حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ کپورتھلوی
حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ 1845ء میں سراوہ (ضلع میرٹھ، یوپی) میں رسول بخش صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جن کے پردادا زاہد علی قریشی ملکِ عرب سے شہنشاہ جہانگیر کے زمانہ میں تشریف لائے تھے اور فوجی خدمات کے عوض جاگیر پائی تھی۔ وہ حضرت مجدد الف ثانیؒ سے بیعت تھے اور انہی کے حوالہ سے اپنی اولاد کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ جو بھی امام مہدی کا زمانہ پائے ان کی بیعت سے مشرف ہو۔حضرت منشی صاحبؓ مروجہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے بچپن کے دوست منشی عبدالرحمٰن صاحبؓ آف سراوہ کی دعوت پر کپورتھلہ آگئے اوران کے توسط سے ملازم ہوگئے۔ حضرت منشی عبدالرحمٰن صاحب ؓ ’براہینِ احمدیہ‘ پڑھتے ہی حضورؑ کے معتقد ہوگئے تھے اور جب بیعت کرنے کا اعلان شائع ہوا تو استخارہ کرکے فوراً بیعت کرلی۔ اور آپؓ کی تلقین سے ہی حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ نے بھی بیعت کرلی اوراس طرح 313؍اصحاب میں نمبر 10 و 11 پر دونوں اصحاب شامل ہوئے۔ 1892ء کے جلسہ سالانہ میں بھی دونوں شامل ہوئے۔
حضرت منشی صاحبؓ اپنی ملازمت کے دوران کپورتھلہ کے آریہ سماج اور عیسائیوں سے اکثر مباحثات کیا کرتے تھے اور اکثر قادیان بھی زیارت کے لئے حاضر ہوا کرتے تھے۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد دہلی میں اپنے فرزند کے پاس ہی قیام فرمایا جہاں 16؍اکتوبر 1935ء کو وفات پائی۔ آپؓ نے وفات سے قبل رویاء میں دیکھا کہ آپؓ کا جنازہ نمازجمعہ کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے پڑھایا ہے اوربہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آپؓ کا جنازہ دہلی سے بذریعہ لاری قادیان لایا گیا۔ آپؓ کی وفات کے قریباً سوا سال بعد آپؓ کے گہرے دوست حضرت عبدالرحمٰن صاحبؓ بھی قادیان میں وفات پاگئے اور آپؓ کی قبر سے ملحقہ قبر میں دفن ہوئے۔
حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے دور میں جب کپورتھلہ کی مسجد احمدیہ چھین لی گئی اور عدالت میں مقدمہ کی کارروائی کا آغاز ہوا جو سات سال تک جاری رہی ۔ اس عرصہ کے دوران احمدیوں پر مظالم کا سلسلہ بھی شدید ہوگیا اور گالی گلوچ ، مارپیٹ عام سی بات بن گئی اور بظاہر حالات میں احمدیوں کو واپس مسجد مل جانا ناممکن نظر آتا تھا۔ اتفاقاً دورانِ مقدمہ حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ نے لدھیانہ کے مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک محفل میں عاجزی سے آبدیدہ ہوکر دعا کے لئے عرض کیا تو حضورؑ نے بڑے جلال سے فرمایا ’’اگر میں سچا ہوں اور میرا سلسلہ سچا ہے تو مسجد تمہیں ضرور ملے گی‘‘۔ چنانچہ حضرت منشی صاحبؓ نے واپس کپورتھلہ پہنچ کر اعلانیہ حضورؑ کے الفاظ کا اظہار کرنا شروع کردیا اور لکھ کر بھی یہ تحریر مسجد میں چسپاں کردی ۔ … چنانچہ مقدمہ کے سلسلہ میں تین منصفین میں سے ایک جو بحث سن کر نہ صرف اپنا مخالفانہ انداز ظاہر کرچکا تھا بلکہ مسجد غیراحمدیوں کو دینے کا ارادہ بھی بیان کرچکا تھا وہ اپنا فیصلہ لکھنے سے صرف کچھ وقت پہلے دل کے دورہ کا شکار ہوا اور اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس کی جگہ نیا منصف مقرر ہوا اور تینوں منصفین کے متفقہ فیصلہ سے بالآخر مسجد احمدیوں کے سپرد کردی گئی اور نہایت مخالفانہ حالات کے باوجود حضرت اقدسؑ کی پیشگوئی نہایت شان سے پوری ہوئی۔ … اس مقدمہ کا مدعا علیہ عبدالاحد تھا جو بغیر گالی کے حضرت اقدسؑ کا نام نہیں لیتا تھا، اس کے دو جوان تعلیم یافتہ بیٹے یکے بعد دیگرے مر گئے۔ اسی طرح ایک مخالف ڈاکٹر جس نے کہا تھا کہ اگر مسجد احمدیوں کو مل گئی تو وہ مسیح موعود پر ایمان لے آئے گا وہ فیصلہ کے بعد کہنے لگا کہ میرا بچہ ہلاک ہو جائے، میری بیوی ہلاک ہو جائے، میں ہلاک ہو جاؤں میں نے ایمان لانے کو نہیں کہا تھا۔ حضرت منشی صاحبؓ نے اس سے فرمایا کہ تم نے ایک طرح سے مسیح موعودؑ سے مباہلہ کرلیا ہے اب اسکے نتیجہ کا ایک سال تک انتظار کرو۔ چنانچہ ایک سال کے اندر اندر ڈاکٹر ایسے موذی مرض میں مبتلا ہوا کہ جان کے لالے پڑ گئے اور آخر کار اس نے جماعت احمدیہ سے دعا کی استدعا کی۔ آخر اس کی جان تو بچ گئی لیکن شنوائی جاتی رہی،کچھ عرصہ بعد بچہ فوت ہوگیا اوراس واقعہ کے بعد پھر وہ عرصہ دراز کپور تھلہ میں رہا لیکن اس کے ہاں کوئی بچہ نہیں ہوا۔
حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ کے فرزند مختار احمد صاحب کو بچپن میں مرگی کے دورے پڑتے تھے حتّٰی کہ وہ تعلیم بھی جاری نہ رکھ سکے اور باوجود دور و نزدیک سے ہر قسم کے علاج کے کوئی افاقہ نہ ہوا۔ آخر آپؓ اسے ایک ہندو طبیب کے پاس لے گئے جس نے سارے حالات سن کر کہا کہ میری سمجھ میں یہ مرض نہیں آیا، کل غور کرکے جواب دوں گا۔ اگلے روز اس نے کہا کہ میں تشخیص نہیں کرسکا، نسخہ کیا دوں، لیکن رات میں نے خواب دیکھا ہے کہ اس مرض کا علاج سوائے املی کے اور کچھ نہیں۔ چنانچہ منشی صاحبؓ نے اپنے بیٹے کو خوب املی کھلائی اور پلائی اور صرف ایک ہفتہ میں مرض کا نام و نشان تک نہ رہا۔
مباحثہ دہلی کے موقعہ پر جب فساد ہوا تو حضرت مسیح موعودؑ کی حفاظت کے لئے آپؑ کے ہمراہ جو بارہ اصحاب موجود رہے ان میں حضرت منشی صاحبؓ بھی شامل تھے۔ آپؓ اپنے آخری دور میں فرمایا کرتے تھے کہ مجھ کو مسیح موعود علیہ السلام بارہا خواب میں دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو مسیح موعودؑ کے ساتھ بہشت میں دیکھا۔ حضورؑ نے مجھ کو مہمان نوازی کی خدمت عطا فرمائی ہے۔ جو دوست بہشت میں داخل ہوتے ہیں مجھ کو حکم ہوا ہے کہ ان کو کھانا کھلاؤ اور بہشت کی سیر کراؤ…۔
حضرت منشی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ بیعت کے ابتدائی زمانہ میں بہت کثرت سے حقہ پیا کرتا تھا۔ جالندھر میں ایک جلسہ میں میں شریک تھا جب حضرت مسیح موعودؑ نے حقہ کی بہت مذمت فرمائی۔ میں نے عرض کیا مجھ سے حقہ چھوٹنا غیرممکن ہے اگر حضور دعا کریں اور وہ قبول ہو جائے ۔ حضورؑ نے فرمایا آؤ ابھی دعا کریں۔ پھر اتنی دیر دعا کروائی کہ حاضرین ہاتھ اٹھانے میں اکتائے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ اس کے بعد مجھے خواب میں ایک نفیس حقہ دکھایا گیا جس کی نے سانپ بن گئی اور میں نے اسے مار ڈالا اور اس کے بعد حقہ سے شدید نفرت ہوگئی۔
آپؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ کپورتھلہ کی ملازمت کے دوران ایک سکھ کرنل میرا بڑا دشمن اور متعصب تھا ۔ جب وہ کسی قصور کی بناء پرمجھے ملازمت سے نہ نکال سکا تو اس نے راجہ کو لکھ دیا کہ ’’میں اسکے کسی کام کا ذمہ دار نہیں لہٰذا اسے پلٹن سے نکال دیا جائے‘‘۔ میں نے تمام واقعات خدمت اقدس میں عرض کئے تو حضورؑ نے جواباً تحریر فرمایا کہ دعا کی گئی، غیر اللہ سے خوف کرنا خدا کے ساتھ شریک کرنا ہے، ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے اور ہر ایک نماز فرض کے بعد 33 مرتبہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم پڑھ لیا کرو۔ میں اس پر عمل کرتا رہا اور جلد ہی اسی راجہ نے جو کرنل کے گھر دعوتوں میں شریک ہوتا تھا کرنل کو لکھا کہ ’’اسے حکماً رکھنا ہوگا‘‘۔ کچھ عرصہ بعد کرنل کوکسی وجہ سے ملازمت سے علیحدہ کردیا گیا۔
حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ نے تین شادیاں کیں جن سے تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ آپؓ کے حالات زندگی پر مشتمل ایک مفصل مضمون ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ اپریل 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