حضرت حافظ حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ جب مارچ 1893ء میں پہلی بار قادیان تشریف لے گئے تو مزدور کے راستہ بھول جانے کی وجہ سے ساری رات چلتے رہنے کے بعد بوقت سحر قادیان پہنچے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فوراً آپؓ کھانے کا انتظام فرمایا اور خود ہی بستر لے کر آئے اور یہ خیال کرکے کہ آپ بے تکلفی سے کھانا کھائیں، حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کو آپؓ کے پاس چھوڑ کر خود تشریف لے گئے۔
حضرت عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ اُن دنوں لنگر خانہ اور مہمان خانہ کا انتظام عملاً حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کے ہی سپرد تھا۔ وہ بلا امتیاز ہر مہمان سے محبت و شفقت سے پیش آتے۔ دوسرے چونکہ وہ حضورؑ کے بے شمار نشانات کے عینی شاہد تھے چنانچہ مہمانوں سے جب ان نشانات کا ذکر کرتے تو مہمان آپؓ کی صحبت سے خوب لطف اٹھاتے۔ حضورؑ کو حضرت حافظ صاحب پر انتہا درجہ کا اعتماد تھا۔ گھر اور لنگر کی ضروریات کے لئے آپ کو علی الحساب روپیہ دیا جاتا اور کبھی حساب دریافت نہ فرمایا۔
حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ یہ چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار حضرت حافظ صاحب نے خدمت اقدسؑ میں آٹا خریدنے کے لئے روپیہ کی درخواست کی۔ حضورؑ نے دریافت فرمایا: کتنا چاہئے؟۔ عرض کیا: سو روپیہ۔ حضور علیہ السلام مٹھیاں بھر کر روپے لائے اور آپؓ کو دیتے ہوئے فرمایا: سوہی ہو گا۔ حضرت حافظ صاحبؓ نے شمار کرکے زائد بیس روپے واپس کر دئیے۔
حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کا ذکر خیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍ جولائی 1996ء میں ’’اصحاب احمدؑ‘‘ سے منقول ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں