پہلے یعنی جون 1901ء میں یہاں آچکے تھے۔
قادیان میں حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ کی جلدسازی کی معمولی سی دوکان تھی۔ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ محرر مقرر ہوئے اور آپؓ کی تنخواہ سات روپے تھی۔ آپؓ اسی نوکری پر قانع رہے اور کہیں اور جانے سے انکار کردیا۔ پھر عملہ میں تخفیف ہوئی تو یہ ملازمت بھی جاتی رہی لیکن آپؓ مالی تنگی کے باوجود قادیان سے باہر نہیں گئے۔ پھر بادل ناخواستہ حضرت مسیح موعودؑ کے مشورہ سے جموں گئے لیکن واپس قادیان جانے کی خواہش ایسی شدید تھی کہ آخر یہ درخواست دی کہ محکمہ تعمیرات میں خواہ چپڑاسی کی جگہ ہو تو آپ کو دیدی جائے ۔ کتابت بھی سیکھی کہ شائد اسی بہانے قادیان میں سکونت کا موقع مل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی دعائیں قبول کیں اور محکمہ تعمیرات کے آغاز پر آپؓ کو آٹھ سال تک مہتمم تعمیرات کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ تعلیم الاسلام ہائی سکول، بورڈنگ ہاؤس، کوارٹرز، مسجد نور، منارۃالمسیح اور مسجد اقصیٰ کا کچھ حصہ آپ کی نگرانی میں تعمیر ہوا۔ نیز بہشتی مقبرہ کے راستہ کا پُل اور کنواں اور حضرت اقدسؑ کے مزار مبارک کی تعمیر کا بھی موقع ملا۔
1947ء کے فسادات کے دوران حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ کے سپرد حضرت مسیح موعودؑ کی قبر کی حفاظت تھی۔ آپؓ نے قبر کے گرد چاردیواری بنواکر چھت ڈال دی۔ اُس خونیں دَور میں آپؓ کو قایان سے باہر کئی ملازمتوں کی پیشکش ہوئی اور مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے بھی پیغام ملے لیکن آپ نے بے غرضی سے ٹھکرادئے۔
ربوہ میں پانی آپؓ کی نگرانی میں نکلا۔ آپؓ کو مسجد مبارک ربوہ کی تعمیر کی توفیق ملی اور صدرانجمن کے دفاتر کی بنیادوں کے کام میں بھی آپ نے مشورے دیئے۔ آپؓ کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ’’جو کام قاضی صاحب نے کرایا ہے وہ نہایت پائیدار اور روپوں کا کام آنوں میں کرایا ہے اور جب مَیں کوٹھی دارالحمد کے اندر قدم رکھتا ہوں تو قاضی صاحب کیلئے دل سے دعا نکلتی ہے۔‘‘
آخری عمر میں حضرت قاضی صاحبؓ کو دمہ کی تکلیف ہوگئی تھی اور اسی عارضہ میں آپؓ کی وفات 29؍اکتوبر 1953ء کو بعمر 72 سال ربوہ میں ہوئی۔ آپؓ کی وفات پر حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحب نے چند اشعار لکھے ؎
پارسا نیک بخت خوش اخلاق
جن کا اخلاص شہرۂ آفاق
قادیان کی عمارتیں یکسر
اُن کی نگرانی میں بنیں اکثر
یعنی وسع مکان کا الہام
آپ کے ہاتھوں پا گیا ابرام