حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ؓ کا تعلق باللہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20دسمبر2008ء میں مکرم ایم اے لطیف شاہد صاحب کے قلم سے دیگر احباب کے بیان کردہ ایسے واقعات درج ہیں جن سے حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کے تعلق باللہ پر روشنی پڑتی ہے۔
٭ مکرم منیر احمد فرخ صاحب امیر جماعت احمدیہ اسلام آباد بیان کرتے ہیں کہ B.Sc. Engg. کے سالانہ فائنل امتحان میں میرا D C Machines کا پرچہ بہت خراب ہوا اور اس میں کامیابی ناممکن تھی۔ زیادہ تر سوالات نصاب سے باہر تھے اور 16 فیصد نمبر کی توقع تھی لیکن اس پرچہ میں فیل ہونے کی صورت میں دوبارہ سارا امتحان دینا پڑتا تھا۔ چنانچہ سخت پریشانی کے عالم میں دوبارہ پڑھائی شروع کر دی۔ جب والدہ صاحبہ کو صورتحال معلوم ہوئی تو وہ مجھے لے کر لاہور سے ربوہ پہنچیں اور کچھ پھل لے کر دعا کی خاطر حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ کے گھر پر حاضر ہوکر آنے کی وجہ بیان کی۔ انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور پاس ہونے کی خوشخبری سنائی۔ مجھے یقین نہیں آیا کیونکہ پاس ہونا ممکن نہ تھا۔ یہی خیال آیا کہ انہوں نے ہمیں خوش کرنے کے لئے ایسا کہہ دیا ہے۔
چنددن کے بعد ہمارے ایک غیرازجماعت عزیز ہمیں ملنے آئے اور جاتے وقت پوچھا کہ انجینئرنگ کالج میں ایک پروفیسر جن کا نام احمد ہے، اُنہیں جانتے ہو؟ میں نے بتایا کہ وہ میرے D.C.Machines کے مضمون کے پروفیسر ہیں۔ تو وہ کہنے لگے کہ وہ میرے بہت پرانے دوست ہیں ہم علی گڑھ میں پڑھا کرتے تھے اور پاکستان بننے کے بعد ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ پھر میرے کہنے پر میرے عزیز سفارش کے لئے پروفیسر احمد سے ملنے اُن کے گھر گئے۔ آمنا سامنا ہونے پر دونوں ایک دوسرے کو پہچان کر بڑی محبت سے گلے ملے۔ چائے وغیرہ پی کر پروفیسر صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ تمہارا پرچہ کیسا ہوا ہے؟ یہ بتانے پر کہ اکثر سوال out of course تھے۔ وہ کہنے لگے کہ ایسا ہی ہے کیونکہ اس پرچہ میں تقریباً سب طلبہ فیل ہیں۔ یونیورسٹی کے اعلیٰ افسران نے وہ پرچے واپس کئے ہیں کہ اس طرح کالج کی بہت بے عزتی ہو گی اس لئے آپ نرمی کریں اور کچھ طالب علموں کو پاس کریں۔ اس طرح چار پانچ طالب علم پاس ہو گئے۔ پرچے پھر دوبارہ واپس آئے کہ اور نرمی کریں پھر چند اور طالب علم پاس کئے لیکن پرچے پھر تیسری دفعہ واپس آ گئے ۔ اس طرح میں بھی پاس ہو گیا جو بظاہر ناممکن تھا۔
٭ مکرم منیر احمد ڈار صاحب آف راولپنڈی نے بتایا کہ میری ہمشیرہ پشاور میں مقیم تھیں اور بچے کی پیدائش متوقع تھی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ Situation بہت خراب ہے اور پیدائش کے وقت ماں یا بچے میں سے کسی ایک کی جان کو خطرہ ہے۔ مجھے پیغام ملا کہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کو دعا کے لئے درخواست کریں۔ مَیں مولوی صاحبؓ کے گھر گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بازار تک گئے ہیں۔ وہاں ایک ہوٹل میں ملاقات ہوگئی۔ دعا کے لئے درخواست کی تو انہوں نے فوراً دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور خوشی کی خبر سنائی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پیدائش کے بعد دونوں ماں بچہ خیریت سے رہے۔ اس بچے کا نام میجر ریٹائرڈ وسیم احمد ڈار ہے۔
٭ مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میری اہلیہ مسز ذکیہ لطیف صاحبہ B.A. کے امتحان کے وقت بیمار ہوگئیں۔ طبیعت سخت خراب تھی اور اگلے دن پرچہ تھا۔ ان کی والدہ ان کو حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کے پاس لے گئیں۔ حضرت مولانا صاحبؓ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور بتایا کہ انشاء اللہ صحت ہو جائے گی اور امتحان میں کامیابی ہو گی۔ اور یہ بھی بتایا کہ بچی کے دادا چوہدری بدر دین مرحوم بھی یہاں میرے ساتھ بیٹھے تھے اور دعا میں شامل ہوئے ہیں۔ چنانچہ نتیجہ نکلا تو اِن کی اہلیہ کی کالج میں تھرڈ پوزیشن تھی۔