حضرت مسیح موعودؑ کا حلم
سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کی سیرت طیبہ کے ایک روشن پہلو ’’حلم و حوصلہ اور بردباری‘‘ کے چند واقعات مکرم مظفر احمد شہزادؔکے قلم سے ماہنامہ ’’خالد‘‘ جون 2004ء کی زینت ہیں۔
حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ایک جلسہ میں ایک برہمو لیڈر حضرت سے کچھ استفسار کر رہے تھے۔ اسی اثناء میں ایک بدزبان مخالف آیا اور اس نے حضرت کے بالمقابل نہایت دل آزار اور گندے حملے کئے۔ آپ منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے خاموش بیٹھے رہے گویا کچھ ہو نہیں رہا۔ برہمو لیڈر نے اسے منع کرنا چاہا مگر اس نے پرواہ نہ کی۔ حضرت نے ان کو منع فرمایا کہ آپ اسے کچھ نہ کہیں۔ آخر وہ خود ہی بکواس کرکے تھک گیا اور اٹھ کر چلا گیا۔ برہمو لیڈر بے حد متاثر ہوا اور اس نے کہا کہ اسے آپ چپ کراسکتے تھے، اپنے مکان سے نکال سکتے تھے اور آپ کے ادنیٰ اشارہ سے اس کی زبان کاٹی جاسکتی تھی مگر آپ نے اپنے کامل حلم اور ضبط نفس کا عملی ثبوت دیا۔
حضرت شیخ صاحبؓ کی ہی روایت ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ پر بالمشافہ زبانی گندے حملے ہی نہ ہوتے تھے اور آپؑ کے قتل کے فتووں، منصوبوں اور اس کے لئے کوششوں کو ہی کافی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بلکہ اخبارات اور خطوط میں بھی گالیوں کی بوچھاڑ کی جاتی تھی۔ اور ایسے خطوط عموماً بے رنگ آپؑ کو بھیجے جاتے تھے۔ آپؑ ڈاک کا محصول اپنی گرہ سے ادا کرکے وہ خطوط وصول کرتے جن میں اول سے لے کر آخر تک گندی اور فحش گالیوں کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ آپ ان شریروں اور شوخ چشموں کیلئے دعا کرکے یہ خطوط ایک تھیلے میں ڈال دیتے۔
حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ کی روایت ہے ایک دفعہ محمود چار برس کا تھا جب انہوں نے دیاسلائی لے کر حضورؑ کے بعض مسودات کو آگ لگا دی۔ جب حضورؑ کا اس واقعہ کا علم ہوا تو مسکرا کر صرف اتنا کہا: ’’خوب ہوا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہوگی اور اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے‘‘۔
حضرت عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ 13؍ فروری 1903ء کو ایک ڈاکٹر صاحب لکھنؤ سے تشریف لائے ۔ انہوں نے حضورؑ سے کچھ سوال وجواب کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کے بیان میں شوخی ، استہزاء اور بے باکی تھی۔ حضرت مسیح موعود ؑ کچھ پرواہ کئے بغیر ان کی باتوں کا جواب دیتے تھے۔
آپؑ دینی سائل کو خواہ کیسا ہی بے باکی سے بات چیت کرے اور گفتگو بھی آپ کے دعویٰ کے متعلق نہ ہو، بڑی نرمی اور تحمل سے جواب دیتے۔ ایک روز ایک ہندوستانی جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا، آیا اور بڑی گستاخی سے باب کلام وا کیا۔ اور تھوڑی گفتگو کے بعد کئی دفعہ کہا آپ اپنے دعویٰ میں کاذب ہیں اور میں نے ایسے مکار بہت دیکھے ہیں اور میں تو ایسے کئی بغل میں دبائے پھرتا ہوں۔ غرض ایسے بے باکانہ الفاظ کہے مگر آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا۔
کسی کا کلام کیسا ہی بیہودہ اور بے موقعہ ہو اور کسی کا کوئی مضمون نظم میں یا نثر میں کیسا ہی بے ربط اور غیر موزوں ہو۔ آپ سننے کے وقت یا بعد خلوت میں کبھی نفرت اور ملامت کا ظہار نہیں کرتے تھے۔ بسااوقات بعض سامعین اس دلخراش لغو کلام سے گھبرا کر اٹھ گئے ہیں مگر آپؑ نے کبھی بھی ایسا کوئی اشارہ کنایہ نہیں کیا۔‘‘
حضرت مولانا عبد الکریم صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ حضرت اقدسؑ نازک مضمون لکھ رہے ہیں۔ اور پاس ہنگامہ قیامت برپا ہے، بے تمیز بچے اور سادہ عورتیں جھگڑ رہی ہیں چیخ رہی ہیں، چلا رہی ہیں۔ مگر حضرت کام میں یوں مستغرق ہیں کہ گویا خلوت میں بیٹھے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ پوچھا۔ اتنے شور میں حضور کو لکھنے میں یا سوچنے میں ذرا بھی تشویش نہیں ہوتی۔ مسکرا کر فرمایا: میں سنتا ہی نہیں تشویش کیا ہو۔ اور کیونکر ہو۔
مزید فرماتے ہیں: حضرت کا حوصلہ اور حلم میں نے سینکڑوں مرتبہ دیکھا ہے آپ تنہا بیٹھے لکھ رہے ہیں اور آپ کی قدیمی عادت ہے کہ دروازے بند کرکے بیٹھا کرتے ہیں۔ ایک لڑکے نے زور سے دستک بھی دی اور منہ سے بھی کہا: ابابوا کھول۔ آپؑ وہیں اٹھے ہیں اور دروازہ کھولا ہے۔ کم عقل بچہ اندر گھسا ہے اور ادھرادھر جھانک کر الٹے پاؤں نکل گیا ہے۔ حضرت نے پھر معمولاً دروازہ بند کر لیا ہے۔ دوہی منٹ گذرے ہوں گے جو پھر موجود اور زور زور سے دھکے دے رہے ہیں، اور چلا رہے ہیں۔ آپ پھر بڑے اطمینان سے اٹھے ہیں اور دروازہ کھول دیا ہے بچہ اب بھی سر اندر کر کے اور کچھ منہ میں بڑبڑا کے پھر الٹا بھاگ جاتا ہے۔ حضرت بڑے ہشاش بشاش دروازہ بند کرکے کام میں بیٹھ جاتے ہیں۔ کوئی پانچ منٹ گزرے ہیں تو بچہ پھر موجود۔ پھر وہی گرما گرمی۔ میں نے ایک دفعہ گنا کوئی بیس دفعہ ایسا کیا اور ان ساری دفعات میں ایک دفعہ بھی حضرت کے منہ سے زجر اور توبیخ کا کلمہ نہیں نکلا۔
حضرت مولوی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپؑ کو سخت درد سر ہورہا تھا اور پاس حد سے زیادہ شوروغل برپا تھا۔ میں نے عرض کیا: جناب کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی۔ فرمایا ہاں اگر چپ ہوجائیں توآرام ملتا ہے۔ میں نے عرض کیا: تو جناب کیوں حکم نہیں کرتے۔ فرمایا: آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں، میں تو کہہ نہیں سکتا۔ بڑی بڑی سخت بیماریوں میں آپ الگ ایک کوٹھڑی میں پڑے ہیں اور ایسے خاموش پڑے ہیں کہ گویا مزہ میں سورہے ہیں۔ کسی کا گلہ نہیں کہ تو نے ہمیں کیوں نہیں پوچھا اور ہماری خدمت نہیں کی۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ ہی کی روایت ہے کہ’’حضرت ایک شام سردرد سے بیمار ہوگئے لیکن جب مشتاقان زیارت ہمہ تن چشم انتظار ہورہے تھے تو مجمع میں تشریف لائے۔ منشی عبد الحق صاحب لاہوری پنشنر نے کمال محبت اور رسم دوستی کی بناء پر بیماری کی تکلیف کی نسبت سے پوچھا اور کہا کہ آپ کا کام بہت نازک ہے۔ آپ کو چاہئے کہ جسم کی صحت کی رعایت کا خیال رکھیں اور ایک خاص مقوی غذا لازماً آپ کیلئے ہرروز تیار ہونی چاہئے۔ حضرت نے فرمایا ہاں بات تو درست ہے اور ہم نے کبھی کبھی کہا بھی ہے مگر عورتیں کچھ اپنے ہی دھندوں میں ایسی مصروف ہوتی ہیں کہ اور باتوں کی چنداں پرواہ نہیں کرتیں۔ اس پر منشی صاحب بولے: اجی حضرت آپ ڈانٹ ڈپٹ کرنہیں کہتے اور رعب پیدا نہیں کرتے۔ میرا یہ حال ہے کہ میں کھانے کے لئے خاص اہتمام کیا کرتا ہوں اور ممکن نہیں ہے کہ میرا حکم کبھی ٹل جائے۔ ورنہ ہم دوسری طرح خبر لیں۔ میں منشی صاحب کی اس بات پر خوش ہوا اس لئے کہ یہ بات بظاہر میرے محبوب آقا کے حق میں تھی۔ اس بناء پر میں نے منشی صاحب کی تائیدکی کہ حضور کو بھی چاہئے کہ درشتی سے یہ امر منوائیں۔ اس پر حضرت نے میری طرف دیکھا اور تبسم سے فرمایا: ہمارے دوستوں کو تو ایسے اخلاق سے پرہیز کرنا چاہئے۔