حضرت مصلح موعودؓ کی دلنشیں یادیں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17 فروری 2012ء میں مکرم چودھری شبیر احمد صاحب مرحوم (سابق وکیل المال اوّل) کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں ذاتی مشاہدہ کی بنیاد پر حضرت مصلح موعودؓ کی چند دلنشیں یادوں کا بیان ہے۔
محترم چودھری صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضورؓ کی پہلی بار زیارت مَیں نے 13 سال کی عمر میں کی تھی جب مجھے سیالکوٹ سے قادیان جانے کا موقعہ ملا۔حضورؓ خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے۔ گویا نُور کا اک پیکر دیکھا۔
٭ مَیں جب پانچویں یا چھٹی جماعت کا طالبعلم تھا تو حضرت مصلح موعودؓ سیالکوٹ میں تشریف لائے اور شہر کے مشہور مقام (قلعہ) پر رات کے وقت حضورؓ کا لیکچر تھا۔ لیکچر سے قبل حضورؓ کی قیامگاہ پر ایک شخص نے بھری مجلس میں عرض کیا کہ مخالفوں نے لیکچر کے دوران فساد کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے حضور وہاں تشریف نہ لے جائیں ۔ اس پر حضورؓ نے بلاخوف و خطر فرمایا کہ اگر مخالفت ہے تو پھر انشاء اللہ مَیں ضرور جاؤں گا۔ چنانچہ حضورؓ تشریف لے گئے۔ اگرچہ
ابتداء میں چاروں طرف سے خطرناک پتھراؤ ہوا لیکن مخالفین کسی حربہ سے حضور کو خائف نہ کرسکے۔ بالآخر حضور کے دلیرانہ عزم اور انتظامیہ کے حسن انتظام سے فسادیوں کو بھاگنا پڑا اور اس کے بعد حضورؓ نے شاندار لیکچر دیا جس سے سامعین مسحور ہوگئے اور کئی افراد نے ہدایت پائی۔
٭ 1932-34ء میں خاکسار قادیان میں طالب علم تھا۔ موسم گرما میں اہل قادیان بڑی تعداد میں ایک قریبی نہر پر پکنک منایا کرتے تھے اور بعض اوقات اس میں حضرت مصلح موعودؓ بھی بنفس نفیس شمولیت فرماتے تھے۔ اسی طرح کی ایک تقریب میں خاکسار نے حضور کو نہر میں تیرتے ہوئے دیکھا۔ حضور نے بازوؤں والی بنیان اور نیچے کھڑا پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ بندہ ابھی تیراکی سے ناواقف تھا اس لئے حضور کے ساتھ ساتھ نہر کے کنارے پر ہی چلتا جارہا تھا۔ حضور کے عقب میں بیس پچیس تیراک جوان تیرتے جارہے تھے۔ تیراکی کے دوران دلچسپ گفتگو بھی ہوتی جارہی تھی۔ حضورؓ نے اتنے میں فرمایا کہ مَیں نے ابھی تک پاؤں نہیں لگائے اور بدستور تیرتا آرہا ہوں اور ساتھ ہی بلند آواز سے فرمایا: محمد احمد! آپ نے بھی ابھی تک پاؤں نہیں لگائے ہوں گے۔ (محمد احمد صاحب بھاگلپوری بڑے اچھے تیراک تھے)۔ وہ کہنے لگے کہ حضور میرے پاؤں ابھی لگے ہیں ۔ اس پر حضورؓ نے خوشگوار موڈ میں فرمایا کہ مَیں تو آپ کی تعریف کررہا تھا آپ نے میری تعریف پر پانی پھیر دیا۔ کچھ دیر بعد حضور نہر سے باہر نکل کر فرمانے لگے کہ ہم اپنے مقام سے بہت دُور آگئے ہیں اب واپس جانا چاہئے، گو میں ابھی اتنا ہی مزید تیر سکتا ہوں ۔ پھر نہر کی پٹڑی پر حضورؓ نے واپسی اختیار فرمائی۔ حضورؓ نے فرمایا ہم نے بہت جلد قریباً ایک میل کا فاصلہ طے کرلیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ نہر والوں کے میل چھوٹے ہوتے ہیں ۔ میرے دل میں حضورؓ سے بات کرنے کی خواہش کروٹیں لے رہی تھی اس لئے مَیں نے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا کہ ہاں حضور چھوٹے ہوتے ہیں ۔ حضور نے میری طرف غور سے دیکھا اور پوچھا آپ کو کس طرح معلوم ہوا۔ مَیں حضورؓ کے استفسار پر اتنا گھبرا گیاکہ گویا منہ میں زبان نہیں رہی۔ حضور میری حالت کو فوراً بھانپ گئے اور تسلّی آمیز انداز میں فرمایا آپ کس کے بیٹے ہیں ؟ خاکسار نے عرض کیا حافظ عبدالعزیز صاحب کا بیٹا ہوں ۔ فرمانے لگے: اچھا وہ سیالکوٹ والے حافظ عبدالعزیز۔ حضورؓ کے حافظے کی قوّت سے میں حیران رہ گیا۔ نیز حضورؓ کی اس حکمت نے بھی حیران کر دیا کہ میری بگڑی حالت کو کس طرح ازراہ شفقت بحال فرما دیا۔
٭ اُسی زمانہ میں ہائی سکول کے سامنے والے میدان میں غالباً سیرۃ النبیؐ کا جلسہ تھا جس میں حضور کی تقریر تھی۔ اس میں تلاوت قرآن مجید کے لئے سلسلہ کے ایک بزرگ حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی مکلف تھے اور نظم کے لئے خاکسار تھا۔ کم عمری میں خاکسار حضور سے اتنا مرعوب ہوا کرتا تھا کہ حالت نارمل نہ رہتی تھی۔ حضور کی موجودگی میں نظم پڑھنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ تاہم افتاں و خیزاں حضور کی موجودگی میں نظم پڑھی مگر ٹھیک طرح پڑھی نہ گئی۔ حضور نے تقریر شروع فرمائی تو پہلے تلاوت اور نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ منتظمین نے تلاوت کرنے کے لئے ایک بوڑھے بزرگ کو منتخب کیا جو بڑھاپے کی وجہ سے آواز بلند نہ کرسکے اور نظم کے لئے جو نظم خواں آئے تو ان کی آواز بھی ان کے گلے پر قربان ہو کر رہ گئی۔
٭ 1934ء میں خاکسار نے جماعت دہم کا امتحان دیا تو حسب سابق فارغ ہونے والے طلباء کی حضور سے الوداعی ملاقات کروائی گئی۔ فرشی نشست تھی۔ ہم حضورؓ کی معیت میں نیچے بچھی ہوئی دری پر بیٹھ گئے۔حضورؓ نے ہمارے نگران ٹیچر مکرم ماسٹر محمد ابراہیم جمونی صاحب سے دریافت فرمایا کہ بچوں کے پرچے کیسے ہوئے؟ عرض کیا گیا کہ اچھے ہوگئے ہیں ۔ فرمایا: بچوں کی طبائع مختلف ہوتی ہیں پرچوں کے اچھے یا خراب ہونے کے معیار بھی یکساں نہیں ہوتے، زیادہ گہرائی میں جا کر معلوم کرنا چاہئے کہ پرچے کیسے ہوئے ہیں ۔ پھر مصافحہ کے دوران ایک غیرازجماعت طالبعلم بنام نواز ش علی نے بیعت کرنے کی درخواست کی۔ حضورؓ نے فرمایا کہ بیعت بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے۔ بعض اوقات ماحول سے متاثر ہوکر بیعت کرلی جاتی ہے مگر بعد میں اسے نبھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اُس نے عرض کی کہ مَیں نے اچھی طرح سوچ سمجھ لیا ہے۔ چنانچہ اس کے اصرار پر حضور نے اس سے بیعت لی۔
٭ قادیان میں کچھ لوگوں میں باہمی جھگڑا ہو گیا جس کی شکایت حضور تک پہنچ گئی۔ حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے مسجد مبارک میں مغرب کے وقت حضور نے ایک گواہ کی گواہی لینا شروع کی۔ گواہ نے بیان دینا شروع کیا: مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آتا ہے اور دوسرے کو پکڑ لیتا ہے۔ اس پر حضورؓ نے اس کو ٹوکا کہ یہ طریق گواہی کا صحیح نہیں ، فقرہ یوں ہونا چاہئے کہ ایک شخص آیا اور دوسرے کو پکڑلیا۔
