حضرت مسیح موعودؑ پر اعتراضات کے جواب
رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جولائی و اگست 2012ء میں مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب کی جلسہ سالانہ یوکے 2012ء کے موقع پر کی گئی تقریر شامل اشاعت ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مخالفین کی طرف سے کئے جانے والے چند اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وائے حسرت بندوں پر ! ان کے پاس کوئی رسول یا نبی نہیں آتا مگر وہ اس کے ساتھ ٹھٹھااور تمسخر کرنے لگتے ہیں۔ (سورۃ یٰسٓ)
کچھ ایسا ہی حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ ہوا۔
= آپؑ کی تحریرات پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اُن میں تضاد ہے۔ دراصل حضرت مسیح موعودؑ نے 90سے زائد کتب لکھی ہیں لیکن آپ کی تحریرات میں ہر گز کوئی حقیقی تضاد نہیں ہے۔ صرف صاف دلی سے اور نیک نیتی سے کتاب کو پڑھنے اور جاننے کی ضرورت ہے۔ اعتراض والی جگہ کے سیاق و سباق کو اچھی طرح دیکھا جائے تو بالعموم اعتراض کا جواب اسی جگہ پر موجود ہوتا ہے۔
ویسے بھی حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی تصانیف کاسلسلہ 28 سال کے طویل عرصہ پر پھیلا ہوا ہے اور ایک موضوع پر آپ نے مختلف مقامات پر اظہار خیال فرمایا ہے۔ اس لئے دیانت اور خدا خوفی کا تقاضا ہے کہ کسی موضوع پر غور کرتے وقت آپ کی سب تحریرات پر نظر کی جائے اور یہ ایک مسلّمہ اصول ہے کہ اگر مصنف نے خود اپنی کسی تحریر کی وضاحت کردی ہو اور سابقہ تحریر سے اِمکانی طور پر پیدا ہونے والے اِبہام کو دُور کردیا ہو تو لازم ہوجاتا ہے کہ سابقہ تحریروں کو آخری تحریرکے تابع رکھا جائے اور خود مصنف کی بیان کردہ وضاحت کو حرفِ آخر کے طور پر فیصلہ کن قرار دیا جائے۔
= مخالفین یہ اتہام لگاتے ہیں کہ نعوذباللہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے معجزات و نشانات کو رسول اکرم ﷺ کے معجزات و نشانات سے زیادہ قرار دیا ہے۔ وہ حوالہ دیتے ہیں ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ کا کہ ’’ہمارے نبی ﷺ سے تین ہزار معجزات ظہور میں آئے‘‘۔ اور پھر حوالہ دیتے ہیں ’’تتمہ حقیقۃالوحی‘‘ سے، کہ ’’ اس نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشانات ظاہر کئے جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں‘‘۔
دراصل ایک معجزہ متعدد نشانوں پر مشتمل ہوسکتا ہے جبکہ ایک نشان کئی معجزات پر مشتمل نہیں ہوتا۔ رسول مقبول ﷺ کے معجزات کو تین ہزار بیان فرمایا جو اپنے اندر اتنے نشانات رکھتے تھے کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔
افسوس کہ جس کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘ سے وہ ایک فقرہ اٹھا کر اعتراض کرتے ہیں اسی کتاب میں حضورؑ فرماتے ہیں: ’’کسی نبی سے اس قدر معجزات ظاہر نہیں ہوئے جس قدر ہمارے نبی ﷺ سے … ہمارے نبی ﷺ کے معجزات اب تک ظہور میں آرہے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے۔ جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت ﷺ کے معجزات ہیں‘‘۔
= مخالفین یہ ادّعا کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے نعوذباللہ رسول پاکﷺ سے افضل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ حالانکہ غلامِ صادق کا دعویٰ یہ ہے کہ: ’’میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اُس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی۔ اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سیدو مولیٰ فخر الانبیاء اور خیرالوریٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پایا اُس کی پیروی سے پایا‘‘۔ (حقیقۃالوحی)
= ایک اعتراض یہ کیا جاتاہے کہ حضورؑ نے ابتدا میں دعویٔ نبوت سے انکار کیا اور بعد میں نبوت کا اعلان فرمادیا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ رسول پاک ﷺ بھی ابتدا میں اپنے مقام کے بارہ میں بوجہ انکسار تاکیداً فرماتے رہے کہ مجھے حضرت یونسؑ پر فضیلت نہ دو اور نہ ہی مجھے حضرت موسیٰ ؑ پر ترجیح دو۔باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول پاک ﷺ کو لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا قرار دیا تھا لیکن جب ایک شخص نے آپؐ کو خیرالبریہ کہا تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ تو ابراہیم علیہ السلام کا مقام ہے۔ لیکن نبوت کے آخری سالوں میںآپؐ نے فرمایا کہ اَنَا سَیّدُ وُلْدِ آدَم کہ مَیں سب آدم زادوں کا سردار ہوں ۔ یہ بھی فرمایا کہ مَیں دیگر تمام انبیاء سے چھ باتوں میں افضل ہوں۔ نیز فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آج زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ’’براہین احمدیہ‘‘ کے زمانہ سے لے کر وفات کے دن تک یہی رہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو کثرت سے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف عطافرمایا، غیب کی خبریں عطا کیں اور اپنے الہامات میں آپ کا نام نبی رکھا۔ لیکن آپ نے اس مقام کی تاویل کرکے اسے محدّثیت قرار دیا۔ بعد ازاں جب اللہ تعالیٰ نے آپ پر واضح فرمایا کہ مقام نبوت کی حقیقت کیا ہے تو آپ نے بارش کی طرح نازل ہونے والی وحیٔ الٰہی کی متابعت میں آنحضرت ﷺ کی غلامی میں امّتی نبی اور مسیح موعود ہونے کا اعلان فرمایا۔ گویا نفسِ دعویٰ میں کوئی فرق نہیں ہوا۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
’’ جس جس جگہ مَیں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ مَیں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ مَیں مستقل طور پر نبی ہوں۔ مگر اِن معنوں سے کہ مَیں نے اپنے رسولِ مقتداؐسے باطنی فیوض حاصل کرکے اور اپنے لئے اُس کا نام پا کر اُس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے ، رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے ، اِس طَور کانبی کہلانے سے مَیں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پُکارا ہے‘‘۔ ( ایک غلطی کا ازالہ)
= یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اگر آپؑ کا حقیقی منصب نبوت کا تھا تو پھر آپ پر اس بات کا انکشاف اتنے عرصہ بعد کیوں ہوا؟یہ نادان بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی بات کا انکشاف کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور وہ جب چاہے اپنی حکمتِ بالغہ سے ان امور کا اظہار کرتا ہے۔ قرآن مجید تو یہ اصول بیان کرتا ہے لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَاب ۔ کہ ہر بات کے ظہور کا ایک وقت مقرر ہے اور خدائے علیم و خبیر ہی اس کی حکمتوں کو سب سے بہتر جانتا ہے۔
نادان معترضین کے اس گستاخانہ اعتراض کی زَد تو پیارے آقا حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ پر پڑ سکتی ہے۔ کیونکہ تحویل قبلہ کا حکم ہجرت کے سولہ یا سترہ ماہ کے بعد نازل ہوا، آیت خاتم النبیین آپ ﷺ پر دعویٔ نبوت کے پورے اٹھارہ سال کے بعد سن 5؍ہجری میں نازل ہوئی۔
= ایک بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے جگہ جگہ مبالغہ سے کام لیا ہے۔ مثلاً آپؑ نے لکھا ہے کہ میرے شائع کردہ اشتہارات ساٹھ ہزار کے قریب ہیں۔ (اربعین نمبر 3)۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اس عبارت میں ہر گز یہ نہیں لکھا کہ مَیں نے ساٹھ ہزار اشتہار لکھے ہیں بلکہ آپ نے اس قدر اشتہارات ’’شائع ‘‘ کرنے کا ذکر فرمایا ہے۔
واقعاتی لحاظ سے دیکھا جائے تو حضرت مسیح موعودؑ نے کتاب ’’اربعین‘‘ کی اشاعت تک مجموعی طور پر 226اشتہارات شائع فرمائے۔ اشتہارات کی اوسط تعدادِاشاعت 300بنتی ہے۔ اس طرح کُل تعداد سڑسٹھ ہزار آٹھ سو بنتی ہے۔ اگر آپؑ نے اس تعداد کو ’’ساٹھ ہزار کے قریب‘‘ بیان فرمایا ہے تو اس پر اعتراض کیسا؟
= اسی طرح ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ مسیح پاکؑ نے اپنی کتب کے بارہ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں ‘‘۔ (تریاق القلوب)۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح پاکؑ کی بعض کتب بہت ضخیم بھی ہیں اور اُن کی تعداد اشاعت بھی سینکڑوںاور ہزاروںتک تھی۔ اگر ان سب کتب کے جملہ نسخوں کو اکٹھا کیا جائے تو یقیناً 50 سے زیادہ الماریاں باآسانی بھر سکتی ہیں۔
= ایک اعتراض یہ ہے کہ ’’ایام الصُّلح‘‘ میں حضرت عیسیٰ ؑ کی عمر 120سال جبکہ ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ 125سال لکھی ہے۔ اور ’’تذکرۃالشہادتین‘‘ میں حضرت مسیح ؑکے واقعۂ ہجرت کے ذکر میں لکھا ہے ’’اس واقعہ کے بعد عیسیٰ ابن مریم نے 120 برس عمر پائی اور پھر فوت ہوکر اپنے خدا کو جاملا‘‘۔ معترض کہتا ہے کہ اس حساب سے توحضرت عیسیٰ کی عمر153سال ہوجاتی ہے۔
اہل زبان کے ہاں یہ مسلّمہ طرزِ بیان ہے کہ کسی انسان کے حالات اور زندگی کے واقعات بیان کرنے کے بعد جب یہ کہا جاتا ہے کہ پھر اس انسان نے اتنی عمر میں وفات پائی تو اس کا حساب اس کی پیدائش سے لگایا جاتا ہے نہ کہ زندگی میں ہونے والے الگ الگ واقعات سے۔ بالکل اسی طریق کے مطابق حضورعلیہ السلام نے واقعہ صلیب کے بعد ہجرت کا ذکر فرمایا اور پھر لکھا کہ بالآخر انہوں نے 120سال کی عمر میں وفات پائی۔
جہاں تک 120اور125سال کا تعلق ہے تو احادیث میں دونوں روایات ملتی ہیں۔ کنز العمال اور المعجم الکبیرللطبرانی میں 120 اور الطبقات الکبری لابن سعد میں 125 سال مذکور ہے۔
= مخالفین کا ایک اعتراض یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مختلف کتب میں حضرت مسیح ناصریؑ کی قبر چار مختلف مقامات پر بیان کی ہے یعنی ملکِ شام ، گلیل، یروشلم اور سرینگر کشمیر میں۔
دراصل یروشلم شہر کانام ہے۔گلیل اس علاقہ یا صوبہ کانام ہے اور شام اس تمام ملک کانام ہے۔ اور تینوں لفظ بیک وقت درست ہیں۔ البتہ یروشلم اور سرینگر کے اختلاف کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یروشلم والی قبر سے مراد وہ عارضی قبر نما جگہ ہے جس میں مجروح ہونے کی حالت میں حضرت مسیح ناصریؑ کو رکھا گیا تھا (ست بچن) اور وہاں سے وہ باہر نکل آئے۔ یہ سارا ذکر عیسائی عقیدہ اور اناجیل کی رُو سے ہے۔ اس سارے ذکر کے بعد آپؑ نے اپنی ذاتی تحقیق اور اس کا معین نتیجہ یوں درج فرمایا ہے کہ: ’’ اب صحیح تحقیق ہمیں اس بات کے لکھنے کے لئے مجبور کرتی ہے کہ واقعی قبر وہی ہے جو کشمیر میں ہے‘‘۔ (ست بچن)
= ایک اعتراض یہ ہے کہ آپؑ نے ’’شہادت القرآن‘‘ میں حدیث ھذا خلیفۃاللہ المھدی کا حوالہ بخاری شریف دیا ہے جبکہ یہ حدیث وہاں نہیں ہے۔
دیکھنے والی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو حدیث بیان کی ہے کیا وہ واقعی حدیث ہے یا نہیں!۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ یہ حدیث اپنے الفاظ کے لحاظ سے بالکل درست ہے اور صحاح ستہ کی کتاب ابن ماجہ میں موجود ہے۔ امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں اس کو درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق بھی صحیح ہے۔
پس اس مسلّمہ حدیث کا حوالہ درج کرنے میں اگر سہواً دوسری کتاب کا نام درج ہوگیا ہے تو یہ جائے اعتراض نہیں۔ حضرت مسیح پاکؑ نے جن مشکل حالات میں 90سے زائد کتب شائع فرمائیں وہ اپنی ذات میں ایک عظیم معجزہ ہے اور جہاں آپ نے اپنی کتب میں ہزاروں ہزار حوالے درست درج فرمائے۔ سہو و نسیان بشریت کا ایک تقاضا ہے اور انبیائے کرام اس سے بالا نہیں ہوتے۔ حضرت آدمؑ اور حضرت موسیٰ ؑکے نسیان کا ذکر قرآن مجیدمیں ہے اور ہمارے آقا ومولیٰ محمد عربی ﷺ کی زندگی میں بھی اس کی مثالیں نظر آتی ہیں نیز آپ نے خود فرمایا ہے کہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں، مَیں بھی کبھی بھول جاتا ہوں جس طرح تم بھولتے ہو۔
= تاریخی غلط بیانیوں کے حوالہ سے ایک اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے: ’’تاریخ کو دیکھو کہ آنحضرت ﷺ وہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہوگیا اور ماں صرف چند ماہ کابچہ چھوڑ کر مرگئی‘‘۔ (پیغام صلح)
یاد رکھنا چاہئے کہ معروف اور مشہور قول تو یہی ہے کہ رسول پاک ﷺ کے والد ماجد کی وفات اس وقت ہوئی جبکہ آپ کی والدہ ماجدہ حمل سے تھیں اور مسیح پاکؑ نے اس کا ذکر اپنی کتب میں کئی جگہ پر فرمایا ہے۔ البتہ سیرت کی کتابوں میں ایسے حوالے بھی بکثرت ملتے ہیں کہ آپ ؐکے والد ماجد کی وفات آپؐ کی پیدائش کے بعد ہوئی۔ علامہ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ اکثر علماء کایہ خیال ہے کہ رسول پاک ﷺ کے والد ماجد کی وفات اس وقت ہوئی جب آپؐ پنگھوڑے میں تھے۔ (السیرۃ النبویہ ابن ہشام صفحہ 128)۔ بعض دیگر علماء نے والد ماجد کی وفات کے وقت آپؐ کی عمر 28دن ، دو ماہ، سات ماہ، نو ماہ، ایک سال، دو سال اور سوادو سال بھی بیان کی ہے۔
جہاں تک آپ کی والدہ ماجدہ کی وفات کا تعلق ہے۔ اس بارہ میں علامہ محمد باقر مجلسی نے لکھا ہے کہ ’’جب رسول اللہ ﷺ اپنی عمر مبارک کے چوتھے مہینہ میں پہنچے تو آپ کی والدہ آمنہ وفات پاگئیں۔ چار ماہ کی عمر میں آپؐ بغیر ماں باپ کے یتیم بچے تھے‘‘۔ (بحارالانوار)
اسی کتاب میں آپؐ کے دادا عبدالمطلب کا ایک قول بھی اسی مضمون کادرج ہے۔
= حضرت مسیح موعودؑکے خلاف یہ اعتراض بھی اٹھایا جاتا ہے کہ آپؑ نے اپنے مخالفین کے لئے سخت کلامی کا طریق اختیار کیا حتیٰ کہ انہیں گالیاں بھی دیں۔
یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اِس کی ابتدا کبھی بھی مسیح پاکؑ کی طرف سے نہیں ہوئی۔ آپؑ کا چیلنج ہے: ’’کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مَیں نے کسی مخالف کی نسبت اس کی بد گوئی سے پہلے خود بدزبانی کی ہو‘‘۔ جب مخالفین کی بد زبانی حد سے بڑھ گئی تو آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’تب خدا نے میرے دل میں ڈالا کہ صحتِ نیت کے ساتھ ان تحریروں کی مدافعت کروں‘‘۔(تتمہ حقیقۃ الوحی)
چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ایماء پر آپ نے اُن گالیوں کے جواب میں مخالفین کی اصلاح کی خالص نیّت سے جَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا (سورۃ الشوریٰ) کے مطابق اور معترضین کے جوش اور غیظ و غضب کودُور کرنے کے لئے جوابی الفاظ استعمال فرمائے جن کا جواز لَا یُحِبُّ اللہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ (سورۃ النساء) سے ملتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا: ’’ دشنام دہی اَور چیز ہے اور بیان واقعہ کا، گو وہ کیسا تلخ اور سخت ہو دوسری شے ہے‘‘۔ (ازالہ اوہام)
پھر مزید فرمایا: ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا جس کو دشنام دہی کہا جائے‘‘۔ ( ازالہ اوہام)
سخت کلامی کے اتہام کے سلسلہ میں ایک محاورہ جس کو بہت اچھالا جاتا ہے وہ ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایاہے۔ عقلمند لوگ خوب جانتے ہیں کہ محاورہ کا لفظی ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ لالچی شخص کو محاورۃً اِبْنُ الدِّیْنَار کہا جاتا ہے حالانکہ وہ دینار کا بیٹا نہیں ہوتا۔ اسی طرح مسافر کو اِبْنُ السَّبِیْل کہا جاتا ہے جبکہ وہ راستہ کا بیٹا نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ، جن کو عربی کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تھا، ہرگز ہر گز اِس محاورہ کاترجمہ کنچنی کی اولاد نہیں کیا۔ اس محاورۂ زبان کا صحیح ترجمہ باغی، سرکش، اور متمرد انسان ہے۔ آپؑ نے خوداپنی ایک کتاب میں ابن البغاء کا ترجمہ ’’ سرکش انسان ‘‘ بیان فرمایا ہے۔ یہ بات بھی زیر نظر رکھنی چاہئے کہ یہ الفاظ کس سیاق و سباق میں بیان کئے گئے ہیں۔ حضورؑ نے اپنی ان کتب کے حوالہ سے جو غیر مسلموں میں تبلیغ کی غرض سے تالیف فرمائیں ، فرمایا ہے: ’’ یہ وہ کتب ہیں جن کو سب مسلمان محبت اور مؤدت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور مجھے قبول کرتے ہیں اور میری دعوت کو سچا سمجھتے ہیں سوائے ان سرکش لوگوں کے جن کے دلوں پر خدا تعالیٰ نے مہر لگادی ہے پس وہ قبول نہیں کرتے‘‘۔ (ترجمہ عربی عبارت، آئینہ کمالات اسلام)۔ پس یہ سیدھا سادا ترجمہ ہے جس کو مخالفین نے کچھ کا کچھ بنا دیا ہے۔
= بد زبانی کے ضمن میں ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپؑ نے اپنے مخالفین کے بارہ میں لعنت کا لفظ ایک ہزار بار لکھا ہے۔ اس اعتراض میں یہ مغالطہ ہے کہ گویا سب مخالفین کے بارہ میں لعنت کا لفظ لکھا گیا ہے۔ حق یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے لعنت ڈالنے کا آخری طریق اُن دشمنانِ اسلام کے خلاف اختیار فرمایا جو محبوبِ کبریا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر سبّ و شتم میں انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ نیز اسلام اور قرآن مجید پر بھی دلآزار حملوں سے مسلمانوں کے سینے چھلنی کرتے تھے۔اس بارہ میں آپؑ نے فرمایا ہے: ’’ کسی نبی نے سخت گوئی میں سبقت نہیں کی بلکہ جس وقت بد طینت کافروں کی بدگوئی انتہاء تک پہنچ گئی تب خدا کے اذن سے یا اس کی وحی سے وہ الفاظ انہوں نے استعمال کئے‘‘۔ (تتمہ حقیقۃ الوحی)
بعینہٖ یہی طریق حضور علیہ السلام نے اختیار فرمایا۔
جہاں تک کسی پر لعنت ڈالنے کا سوال ہے۔ قرآن مجید میں اور احادیث میں اس کا جواز ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ظالم قوم کے بارہ میں فرماتا ہے: اُولٰئِکَ جَزَائُ ھُمْ اَنَّ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر یقیناً اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔حساب کیا جائے تو یہ کروڑوں نہیں بلکہ بے حساب لعنتیں بن جاتی ہیں۔ پھر آنحضرت ﷺ نے ظالموں کے خلاف ایک عرصہ تک فجر کی نماز میں نام لے لے کر ان پر لعنت ڈالی۔ (صحیح بخاری)
= یہ اعتراض بھی اٹھایا جاتا ہے کہ آپؑ نے ابتدا میں ’’براہین احمدیہ‘‘ میں اسلام کی تائید میں تین سو دلائل دینے اور کتاب کی پچاس جلدیں شائع کرنے کا وعدہ کیا اور یہ دونوں وعدے پورے نہیں کئے۔
وعدہ خلافی کا الزام تو تب لگ سکتا ہے جب کوئی وعدہ کیا گیاہو۔ آپؑ نے فرمایا ہے: ’’مَیں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اِثبات ِ حقیّتِ اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل (یعنی اسلام کی اعلیٰ تعلیمات اور زندہ معجزات۔ ناقل) ہزار ہا نشانوں کے قائم مقام ہیں۔ پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے کے لئے مجھے شرحِ صَدْر عنایت کیا … سو میں انشاء اللہ تعالیٰ یہی دونوں قسم کے دلائل اس کتاب میں لکھ کر اس کتاب کو پورا کروں گا‘‘۔ (دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم)
انبیاء کے سب معاملات اللہ تعالیٰ کے اِذن سے اور اس کے منشاء کے مطابق پورے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے آپؑ کے ارادہ کو اس طور سے پورا فرمایا کہ آپ نے براہین احمدیہ کے چار حصوں کے بعد 85سے زائد کتب لکھیں جن میں یہ مذکورہ بالا دلائل پوری شرح اور بسط کے ساتھ بیان فرمائے اور آخر میں براہین احمدیہ حصہ پنجم لکھ کر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنے ارادہ کو مکمل فرمایا۔ جب اصل مقصود پورا ہوگیا تو اعتراض خودبخود باطل ہوجاتا ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ بالا 300دلائل بھی جماعت کی طرف سے کتابی صورت میں شائع شدہ ہیں۔
= یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ پہلے ’’براہین احمدیہ‘‘ کی پچاس جلدیں شائع کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن صرف پانچ جلدیں لکھیں۔ اس کا جواب بھی بنیادی طور پر یہی ہے کہ وعدہ خلافی تو تب ہوتی ہے جب وعدہ کیا گیا ہو۔
حضورؑ نے خود فرمایا ہے: ’’ پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیااور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے اس لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہوگیا‘‘۔ ( براہین احمدیہ حصہ پنجم)
اس جواب سے کہ پچاس حصے لکھنے کا اصل مقصد پانچ حصوں سے بتمام وکمال پورا ہوگیا، سعید اور نیک فطرت لوگ تو مطمئن ہوجاتے ہیں لیکن سطحی نظر کے لکیر کے فقیر استہزاء پر اتر آتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے یہ مثال کافی ہونی چاہئے کہ اگر ایک شخص نے دوسرے کو پچاس پائونڈ دینے کا وعدہ کیا ہو اور وہ اس کو یہ پچاس پاؤنڈ ایک ایک کر کے دینے کی بجائے دس دس پاؤنڈ کے پانچ نوٹ دیدے تو کیا اِس طرح اُس کا وعدہ پورا نہیں ہوجائے گا؟
