حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ
فروری 1920ء کے دوسرے ہفتہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ نے فلاڈلفیا (امریکہ) میں احمدیت کا پودا لگایا۔ یہ بھی آپ کی وہ منفرد خدمت تھی جس کی بنا پر آپ کا اسم گرامی مشہور ومقبول ہوا۔
مجلس انصار اللہ امریکہ کا ترجمان سہ ماہی ’’النحل‘‘ (موسم گرما 96ء) حضرت مفتی صاحبؓ کی ذات گرامی سے مختص ہے جس میں نہ صرف دلچسپ مضامین شائع کئے گئے ہیں بلکہ بعض نادر محظوطات اور بہت سی نایاب تصاویر بھی شامل اشاعت ہیں۔ ایک یادگار گروپ فوٹو میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی چھڑی کا اوپر والا حصہ پکڑے ہوئے کرسی پر تشریف فرما ہیں جبکہ چھڑی کا نچلا حصہ قدموں میں بیٹھے ہوئے حضرت مفتی صاحبؓ نے بڑی محبت و عقیدت سے پکڑا ہوا ہے۔
حضرت مفتی صاحبؓ 11 ؍جنوری 1872ء کو بھیرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم مفتی عنایت اللہ صاحب کی وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے قبل ہوچکی تھی۔ آپ کی والدہ نے 1897ء میں بیعت کا شرف حاصل کیا۔ میٹرک کرنے کے بعد حضرت مفتی صاحبؓ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے ذریعہ انگریزی کے استاد کے طور پر جموں میں ملازمت مل گئی اور انہی کا تعارفی خط لے کر آپؓ دسمبر 1890ء میں پہلی بار حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ حضورؑ کے ہمراہ آپ کو صبح کی سیر کا بھی موقع ملتا رہا۔ قادیان میں دو روز قیام کے بعد آپؓ نے بیعت کی سعادت حاصل کی۔ 1895ء میں آپؓ لاہور آ گئے اور اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں ملازمت کا آغاز کیا۔
حضرت مفتی صاحبؓ کی سوانح بیان کرتے ہوئے محترم مولوی دوست محمد شاہد صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ
18؍ مئی 1900ء کو بشپ لیفرائے کی لاہور میں ’’زندہ رسول اور معصوم نبی‘‘ کے موضوع پر تقریر کے بعد حضرت مفتی صاحبؓ نے سوالات کر کے اسے لاجواب کر دیا۔ چنانچہ 25؍ مئی کو اس نے ایک اَور لیکچر کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر حضرت مفتی صاحبؓ کی درخواست پر حضرت مسیح موعودؑ نے بھی مضمون لکھا جو بشپ صاحب کے لیکچر کے بعد آپؓ نے پڑھا اور جسے سن کر فضا ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس پر بشپ لیفرائے نے جواب دینے کے بجائے کہا: ’’میرا لیکچر دوسرے مسلمانوں کے لئے ہے، تم احمدی ہو، تم سے مَیں بات نہیں کر سکتا۔ ‘‘
جولائی 1901ء میں حضرت مفتی صاحبؓ مستقل قادیان آ بسے جہاں 1903ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈماسٹر مقرر ہوئے اور اسی سال قادیان میں کالج کے اجراء پر کالج کے مینیجر اور استاد بھی مقرر ہوئے۔ 1905ء میں حضور نے اخبار ’’البدر‘‘ کا مدیر مقرر فرمایا۔ 1908ء میں حضور نے جو وفد حضرت بابا گرونانکؒ کی پوتھی کی تحقیق کے لئے بھجوایا، آپؓ اس میں بھی شامل تھے۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؑ کے ارشاد پر حضرت مفتی صاحبؓ 10؍ مارچ 1917ء کو انگلستان کے لئے روانہ ہوئے اور 17؍اپریل کو یہاں پہنچے۔ اڑھائی سال تک انگلستان میں خدمات بجا لانے کے بعد حضور کے ارشاد پر 26؍جنوری 1920ء کو امریکہ کے لئے روانہ ہو گئے جہاں سے تکمیل مشن کے بعد 4؍دسمبر 1923ء کو واپس قادیان پہنچے۔
حضرت مفتی صاحبؓ ناظر امور خارجہ اور ناظر امور عامہ بھی رہے۔ 1927ء میں ایک عیسائی پادری سے مناظرہ کیلئے آپؓ کو سیلون بھیجا گیا۔ اندرون ہندوستان بھی متعدد دورے کئے۔ 1937ء میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی آپ بدستور خدمات بجا لاتے رہے۔ آپ کو تحریر و تقریر پر عبور حاصل تھا۔
