حضرت منشی حبیب الرحمان صاحبؓ
مغل شہنشاہ اورنگزیب کے زمانہ میں ایک ہندو لال دنی چند کو اپنے تین بھائیوں کے ہمراہ قبولِ اسلام کی توفیق عطا ہوئی اور وہ مسلمانوں میں عبدالدائم شہید کے نام سے مشہور ہوئے۔ حکومت نے ان کی قوم کا نام شیخ قانونگو تجویز کیا۔ حضرت منشی حبیب الرحمان صاحبؓ اس خاندان کی چودھویں پشت میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کے دادا شیخ امیر علی کے دو بیٹے تھے۔ ایک محمد ولی اللہ جنہیں حضرت مسیح موعودؑ کا زمانہ دیکھنے کا موقعہ ملا۔ خط و کتابت بھی ہوئی، بعض کتب بھی پڑھیں لیکن بیعت کی سعادت سے محروم رہے۔ اگرچہ مخالفت نہیں کی۔ انہوں نے اپنے بھتیجے حضرت منشی حبیب الرحمٰن صاحبؓ ولد محمد ابوالقاسم صاحب کو متبنّٰی بنایا ہوا تھا۔
حضرت منشی حبیب الرحمان صاحبؓ کی پیدائش کا صحیح ریکارڈ موجود نہیں لیکن ایک روایت کے مطابق آپؓ 70 سال کی عمر پاکر یکم دسمبر 1930ء کو فوت ہوئے۔ آپؓ کا ذکر خیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍اکتوبر1998ء میں مکرم مولانا بشیر احمد قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت منشی صاحبؓ نے بچپن میں سات آٹھ سپارے حفظ کئے اور پھر سکول میں داخل کروائے گئے۔ آپؓ بہت ذہین تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ سے آپؓ کا غائبانہ تعارف اپنے تایا کی وجہ سے براہین احمدیہ کے زمانہ سے تھا۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے خاندان میں نماز کی پابندی میں سب سے کمزور تھا۔ اس لئے چاہتا تھا کہ کسی ایسے بزرگ کی بیعت کرلوں جس کی صحبت اور توجہ سے نماز کی پابندی اختیار کرجاؤں۔ اس غرض کے لئے آپؓ نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی سے خط کے ذریعہ یہ مشورہ چاہا کہ اس وقت مرزا صاحب نے مجدد ہونے کا دعویٰ فرمایا ہے، اگر یہ اطمینان ہو جاوے کہ وہی اس صدی کے مجدد ہیں تو پھر مجھے اُن کی بیعت کرنی چاہئے۔ اس کے جواب میں مولوی صاحب نے لکھا ’’میں نے جناب مرزا صاحب کی تمام تصانیف تو نہیں پڑھیں لیکن جس قدر پڑھی ہیں ، اُن میں یہ ایک نئی بات پائی جاتی ہے کہ مخالفین کے اعتراضات کا جو جواب مرزا صاحب نے دیا ہے اُس کا ثبوت قرآن شریف سے دیا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوئی اس لئے مرزا صاحب بے شک و شبہ مجدد مان لینے کے قابل ہیں‘‘۔
حضرت منشی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا جواب پاکر مَیں نے بیعت کا ارادہ کیا۔ لیکن حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ مسیح کا علم ہوا تو پھر رُک گیا لیکن تحقیق جاری رکھی۔ جب حضورؑ کی کتاب ’’فتح اسلام‘‘ پڑھی تو میرا دل ایمان، عرفان اور یقین سے بھر گیا۔ پھر میں نے دو خواب دیکھے جن سے کشش اور بڑھی اور میں اپنے دو دیگر ساتھیوں اور حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کے ساتھ مارچ 1891ء میں لدھیانہ پہنچا جہاں حضورؑ مقیم تھے۔ خواب میں جو شکل و شباہت حضورؑ کی دیکھی تھی ویسی ہی پائی۔ حضرت صاحب ہم سے مل کر بہت خوش ہوئے اور مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کا نام حبیب الرحمان ہے، آپ کے خط آیا کرتے ہیں۔ پھر بیعت ہوئی۔