معترضین کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ معراج کے موقعہ پر جب آنحضرت ﷺ نے بار بار پچاس نمازوں میں تخفیف کی درخواست کی تو آخری بار اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کرتے ہوئے فرمایا: ھِیَ خَمْسٌ وَھِیَ خَمْسُونَ (بخاری کتاب الصلوٰۃ ) کہ اب فرض نمازوں کی تعداد تو پانچ ہے لیکن یہ پچاس کے برابر شمار ہوں گی۔
کسی تحریر کا کمال اس کا مؤثر ہونا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی تاثیر کاسب سے بڑا اور زندہ جاوید ثبوت وہ سب احمدی ہیں جو اِن کتب کو پڑھ کر احمدی ہوئے اور پھر ان کتب نے ان کی زندگیوں میں وہ انقلاب برپا کیا جس نے انہیں ایک ادنیٰ حالت سے اٹھاکر خدا شناس اور پھر خدا نما وجود بنادیا۔مخالفین کے نزدیک یہ کتب اگر واقعۃً جھوٹ کا پلندہ ہیں اور اِن کو پڑھنے والا کبھی احمدیت کی آغوش میں نہیں آئے گا تو پھر وہ اِن کتب کو خود شائع کرکے ساری دنیا میں پھیلا کیوں نہیں دیتے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں ان کتب کی اشاعت کی بھی اجازت نہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے مخالفین کے دلوں میں ایک چھپا ہوا خوف ہے کہ ان کتابوں کے پڑھنے سے لوگ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے عافیت بخش پیغام کی طرف مائل ہوجائیں گے۔
حق بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریرات نور اور ہدایت کا ایک بے نظیر خزانہ ہیں اور اس دَور میں حقیقی اسلام کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ خود مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا ہے: ’’ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے‘‘۔ ( ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ403)
نیز فرمایا: ’’وہ زندگی بخش باتیں جو مَیں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اَور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا … یہ حکمت اور معرفت جو مُردہ دلوں کیلئے آب حیات کا حکم رکھتی ہے دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی‘‘۔ (ازالہ اوہام)
اس لئے آپ نے افراد جماعت کو اِن کتب کے پڑھنے کی تاکیدی نصیحت فرمائی اور ایک جگہ فرمایا: ’’سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں،کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4)
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں اِس امام مہدی اور مسیح محمدی کو ماننے کی توفیق ملی اور ان روحانی خزائن کا ہمیں وارث ٹھہرایاگیا۔ اِس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اِن بابرکت تحریروں کا مطالعہ کریں تاکہ ہمارے دل اور ہمارے سینے اور ہمارے ذہن اس روشنی سے منور ہوجائیںکہ جس کے سامنے دجّال کی تمام تاریکیاں کافور ہوجائیں گی۔ اللہ کرے کہ ہم اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیاں ان بابرکت تحریرات کے ذریعہ سنوار سکیں اور اپنے دلوں اور اپنے گھروں اور اپنے معاشرہ میں امن و سلامتی کے دیئے جلانے والے بن سکیں اور خدا اور اس کے رسول کی محبت اس طرح ہمارے دلوں میں موجزن ہو کہ اس کے طفیل ہم کُل عالَم میں بنی نوع انسان کی محبت اور ہمدردی کی شمعیں فروزاں کرتے چلے جائیں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘ ۔ (پیغام مجریہ 10اگست 2008ء)