امریکہ میں آپؓ نے ہی رسالہ “The Muslim Sun Rise” کا اجراء کیا۔ اسی طرح مقبول عام عنوان ’’ذکر حبیب‘‘ کی ابتداء آپ ہی نے کی۔ تقریباً 17 تصانیف آپؓ کی یادگار ہیں۔
محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب لکھتے ہیں کہ
حضرت مفتی صاحب کا 313 صحابہ میں نمبر 65 تھا۔ 11؍ اپریل 1900ء کو خطبہ الہامیہ ضبط تحریر میں لانے کا شرف پانے والے تین اصحاب میں بھی آپؓ شامل تھے۔ ایک موقعہ پر حضرت مسیح موعودؑ جب لاہور میں قیام فرما ہوئے تو حضرت مفتی صاحبؓ شدید بیماری کے باعث خدمت اقدسؑ میں حاضر نہ ہوسکے۔ حضورؑ کو جب آپؓ کی بیماری کا علم ہوا تو حضورؑ خود اپنے خادم کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔
حضرت مفتی صاحبؓ ایک لمبا عرصہ شکاگو میں تبلیغ اسلام میں مصروف رہے جہاں کی پہلی مسجد اب تعمیر نو کے بعد آپؓ کے نام پر ’’مسجد صادق‘‘ کہلاتی ہے۔
محترم الحاج ڈاکٹر مظفر احمد صاحب نے بھی اپنے مضمون میں حضرت مفتی صاحبؓ کی امریکہ میں تاریخی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ امریکہ میں عربوں اور سیاہ فام لوگوں میں آپؓ کی تبلیغ سے پانچ برس کے اندر 1025؍ افراد احمدیت کی آغوش میں آئے۔ امریکہ میں نسلی امتیاز کے خلاف آپ نے بلاتاخیر آواز اٹھائی۔ ایفرو امریکن کے لئے چلائی جانے والی تحریک حقوق انسانی (Black Civil Rights) کے اوائل میں جمیکا میں پیدا ہونے والے ’’مارکس گاروی‘‘ نے یونائیٹڈ نیگرو امپروومنٹ ایسوسی ایشن (UNIA)کی بنیاد رکھی تھی جس کے نظریات بین الاقوامی تھے۔ یہاں سے گاروی اور حضرت مفتی صاحبؓ کے درمیان دوستی کا آغاز ہوا اور آپؓ نے ایسوسی ایشن میں کئی لیکچر دئیے جس کے نتیجہ میں 40؍افراد نے اسلام قبول کر لیا جن میں پادری ریورنڈ رسل بھی شامل تھے جن کا اسلامی نام شیخ عبد السلام رکھا گیا اور وہ بعدازاں ڈیٹرائیٹ کے امیر کے طور پر بھی خدمات بجالاتے رہے۔ امریکی تنظیم ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے بانی عالیجاہ محمد بھی UNIA میں کام کیا کرتے تھے۔
محترم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نے اپنے مضمون میں
حضرت مفتی صاحبؓ کی خدمات کے علاوہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی آپؓ کے ساتھ شفقت کے کئی واقعات بھی بیان کئے ہیں۔ حضورؑ کی آمدہ ڈاک کا خلاصہ خدمت اقدسؑ میں پیش کر کے حضورؑ کے ارشادات کی روشنی میں آپؓ خطوط کے جواب بھی دیا کرتے تھے۔ غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے موقع پر ترجمانی کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ اردو، عربی اور انگریزی کے علاوہ آپؓ عبرانی زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے اور ’’قاعدہ عبرانی‘‘ کے مصنف تھے۔ حضورؑ کی خواہش پر آپ نے عبرانی زبان سیکھی تھی۔ چنانچہ بائبل کے حوالوں کی تلاش کے علاوہ عربی زبان کو عبرانی کا مبدء ثابت کرنے میں بھی آپؓ کی تحقیق قابل قدر ہے۔ امریکہ میں آپؓ کی خدمات کے اعتراف میں آپؓ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری پیش کی گئی۔
حضرت مفتی صاحب ؓ کو سیدنا حضرت مصلح موعودؑ کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر خدمات بجالانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
13؍ جنوری 1957ء کو آپؓ کی وفات ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؑ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