بیعت کے بعد جب بھی حضرت منشی صاحبؓ کو موقع ملا آپؓ خدمت اقدسؑ میں حاضر ہوتے۔ جب سفر کے دوران حضورؑ پھگواڑہ سٹیشن سے گزرتے تو حضرت منشی صاحبؓ قریبی جماعتوں کو اطلاع کرتے اور اُن کے قیام و طعام کا انتظام کرتے۔ حضرت اقدسؑ نے آپؓ کا نام ’’ضمیمہ انجام آتھم‘‘ میں 313 صحابہؓ میں 237نمبر پر درج فرمایا ہے۔ حضور علیہ السلام نے آپؓ کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ یہ فہیم اور مستقل مزاج معلوم ہوتا ہے۔
ایک دفعہ حضورؑ کا پروگرام کلکتہ میل سے سفر کرنے کا بنا تو آپؓ نے حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ تیز گاڑی میں سفر حضورؑ کو پسند نہیں اور اس طرح چھوٹے سٹیشنوں پر اکٹھے ہونے والے احمدی بھی زیارت سے محروم رہ جائیں گے۔ آپؓ کا یہ مشورہ حضرت مسیح موعودؑ نے قبول فرمایا اور دوسری گاڑی میں روانہ ہوئے۔
حضرت منشی صاحبؓ کے دل میں حضورؑ سے خود ملاقات کرنے اور دوسروں کی ملاقات کروانے کا بہت جوش تھا۔ آپؓ نے اپنے سارے بچوں کو بھی خدمت اقدس میں خاص طور پر پیش کیا۔
حضرت منشی صاحبؓ کے والد کی وفات ہوئی تو جائداد کے بعض مقدمات کا سامنا آپؓ کو کرنا پڑا۔ ایک شریر مخالف نے آپؓ پر جادو کروادیا۔ جب آپؓ کو اس کا علم ہوا تو آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اگر حضور اجازت دیں تو میں سب کچھ چھوڑ دوں۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’اس طرح اپنا حق چھوڑنا گناہ ہے۔ جس طرح دوسروں کا حق لینا گناہ ہے اسی طرح اپنا حق چھوڑنا گناہ ہے۔ جادو کچھ چیز نہیں تم اس کا فکر نہ کرو اور الحمد شریف اور معوذتین زیادہ پڑھا کرو، پھر کسی طرح کا خوف نہیں ، میں دعا کروں گا‘‘۔ چنانچہ آپؓ پر کسی جادو کا قطعاً اثر نہ ہوا۔
جب حضرت مسیح موعودؑ نے حقّہ پینے والوں پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا تو آپؓ نے بھی حقّہ پینا ترک کردیا۔ …آپؓ نے تمام مالی تحریکات میں شرح صدر سے حصہ لیا۔ ایک بار جب حضورؑ جالندھر میں مقیم تھے تو کسی مہم کے لئے رقم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ آپؓ کو علم ہوا تو جتنی نقدی گھر میں تھی وہ خدمت اقدسؑ میں پیش کردی۔
حضرت منشی صاحبؓ صاحب رؤیا تھے۔ آپؓ کے تایا حاجی محمد ولی اللہ صاحب نے کپورتھلہ میں ایک مسجد بنائی تھی جو اُن کی وفات پر متبنّٰی ہونے کی وجہ سے آپؓ کی تولیت میں آگئی لیکن بہت عرصہ کے بعد غیراحمدیوں نے آپؓ کے قبول احمدیت کو بنیاد بناکر اُس مسجد کیلئے مقدمہ کردیا۔ جج نے فیصلہ لکھنے سے ایک دو دن پہلے یہ ریمارکس دیئے کہ یہ مسجد غیراحمدیوں نے بنائی، وہی قابض ہیں لہٰذا اُنہیں ہی دی جاتی ہے۔ حالانکہ جب یہ مسجد بنی تھی اُس وقت احمدیت کا آغاز ہی نہیں ہوا تھا اور پھر آپؓ اِس مسجد کے متولی تھے جو اب احمدی ہوچکے تھے۔ بہرحال آپؓ نے خواب دیکھا کہ وہ جج اس مسجد کا فیصلہ نہیں کرے گا، بلکہ کوئی اور کرے گا۔ اس خواب کی خوب تشہیر کی گئی ۔ پھر ایسا ہوا کہ کثرت مقدمات کی وجہ سے جج کو چھ ماہ تک فیصلہ لکھنے کی توفیق نہ مل سکی اور ایک روز جب وہ عدالت جانے کی تیاری کر رہا تھا دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوگیا۔ اُس کی جگہ جو دوسرا جج آیا اُس نے احمدیوں کے حق میں فیصلہ دے دیا اور اس طرح حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی اِس مقدمہ کے بارے میں اپنے غلاموں سے کہی ہوئی یہ بات بھی پوری ہوئی کہ ’’اگر میں سچا ہوں اور میرا سلسلہ سچا ہے تو مسجد تمہیں ضرور ملے گی‘‘۔