حضرت مسیح موعودؑ کی تبلیغ کا جرمنی میں پہلا ثمر

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 22مارچ 2022ء)
حضرت مسیح موعودؑ کی دعوت الی اللہ کے نتیجے میں جرمنی میں عطا ہونے والے ابتدائی ثمرات کا ذکر مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب نے اپنے ایک مختصر مضمون میں کیا ہے جو روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22؍مارچ 2013ء کی زینت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ فرمایا تھا کہ

’’میں تیرے پیغام کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘

اس وعدے کی سچائی کو خداتعالیٰ نے حضورعلیہ السلام کی پاکیزہ حیات میں ہی سچا ثابت کر دیا تھا۔ مثلاً ہنگری کے مشہور مستشرق Ignaz Goldziherنے اپنی تحریرات میں احمدیت کا ذکر بھی کیا ہے۔ وہ جون 1850ء میں ہنگری کے قدیم وسطی شہر Szekesfehervar میں ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے شام، فلسطین اور مصر کے سفر کیے جہاں اسلامی علوم کی آگاہی حاصل کی۔ Ignazکو مشہور جرمن مستشرق Theodore Noldekeاور ڈچ مستشرق Christiaan Snouck Hurgronjeکے ساتھ یورپ میں جدید اسلامی علوم کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی وفات 13نومبر 1921ء کو ہوئی۔
Ignaz تک رسائی دراصل حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ سابق مبلغ امریکہ و صدر صدرانجمن احمدیہ ربوہ (ولادت:دسمبر1881ء، بیعت:1901ء، وفات:مارچ1983ء) کے ایک مراسلہ سے ہوئی جو انہوں نے 1907ء میں ایڈیٹر اخبار’’بدر‘‘قادیان حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے نام علی گڑھ سے بھجوایا تھا جہاں ان دنوں آپ تعلیم پا رہے تھے، چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’…مفصلہ ذیل سطور ارسال ہیں اگر مناسب سمجھیں تو اپنے اخبار میں جگہ دے کر مشکور کریں۔ یہ اس جرمن کتاب کا ترجمہ ہے جس کا حوالہ پہلے ایشو میں نکل چکا ہے، اس کتاب کا نام ہےThe Oriental Religionsیعنی مذاہب اقصائے شرقیہ۔……۔ جس آرٹیکل کا مَیں ترجمہ ارسال کرتا ہوں اس کے لکھنے والے Ignaz Goldziher ایک بڑے عالم ہیں اور علوم شرقیہ، خاص کرکے عربی کے بہت بڑے ماہر ہیں، قریباً ہر ایک قسم کی کتاب وہ بہم پہنچا کر پڑھتے ہیں۔ پیشتر اس کے کہ مَیں اصل ترجمہ لکھوں، میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر ہارووٹز صاحب کا بہت بہت شکریہ ادا کروں کہ جنہوں نے اپنا بہت سا قیمتی وقت صرف کرکے اور مجھ پر کمال مہربانی فرما کر مجھے اس جرمن حصہ کا انگریزی میں ترجمہ کردیاجس کا مَیں اردو ترجمہ ارسال کرتا ہوں۔‘‘
اس مکتوب میں حضرت مولوی صاحبؓ نے جرمن یہودی مستشرق پروفیسر Joseph Horovit۔(1874-1931) کا شکریہ ادا کیا ہےجو 1907ء سے 1915ء تک MAO College علی گڑھ (جو بعد میں مسلم علی گڑھ یونیورسٹی بن گیا) میں عربی پڑھاتے رہے۔ اس مکتوب سے چند دن قبل بھی حضرت مولوی محمد دین صاحب نے ایک مراسلہ روانہ فرمایا تھا جسے ایڈیٹر اخبار بدر نے ’’جرمنی میں سلسلہ حقہ کی خبر‘‘ کے عنوان کے تحت یوں درج فرمایا:
’’ماسٹر محمد دین صاحب علی گڑھ کالج سے لکھتے ہیں کہ یہاں ایک جرمن پروفیسر ہے جو کہ عربی پڑھاتا ہے، اس نے مجھے ایک کتاب جرمن زبان میں دکھلائی جس میں اقصائے مشرق کے مختلف مذاہب کا حال دیا ہوا تھا، اس میں حضور مرزا صاحب اور فرقہ احمدیہ کا بھی مختصر ذکر لکھا ہے جو کہ ایک دو صفحوں سے پروفیسر نے ترجمہ کرکے مجھے سنایا مگر معلومات سب صحیح نہ تھے تاہم اس میں شک نہیں کہ فرقہ احمدیہ کی اہمیت کے وہ لوگ قائل ہوچکے ہیں اور اپنی کتب میں اس کا ذکر کرنے لگے ہیں۔‘‘ (بدر 9مئی 1907ء صفحہ 2کالم 1)

جرمن مستشرق کا بیان

1910ء میں Ignazکی ایک کتاب جرمن زبان میں بعنوان Vorlesungen uber den Islamچھپی جو کہ ان کے چھ لیکچروں کا مجموعہ ہے، اس کتاب کا انگریزی زبان میں ترجمہ Andrasاور Ruth Hamoriنے کیا جسے پرنسٹن یونیورسٹی پریس پرنسٹن نیوجرسی نے شائع کیا۔ اس کا عنوان تھا: Introduction to Islamic Theology and Law
اس کے چھٹے باب Later developments میں صفحات نمبر 264 اور 265 پر احمدیت کا درج ذیل تعارف موجود ہے جس کا ذکر حضرت مولوی محمد دین صاحب نے یہ کہتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’معلومات سب صحیح نہ تھے۔‘‘
’’ایسی ہی علمی فضا میں بھارت میں اسلام کا جدید ترین فرقہ پیدا ہوا ہے۔اس کا غیرمعمولی مطالعہ گو ابھی تک کچھ مشکل ہے۔ احمدیہ کے بانی جیسے کہ اس فرقہ کا نام ہے، میرزا غلام احمد آف قادیان پنجاب نے اس (فرقہ) کی اصل کو عیسیٰ کے حقیقی مقبرہ کی طرف جو کہ خانیار گلی، سرینگر،کشمیر میں ہے، منسوب کیا ہے: یہ وہی (مقبرہ) ہے جوقبر یُوزآسف جو کہ ایک غیرمعروف بزرگ ہیں کے نام سے معروف ہے ۔ (واقعۃً یہ (مقبرہ) شاید اصلاً بدھ مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔) عیسیٰ اپنے مخالفین کے ظلم و ستم سے بچ کر یروشلم سے نکل کر اپنے مشرقی سفروں کے ذریعہ سے یہاں آئے تھے جہاں اُن کی وفات ہوئی۔ اس دریافت کے بعد جس کو تحریری ثبوتوں سے بھی تقویت ملتی ہے، غلام احمد خواہش رکھتے ہیں کہ ہردو عیسوی اور اسلامی روایات کا مقابلہ کریں جن میں عیسیٰ کے زندہ ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ یہ خود مسیح ہیں جو عیسیٰ کے رنگ میں رنگین ہوکر بطور ان کے بروز کے دنیا کے ساتویں ہزار سال میں ظاہر ہوئے ہیں، اور ایسے ہی یہ مسلمانوں کے مہدی منتظر بھی ہیں۔

مقبرہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام

ایک اسلامی روایت کے مطابق خدا تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایمان کی تقویت کے لئے ایک شخص کو کھڑا کرتا ہے جو دینِ اسلام کی تجدید کرتا ہے۔ سُنّی اور شیعہ حضرات ان احباب کو نہایت ہی عزت اور شرف کامقام دیتے ہیں جو اپنی ذات میں اپنی اپنی صدی کے مجدد قرار پاتے ہیں۔ ان (مجددین) کے آخر میں خود مہدی کا ظہور ہے، احمد کا دعویٰ ہے کہ یہ وہی ہیں؛ یہ دین کی تجدید کی خاطر خدا کی طرف سے چودھویں اسلامی صدی کے سر پر بھیجے گئے ہیں۔ ان ذو وجہین دعاوی کے ذریعہ سے یعنی (بروزِ) عیسیٰ اور مہدی جس میں ہنود کی بہبود کے لئے انہوں نے اوتار ہونے کا خطاب بھی شامل کرلیا ہے۔ وہ آنے والے وقت میں صرف اسلام کی عالمی فتح ہی کے علم بردار نہیں ہیں بلکہ اسلام کے عالمگیر مشن کو تمام بنی نوع تک پہنچانے کے بھی حامی ہیں۔
عوام الناس میں گو آپ پہلے پہل 1880ء میں ظاہر ہوئے لیکن 1889ء سے باقاعدگی سے سلسلہ بیعت جاری کیا اور اپنی نبوت کے پرچار اور اس کی سچائی ثابت کرنے کے لئے کئی نشانات و معجزات اور پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ 1894ء کے ماہِ رمضان کا کسوف و خسوف والا واقعہ ان کے مہدی ہونے پر دلیل ہے کیونکہ اسلامی روایات کے مطابق مہدی کی آمد پر افلاک پر ایسے ہی نشانات کا ظہور ہونا مقدر تھا۔ البتہ عہدئہ مہدویت جس کا ان کو دعویٰ ہے عام اسلامی خیالات کے مطابق پائے جانے والے مہدی کے برخلاف ہے کیونکہ ان کا مشن امن و آشتی پر قائم ہے۔ مسلمانوں کے معتدبہ حصہ میں پایا جانے والا تصورِ مہدی یہ ہے کہ وہ ایک سپاہی ہوگا جو کہ کفار سے جنگ کرے گا اس حال میں کہ اس کے ہاتھوں میں شمشیر ہوگی اور اس کی راہ خون سے رنگین ۔ شیعہ احباب اُسے صاحب السیف کا لقب دیتے ہیں یعنی تلوار والا آدمی۔ نیا نبی (درحقیقت) امن و سلامتی کا شہزادہ ہے۔ اس نے اسلامی فرض جہاد کو ختم کردیا ہے (یہاں مصنف کو غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے جہاد کی فرضیت کو ختم نہیں کیا بلکہ اِس زمانے میں دین کی خاطر قتال کا خاتمہ کیا ہے اور زمانے کے حالات کے مطابق جہادبالنفس اور جہاد بالقلم پر زور دیا ہے۔ ناقل) یہ اپنے پیروؤں کو امن اور برداشت کی تعلیم دیتا ہے ، تشدد کو برا سمجھتا ہے اور بالعموم کوشاں ہے اس بات کاکہ اُن میں ایسی روح اُجاگر کردے جو کلچر کو قبول کرنے والی ہو اور اُس سے مطابقت رکھے۔ وہ تعلیمات جو اِس (مہدی ) نے اپنی جماعت کے لئے پیش کی ہیں اُن میں اسلامی اخلاقی اوصاف پر خاصی توجہ دی گئی ہے۔ وہ کوشاں ہے تا بنی نوع کو ایک نئی زندگی ملے جو کہ خدا پرانسان کا ایمان بڑھنے سے متعلق ہے نیز اس کو گناہ کے شکنجہ سے آزادی دینے سے ۔ البتہ یہ (مہدی) اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ فرائضِ اسلام کی بجاآوری بھی لازمی ہے۔ اپنے پیغام کی تبلیغ کیلئے یہ (مہدی) عہدنامہ قدیم اور جدید کے علاوہ قرآن و معتبر احادیث سے بھی استدلال پیش کرتاہے۔ بادی النظر میں اس کی کامل توجہ اس بات پر ہے کہ قرآن کے خلاف نہ ہووے گو یہ اُن احادیث کے متعلق متشکک ہے جن کو بلحاظِ اعتبار یہ قابلِ تنقید گردانتا ہے۔ یہاں سے اسلام کے بعض روایتی و رسمی نظریات سے انحراف ہوتا ہے کیونکہ اُن (نظریات) کی بنیاد (اِن) احادیث پر ہے۔ علمی سرگرمی بھی اِس (مہدی) کے مشن کے ساتھ منسلک ہے جس میں عبرانی زبان تک سیکھنے پر توجہ دی گئی ہے۔ اِس تحریر کے وقت (1907ء) اِس نئے مہدی کی جماعت اندازاً 70,000 نفوس ہے ۔ اپنے حلقہ عمل سے اس نے بہت سے پیروکار بنا لیے ہیں جن میں خاص طور پر وہ مسلمان بھی شامل ہیں جو یورپین تہذیب سے متاثر تھے۔
یہ (مہدی) بڑے پائے کا مصنف ہے۔ ساٹھ سے اوپر مذہبی کتب میں جو کہ اردو اور عربی میں لکھی گئی ہیں اِس (مہدی) نے اپنی تعلیمات کو خوب کھول کر مسلمانوں پر واضح کیا ہے اور اپنے مشن کی صداقت کے دلائل پیش کئے ہیں۔ وہ مشرقی دنیا کے باہر بھی اپنا اثر قائم کرنے کے لئے ایک ماہنامہ رسالہ انگریزی زبان میں بنام ریویو آف ریلیجنز شائع کرکے کوشش کررہا ہے۔ لہٰذا یہ اسلام میں فرقہ کے لحاظ سے سب سے جدید ترین فرقہ کے طور پر نمودار ہوتا معلوم ہوتا ہے۔‘‘
Ignazکا یہ بیان 1907ء کا ہے، اسی سال حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں ایک جرمن عورت نے جرمن شہر پاسنگ سے اپنا اخلاص بھرا درج ذیل خط بھی ارسال کیا:
’’میں کئی ماہ سے آپ کا پتہ تلاش کر رہی تھی تا کہ آپ کو خط لکھوں اور آخر کار اب مجھے ایک شخص ملا ہے جس نے مجھے آپ کا ایڈریس دیا ہے۔… میں آپ سے معافی چاہتی ہوں کہ میں آپ کو خط لکھتی ہوں لیکن بیان کیا گیا ہے کہ آپ خدا کے بزرگ رسول ہیں اور مسیح موعود کی قوت میں ہوکر آئے ہیں اور میں دل سے مسیح کو پیار کرتی ہوں، مجھے ہند کے تمام معاملات کے ساتھ اور بالخصوص مذہبی امور کے ساتھ دلچسپی حاصل ہے۔ میں ہند کے قحط، بیماری اور زلازل کی خبروں کو افسوس کے ساتھ سنتی ہوں اور مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ مقدس رشیوں کا خوبصورت ملک اس قدر بُت پرستی سے بھرا ہوا ہے۔ ہمارے لارڈ اور نجات دہندہ مسیح کے واسطے جو اس قدر جوش آپ کے اندر ہے اُس کے واسطے میں آپ کو مبارک باد کہتی ہوں اور مجھے بڑی خوشی ہوگی کہ اگر آپ چند سطور اپنے اقوال کے مجھے تحریر فرماویں۔ میں پیدائش سے جرمن ہوں اور میرا خاوند انگریز تھا۔ اگرچہ آپ شاندار قدیمی ہندوستان قوموں کے نور کے اصلی پُوت (بیٹے) ہیں تاہم میرا خیال ہے کہ آپ انگریزی جانتے ہوں گے۔
اگر ممکن ہو تو مجھے اپنا ایک فوٹو ارسال فرماویں۔ کیا دنیا کے اس حصہ میں آپ کی کوئی خدمت ادا کر سکتی ہوں۔ آپ یقین رکھیں پیارے مرزا کہ میں آپ کی مخلص دوست ہوں۔
مسز کیرولا مین‘‘ (بدر 14مارچ 1907ء صفحہ 2)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں