حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوری صاحبؓ
حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ کی قبولیت دعا کے بعض واقعات مکرم قمر سردار احمد صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍اکتوبر 1997ء کی زینت ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ حضرت مولوی صاحبؓ نہ صرف مستجاب الدعوات تھے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت پہلے ہی آئندہ کے حالات کی خبریں بھی آپ کو دے دی جاتی تھیں۔ مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ ایک بار حکومت پاکستان نے اکنامک پول کے نام سے ایک پروقار شعبہ قائم کیا جس میں شامل ہونے کے لئے میں نے دو مرتبہ درخواست دی لیکن کامیابی نہ ہوسکی۔ اس پر میں نے حضرت مولوی صاحبؓ سے دعا کی درخواست کی اور آپؓ نے دعا کرنے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کامیابی کی بشارت دی ہے۔ چنانچہ کچھ مہینوں بعد ایک بہت بڑے لیول کے گورنمنٹ انٹرویو بورڈ کے سامنے میں تیسری دفعہ پیش ہوا۔ بورڈ کے چیئرمین نے مجھ سے ایک بہت مشکل اقتصادی سوال پوچھا جسے میں پوری طرح سمجھ بھی نہ سکا لیکن میں نے ہمت کرکے اس کا جواب اس طرح دیا جس طرح اندھیرے میں چھلانگ لگائی جاتی ہے۔ اب میرا خیال تھا کہ میرا انٹرویو ختم کردیا جائے گا لیکن میرا جواب میرے خیال کے برعکس مختلف رنگ میں سمجھا گیا اور میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ چیئرمین صاحب بہت متاثر ہوئے اور پوچھنے لگے کہ کیا میں اس مضمون پر تازہ ترین امریکن تھیوری کی بات کر رہا ہوں۔ لیکن میں جھوٹ نہیں بول سکتا تھا اس لئے مسکرا کر خاموش رہا جس کا مطلب کچھ بھی لیا جاسکتا تھا۔ آخر کار مجھے اس پول سروس کیلئے منتخب کرلیا گیا حالانکہ میں کبھی بھی اکنامکس کا طالبعلم نہیں رہا تھا۔
مضمون نگار مزید بیان کرتے ہیں کہ 1962ء میں میری تعیناتی ڈھاکہ میں تھی اور قانون کے مطابق مجھے تین سال وہاں گزارنا لازمی تھے۔ لیکن ابھی دو سال ہی گزرے تھے کہ میری والدہ شدید بیمار ہوگئیں اور دل میں ان کی خدمت کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ میں نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو اپنا مسئلہ پیش کرکے تبادلہ کی درخواست کی تو انہوں نے قوانین کے مطابق درخواست رد کردی۔ اس پر توجہ دعا کی طرف مبذول ہوئی۔ حضرت مولوی صاحبؓ سے بھی دعا کیلئے عرض کیا تو آپؓ نے آٹھ دس دن کے بعد پوسٹ کارڈ کے ذریعے اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا ہے کہ تبادلہ ہو جائے گا۔ چنانچہ اس کے بعد جلد جلد خلافِ توقع تبدیلیاں پیدا ہوئیں اورآڈیٹر جنرل بدل گئے۔ ایک نئی کارپوریشن وجود میں آئی جس کے فنانس ممبر نے نئے آڈیٹر جنرل سے درخواست کی کہ وہ میری تبدیلی لاہور میں کروادیں تاکہ میںلاہور میں ان کی کارپوریشن کا کام کرسکوں۔ چنانچہ افسر اعلیٰ نے میرے متعلق خود حکومت سے قوانین میں نرمی حاصل کرکے مجھے لاہور میں متعین کروادیا اور یہ سب کچھ صرف دو مہینے کے اندر ہوگیا۔