٭ 1935-1936ء کی بات ہے کہ سیالکوٹ میں قادیان سے یہ اطلاعات آنا شروع ہوئیں کہ مدرسہ احمدیہ کے ایک استاد بنام عبدالرحمٰن مصری جماعت سے برگشتہ ہوگئے ہیں اور حضور پر الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں ۔ یہ صورتحال سن کر بڑا صدمہ ہوا اور اصلاح احوال کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کی گئیں ۔ اسی اثناء میں خاکسار نے حضرت مصلح موعود کو خواب میں تقریر کرتے ہوئے دیکھا۔ ایک فقرہ یاد رہ گیا کہ: ’’پہلے حضرت یوسفؑ کے قصے عام تھے اب میرے قصے عام ہورہے ہیں ‘‘۔ اس میں حضرت یوسف علیہ السلام سے مماثلت کے الفاظ اطمینان قلب کا باعث ہوئے کہ یہ فتنہ بالآخر انشاء اللہ رفع ہو جائے گا۔
٭ غالباً 1948ء میں جب صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر تھے تو حضورؓ وہاں تشریف لائے اور اُن کے ہاں قیام فرمایا۔ خاکسار کے والد صاحب خاصے ضعیف ہوچکے تھے تاہم مَیں نے اُن کی حضور سے ملاقات کرانے کا پروگرام بنایا۔ صبح 8 بجے ہم حضورؓ کی ملاقات کے لئے پہنچے تو حضورؓ کہیں تشریف لے جانے کے لئے کوٹھی سے باہر تشریف لارہے تھے۔ مَیں نے حضورؓ سے اپنے والد صاحب کا تعارف کروایا۔ سلام دعا کے بعد والد صاحب نے حضور سے پوچھا کہ حضور کہاں تشریف لے جارہے ہیں ؟ اُن دنوں حضورؓ کے پروگرام کا اظہار مناسب نہ تھا اس لئے حضور نے فوراً والد صاحب سے پوچھا کہ آپ کے بیٹے آجکل کہاں کہاں ہیں ؟ اس پر والد صاحب کو اپنا سوال بھول گیا اور بیٹوں کی تفصیل بیان کرنے لگے۔ اس طرح حضور نے بڑی حکمت عملی اور دانائی سے جس بات کا اظہار نامناسب تھا اسے راز میں ہی رہنے دیا اور والد صاحب کی دلشکنی بھی نہیں ہونے دی۔
٭ میرے والد صاحب جو صحابہ کرام میں شمار ہوتے ہیں ، ایک اَور موقعہ پر حضورؓ سے شرف ملاقات کے لئے میرے ساتھ گئے تو حضورؓ فرشی نشست میں زائرین کے جھرمٹ میں رونق افروز تھے۔ حضرت والد صاحب کی بینائی بہت کمزور تھی اس لئے بندہ نے کمرے میں داخل کرتے وقت اپنے والد صاحب کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضورؓ نے مجھے اشارۃً فرمایا کہ راستہ میں جوتیاں پڑی ہوئی ہیں ، احتیاط سے لائیں ۔ بندہ نے تعمیل کی اور پھر حضورؓ کے قرب میں والد صاحب کو بٹھا دیا۔ والد صاحب نے سمجھا کہ حضور نے انہیں پہچانا نہیں اور اس کا اظہار بھی کردیا۔ حضور نے فرمایا میں نے آپ کو پہچان لیا ہے۔ اور پھر مزید باتیں بھی کیں کہ والد صاحب بہت خوش ہوگئے۔ صحابہ سے محبت کا سلوک حضورؓ کے خاص اوصاف میں سے تھا۔
٭ 1938ء میں بی اے کرنے کے بعد خاکسار نے پولیس میں بھی ملازمت کے لئے کوشش کی اور سیالکوٹ سے حضور کو دعا کی درخواست بھجوائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کالج کی تعلیم کے دوران ایک مرتبہ پولیس ہاکی ٹیم کے ساتھ ہماری ہاکی ٹیم کا میچ ہوا۔ وہاں انگریز IG پولیس بھی موجود تھا۔ اُس نے ہماری ٹیم کے تین کھلاڑیوں کو ڈائریکٹ ASI بھرتی کرنے کی پیشکش کی جن میں خاکسار بھی تھا۔ لیکن والدین نے پڑھائی چھوڑ کر ملازمت کرنے کو پسند نہ فرمایا۔ اب درخواست دی تو کامیابی نہ ہوسکی۔ لیکن اس کے دو تین ماہ بعد جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور سے ملاقات ہوئی تو حضورؓ نے دریافت فرمایا کہ آپ کی پولیس والی ملازمت کا کیا بنا؟ مجھے سخت شرمندگی ہوئی کہ حضور کو نتیجہ سے باخبر نہ رکھا گیا۔ حیرت بھی ہوئی کہ اس عرصہ میں حضور کو ہزاروں خطوط ملے ہوں گے اور جلسہ سالانہ پر حضور ہزاروں لوگوں سے ملاقات فرما رہے ہیں تاہم حضور کو ایک غیرمعروف طالب علم کی درخواست بخوبی یاد ہے۔
