حضرت مصلح موعودؓ کا بچپن

ماہنامہ تشحیذالاذہان فروری 2010ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے بچپن کے بارہ میں مکرم توقیر آصف صاحب کا ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہدایت فرمائی تھی کہ کسی سے کوئی چیز لے کر نہ کھانا۔ آپ کی اطاعت کا یہ عالم تھا کہ اپنے گھر سے متصل مکان میں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ سے پڑھنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ اگر پیاس لگتی تو اپنے گھر آتے اور پانی پی کر پھر چلے جاتے۔ مقصد یہی تھا کہ حضور علیہ السلام کے حکم کی نافرمانی نہ ہو۔ یہی حد درجہ کی احتیاط ہے جسے تقویٰ کہتے ہیں۔

٭ حضرت مصلح موعودؓ کی تعلیم کا آغاز گھر پر ہی قرآن کریم ناظرہ پڑھنے کے ذریعہ ہوا۔ اس غرض سے حضرت مسیح موعودؑ نے حافظ احمد اللہ صاحب ناگپوری کو مقرر فرمایا۔ ناظرہ قرآن کریم پڑھ لینے کے بعد آپ کی دنیوی تعلیم کا آغاز ہوا۔ چونکہ حضرت مصلح موعود کے صاحب علم و فضل ہونے کی خبر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دی تھی اس لیے آپ کی تعلیم کی طرف حضور علیہ السلام نے کوئی خاص توجہ نہیں دی تاکہ کوئی اس موعود بچے کے علم و عرفان کے بارے میں شک نہ کر سکے۔ تاہم حضور ؑ نے آپ کے قرآن ختم کرنے کی بہت خوشی منائی اور 7 جون 1897ء کو ایک تقریب کا اہتمام کیا اور ایک نظم ’’محمود کی آمین‘‘ لکھی۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ اپنے اساتذہ کا بے حد احترام کیا کرتے تھے۔ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ آپ کو انگریزی پڑھایا کرتے تھے وہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن کچھ بارش ہو رہی تھی کہ بندہ وقت مقرر پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سیڑھیوں کا دروازہ کھٹکھٹایا حضور نے دروازہ کھولا۔ بندہ اندر آکر برآمدہ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ آپؓ کمرہ میں تشریف لے گئے۔ میں نے سمجھا کہ کتاب لے کر باہر برآمدہ میں تشریف لائیں گے مگر جب آپ کے باہر تشریف لانے میں کچھ دیر ہوگئی تو میں نے اندر کی طرف دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ آپؓ فرش پر سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ میں نے خیال کیا کہ آج بارش کی وجہ سے شاید آپ سمجھتے تھے کہ میں حاضر نہیں ہوں گا اور جب میں آگیا ہوں تو آپ کے دل میں خاکسار کے لیے دعا کی تحریک ہوئی اور آپ بندہ کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ آپ بہت دیر تک سجدہ میں پڑے رہے اور دعا کرتے رہے۔
٭ بچپن ہی سے حضرت مصلح موعودؓ کو نمازوں کا ایسا شوق پیدا ہوا کہ کبھی نماز ترک نہیں کی۔ اس بارہ میں آپؓ خود فرماتے ہیں کہ ایک دن ضحی یا اشراق کے وقت مَیں نے وضو کیا اور وہ جُبّہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور متبرک ہے،
پہن لیا۔ تب اپنی کوٹھڑی کا دروازہ بند کر لیا اور ایک کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی اور میں اس میں خوب رویا، خوب رویا، خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اس گیارہ سال کی عمر میں مجھ میں کیسا عزم تھا کہ اس اقرار کے بعد میں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی۔ گو اس نماز کے بعد کئی سال بچپن کے ابھی باقی تھے میرا وہ عزم میرے آج کے ارادوں کو شرماتا ہے۔
٭ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ فرماتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کسی ایک کھیل کے ایسے شوقین نہیں ہوئے کہ اس میں غیر معمولی مہارت پیدا کرنے کے لیے اسے مستقلاً اپنا لیا ہو۔ طبیعت میں تجسس کا مادہ بہت تھا اور نئی چیز دیکھنے پر اس کا ذاتی تجربہ حاصل کرنے کا شوق مچلنے لگتا۔ چنانچہ ایسے دنوں میں جب موسم اور طبیعت کو فٹ بال سے زیادہ مناسبت ہو، آپ فٹ بال کھیلا کرتے۔ جب کبڈی کا دَور دورہ ہوتا، آپ کبڈی کے میدان میں نکل جاتے۔ جب بچوں میں میرو ڈبہ یا گلی ڈنڈا کی رَو چلتی تو آپ میروڈبہ یا گلی ڈنڈا کی ٹیموں میں دکھائی دینے لگتے۔ جب برسات کی جھڑیاں قادیان کے گرد اگرد پھیلے ہوئے جوہڑوں کو لبالب بھر دیتیں بلکہ پانی ان کے کناروں سے اچھل کر میدانوں میں پھیل جاتا اور قادیان حد نظر تک پھیلے ہوئے پانی کے درمیان ایک جزیرہ دکھائی دینے لگتا تو تیراکی اور کشتی رانی کا شوق ہر شوق پر غالب آجاتا۔ پھر جب خزاں اور بہار کے معتدل دن رات شکار کا موسم لے کر آتے تو آپ کے دل میں بھی یہ شوق کروٹیں لینے لگتا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

حضرت مصلح موعودؓ کا بچپن” ایک تبصرہ

  1. آج ایسے ہی مختلف جگہوں پر پھرتا پھراتا آپ کی سائیٹ پر آ گیا ۔ ماشاء اللہ بہت معلوماتی اور مفید ہے ۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے۔آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں