حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب
ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ جون 2009ء میں حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب کا ذکرخیر مکرم عبدالغفار ڈار صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
ملک صاحب مرحوم حضرت مصلح موعودؓ کے دَور ِ خلافت میں آئے اور بہت جلد اپنے علم وفضل اور اخلاص کی وجہ سے حضور کی خصوصی توجہ کا مورد بن گئے۔ یہ 1934ء کی بات ہے جبکہ خاکسار قادیان میں مدرسہ احمدیہ کی آخری کلاس میں زیر تعلیم تھا۔ اُس زمانہ میں قادیان میں بہت بڑی احرارکانفرنس ہوئی تھی۔ ملک صاحب احراریوں کی ایک ذیلی تنظیم کے جنرل سیکرٹری تھے۔ اُن کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ قادیان کو خود بھی دیکھوں کہ یہاں کیا کچھ ہے۔ جب ہندو بازار سے ہوتے ہوئے احمدیہ بستی میں داخل ہوئے تو بہشتی مقبرہ دیکھنے کا خیال آیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر پہنچے تو یکایک اُن کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھے اور انہوں نے دعا کی کہ اے ربِّ کریم! اگر یہ شخص سچا ہے تو میری راہنمائی فرما۔ آپ بہت خاموش طبع تھے چنانچہ خاموشی کے ساتھ جیسے آئے تھے واپس چلے گئے۔ لیکن اُن کا رجحان اس دعائے خاص کے بعد بہرحال احمدیت کی طرف ہوا اور بہت تحقیقات اور تبادلۂ خیالات کے بعد اُنہیں شرح صدر ہوا۔ ملک صلاح الدین صاحب اور ملک عبدالرحمٰن صاحب خادمؔ جیسے مخلص نوجوانوں کے ساتھ ان کے مذاکرات ہوئے اور 1935کے جلسہ سالانہ میں انہوں نے شمولیت کی اور یکم جنوری1936کو حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔
اُن دنوں میں ایک نومسلم نوجوان کشمیری پنڈت شیخ محبوب الٰہی صاحب (سابق پنڈت رادھا کشن) جو سرینگرکے گریجوایٹ تھے اور احمدیت قبول کرنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کے تحت قادیان میں مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ملک سیف الرحمٰن صاحب سے بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں اسلامیات کی تعلیم حاصل کرنی شروع کی۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ہمارے بزرگ استاد حضرت مولوی عبدالرحمٰن صاحب نے خاکسار کو بورڈنگ میں مانیٹر مقرر فرمایا ہوا تھا۔ فجر کی نماز میں حضرت مولوی صاحب ہماری چارپائی کے قریب رکھے ہوئے لکڑی کے ایک صندوق کو اپنی سوٹی سے کھٹکھٹاکر مجھے جگاتے تھے اور پھر میں فوراً وضو کرکے دیگر طلباء کو بھی بیدار کرتا تھا۔ پھر ہم مسجد اقصیٰ جا کر نماز فجر ادا کرتے تھے۔ واپس آکر سارے طلباء تلاوتِ قرآن کریم کرتے اس کے بعد ہمارے دن بھر کے پروگرام جاری رہتے۔ 1936ء میں فیصلہ ہوا کہ جو طلباء اب جامعہ احمدیہ میں پڑھتے ہیں وہ جامعہ احمدیہ کے ہوسٹل میں اپنا قیام کریں۔ چنانچہ پھر میں جامعہ احمدیہ میں چلا گیا۔
جامعہ احمدیہ اور ہمارا ہوسٹل محلہ دارالعلوم میں واقع تھے۔ اسی زمانہ میں ملک سیف الرحمٰن صاحب کے والد صاحب ضلع خوشاب کے ایک گاؤں سے اپنے بیٹے کو لینے قادیان آئے لیکن اِس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پھر قادیان میں ملک صاحب کے تعلیمی انتظامات دیکھ کر انہوں نے بھی ملک صاحب کو قادیان میں ہی رہنے کی اجازت دیدی اور ﷲ تعالیٰ نے ان کی اس نیکی کو اس طرح قبول کیا کہ اُنہیں اور اُن کی اہلیہ، دونوں کو، قبول احمدیت کی توفیق عطا ہوگئی۔
میں 1938ء میں قادیان سے اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر اپنے وطن چلاگیا۔ اس طرح سے گویا دو سال ہی ہمارا باہم رابطہ رہا مگر ملک صاحب کے اُس زمانہ کا جبکہ آپ کا زمانہ عالم شباب کا تھا، آپ کا مزاج ایسا صوفیانہ دیکھا جس میں زندہ دلی بھی تھی ۔ وہ محبت وخلوص کے پیکر تھے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل تھے اور ہمیشہ ہی یاد رہے۔ 1948ء میں خاکسار ہفت روزہ ’’اصلاح‘‘ سرینگر بحق سرکار ضبط ’’بند‘‘ ہونے کے بعد حضرت مصلح موعود ؓ کے ارشاد پر لاہور چلا آیا۔ ہماری باہم پھر ملاقات ہوئی۔ پھر رابطہ قائم ہوا۔ قادیان کے بعد لاہور میں بھی ملک صاحب حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کو پڑھایا کرتے تھے۔ ملک صاحب مختلف جماعتی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے تھے۔ عربی علوم کے کئی امتحان پاس کر چکے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو دیوبند اور فتح پور کے علماء کی طرف بھی بھیجا تھا۔ تقریباً ایک سال آپ دیوبند اور اس کے بعد دہلی میں غیرازجماعت جیّد علماء سے فقہ اور علم حدیث اکتساب کرتے رہے۔ ایک بڑی فضیلت آپ کو یہ حاصل ہوئی کہ حضرت مصلح موعودؓ نے مفتی سلسلہ احمدیہ کے اہم منصب پر آپ کا تقرر فرمایا۔ پھر آپ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل بھی رہے۔
محترم ملک صاحب 1912ء میں پیدا ہوئے اور 77سال کی عمر میں وفات پائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ان کے بارہ میں بھرپورمضمون لکھ کر کما حقہٗ اپنا حقِ شاگردی ادا فرمایا۔ حضورؒ کسی کے بارہ میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے مبالغہ سے ہرگز کام نہیں لیتے تھے۔آپؒ نے بجا طورپر فرمایا: ’’دینی علوم میں، علومِ نقلیہ کے علاوہ آپ کو عقل کی ایسی روشنی عطا ہوئی تھی جو علوم پر حکمت کے پہرے بٹھائے رکھتی تھی‘‘۔
میں نے ہمیشہ حضرت ملک صاحب کا چہرہ متبسم دیکھا۔حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہرنے دو فقروں میں آپ کی شخصیت کو یوں پیش فرمایا ہے کہ : ’’علم میں بھی ان کا کوئی بدل نہیں اور انکسار میں بھی ان کا کوئی بدل نہیں۔‘‘