٭ قیام پاکستان کے بعد حضورؓ نے متعدد شہروں میں راہنما لیکچر دیئے۔ ایک مقام سیالکوٹ بھی تھا۔ حضور کے لیکچر کا اہتمام ایک مشہور سینما ہال میں کیا گیا۔ سیالکوٹ چھاؤنی کے ایک معروف احمدی افسر بنام کرنل حیات صاحب کے توسط سے پاکستانی فوج کے افسران بڑی تعداد میں لیکچر سننے کے لئے تشریف لائے۔ حضور نے اس لیکچر میں پاکستان کو خودحفاظتی اور ہر لحاظ سے ترقی کے ذرائع بیان فرمائے۔ کرنل صاحب نے بعدازاں بتایا کہ لیکچر سے فوجی افسران بے حد متأثر ہوئے اور اس بات کا برملا اظہار کیا کہ جس خوبی سے مرزا صاحب نے یہ مضمون بیان کیا ہے وہ بڑا راہنما اور حیران کُن ہے اور فوجی نقطہ نظر سے ایسے نکات بھی بیان فرمائے ہیں جو ہمارے لئے بھی نئے معلوم ہورہے تھے۔
اس لیکچر کا نیک اثر تھا کہ معاً بعد غیرازجماعت حاضرین نے بڑے اخلاص اور محبت سے حضورؓ سے مصافحہ کرنے کا شرف حاصل کیا۔ خاکسار ان دنوں سیالکوٹ چھاؤنی میں ہی ملٹری اکاؤنٹس میں ملازم تھا اور اُس وقت سٹیج پر ڈیوٹی دے رہا تھا۔ مصافحہ کرنے والوں میں مَیں نے اپنے محکمہ کے ایک افسر کو بھی دیکھا جو بڑا متعصّب تھا اور اپنے ماتحت احمدی کارکنوں کو بہت دکھ پہنچایا کرتا تھا مگر حضورؓ کے لیکچر نے اُس کی کایا ہی پلٹ دی تھی۔
٭ 1950ء میں ربوہ میں آبادی کا سلسلہ جاری تھا۔ مَیں ملٹری اکاؤنٹس کے محکمہ میں ایبٹ آباد میں متعین تھا۔ وہاں مکرم مولوی عبدالسبوح صاحب صدر جماعت تھے۔ ہم دونوں نے ایک بنگلے کا انتظام کرکے مشاورت کے موقعہ پر حضورؓ سے عرض کیا کہ حضور گرمیاں گزارنے کے لئے وہاں تشریف لے آئیں ۔ حضورؓ نے یکدم فرمایا : مَیں ربوہ سے کیسے باہر جاسکتا ہوں ۔ تعمیر کا کام ہورہا ہے۔ مَیں باہر جاؤں گا تو تعمیر کا کام رک جائے گا۔
اُس وقت ربوہ میں موسم گرما کی شدّت اور سہولتوں کے فقدان کا قیاس کرکے ہم حضور کا جواب سن کر حیران ہوگئے۔ استحکام جماعت کے لئے حضور کی یہ عظیم الشان قربانی حیران کن قربانی کا نمونہ تھا۔
1951ء میں وقف زندگی کی منظوری کے وقت حضور نے چند انٹرویو فرمائے جن میں مجھے یہ قیمتی ہدایات بھی صادر فرمائیں کہ اپنے کام کے متعلق اس طرح فکرمند رہنا چاہئے جس طرح ایک ماں اپنے بچے کے متعلق فکرمند رہتی ہے۔ پھر فرمایا جماعت میں زیادہ سے زیادہ اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں اس طرح نیک ماحول میں جماعتی ذمہ داریاں بہتر رنگ میں ادا ہوتی ہیں ۔
ایک انٹرویو میں دریافت فرمایا کہ آپ کے بچے کتنے ہیں؟ عرض کیا کہ ابھی ایک بیٹا ہے۔ فرمایا: کیوں ابھی تک ایک بیٹا؟ دراصل حضور کے علم میں ہوگا کہ میری شادی پر چھ سال گزر گئے ہیں ۔ عرض کیا کہ ایک بچہ مُردہ پیدا ہوا تھا اس لئے ابھی زندہ ایک ہی ہے۔ اولاد کی طرف حضور کی توجہ بڑی بابرکت ثابت ہوئی۔ بفضل خدا اس کے بعد سات بچے پیدا ہوئے جن میں سے پانچ بقید حیات ہیں ۔ یعنی کُل چھ بقید حیات ہیں : تین بیٹے تین بیٹیاں ۔
حضورؓ کے علم میں تھا کہ مَیں ملازمت چھوڑ کر آیا تھا اس لئے فرمایا کہ آپ کو معمولی گزارہ ملے گا۔ میرے منہ سے اللہ تعالیٰ نے کہلوایا کہ حضور! اگر فاقہ بھی کرنا پڑا تو انشاء اللہ بخوشی کروں گا۔
مگر الحمدللہ وقف کے الاؤنس میں بڑی برکتیں دیکھی گئیں کبھی فاقہ کی نوبت نہیں آئی۔