حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے ایک بار فرمایا کہ جموں کا رئیس بیمار تھا۔ جب دواؤں سے افاقہ نہ ہوا تو وہ فقراء کی طرف متوجہ ہوا۔ ہندو فقراء سے فائدہ نہ ہوا تو مسلمان فقراء کی طرف توجہ کی اور ان سب کو بڑا روپیہ دیا، میرے ایک دوست نے بتایا کہ 3 لاکھ تو خرچ ہوچکا ہے۔ اب ایک فقیر جسے بلانے کے لئے آدمی گیا… مگر اس کا خط آیا۔ اس میں لکھا تھا کہ میرا کام تو دعا کرنا ہے اور دعا جیسی لدھیانہ میں ہوسکتی ہے ویسی کشمیر میں۔ دونوں جگہ کا خدا ایک ہے۔ ہاں اگر آپ کا رعایا سے سلوک نہیں تو اس کے افراد بددعائیں دے رہے ہوں گے تو میں ایک دعا کرنے والا کیا کرسکتا ہوں۔ باقی رہے روپے تو جب آپ نے فقیر سمجھا ہے تو پھر غنی نہیں ہوسکتا۔ اس آفیسر نے کہا کہ میں نے ایسا آدمی ہندوؤں میں دیکھا ہے نہ مسلمانوں میں ۔ میں نے (کہا) سردار صاحب ایسے آدمیوں کے ساتھ رشتہ ہو تو پھر کیا بات ہے۔
یہ بزرگ تھے حضرت صوفی احمد جان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کی صاحبزادی حضرت سیدہ صغریٰ بیگم صاحبہ بعدازاں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے عقد میں آئیں۔
حضرت صوفی صاحبؓ لدھیانہ کے ایک مشہور صوفی بزرگ تھے اور آپؓ کو مجمع فیوض سبحانی، منبع علوم روحانی، قدوۃالواصلین، زبدۃالمحققین، صوفی باصفا زاہد اتقیٰ، فیاض زمان مسیحائے دوراں کے خطابات سے یاد کیا جاتا تھا۔ آپ کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ جولائی 1997ء کی زینت ہے۔
چونکہ آپؓ کا ذکر خیر قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 16؍مئی 1997ء کے اسی کالم میں ایک اور مضمون کے حوالے سے بھی ہوچکا ہے اس لئے ذیل میں صرف انہیں امور کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو سابقہ مضمون سے اضافہ ہیں۔
حضرت صوفی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ آپؓ کو آٹھ نو برس کی عمر سے طلب خدا اور یاد الٰہی کا شوق تھا۔ اس مقصد کے لئے جگہ جگہ گھومے، جہاں کسی بزرگ کا سنا وہاں پہنچے، خلوت و تنہائی میں گریہ و زاری کی۔ حتّٰی کہ 40 برس تک عالم تجرید میں بزرگوں کی خدمت کرتے رہے پھر ایک بزرگ کی اجازت سے لدھیانہ میں ڈیرہ لگایا اور صدہا طالبان خدا کے لئے ہدایت کا راستہ جاری کیا۔ حضرت مسیح موعودؑ سے آپؓ کا تعارف اس وقت ہوا جب ’براہین احمدیہ‘ کے پہلے تین حصے شائع ہوئے تھے۔ آپؓ نے کتاب پر ایک مفصل ریویو میں بڑے دلآویز الفاظ میں اپنے تاثرات کو بیان فرمایا اور حضرت اقدسؑ کے بارے میں فرمایا:

سب مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لئے

آپؓ نے حضرت اقدسؑ کو مجدد وقت اور طالبان سلوک کیلئے کبریت احمر اور سنگدلوں کے واسطے پارس اور تاریک باطنوں کے واسطے آفتاب اور گمراہوں کے لئے خضر اور منکرین اسلام کے لئے سیف قاطع اور حجۃالبالغۃ قرار دیا۔ آپؓ کا حضرت مسیح موعودؑسے گہرا تعلق ارادت و محبت رہا اور آپؓ کی روحانی اور دوربین نگاہ نے بھانپ لیا کہ یہی وہ وجود ہے جو تجدید و احیائے دین کے لئے مامور کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی آپؓ کے پاس مرید ہونے کے لئے آتا تو آپؓ فرماتے ’’سورج نکل آیا ہے اب تاروں کی ضرورت نہیں، جاؤ حضرت صاحبؑ کی بیعت کرو‘‘۔
جب حضور علیہ السلام نے حضرت صوفی صاحبؓ سمیت بعض ارادتمندوں کے اصرار پر 1884ء میں لدھیانہ کا سفر اختیار فرمایا تو یہ حضورؑ کی حضرت صوفی صاحب کے ساتھ پہلی ملاقات تھی لیکن حضرت صوفی صاحبؓ نے اپنے مریدوں سے کہا ہوا تھا کہ حدیث میں مامور زمانہ کا حلیہ موجود ہے اسلئے میں آپؑ کو ازخود پہچان لوں گا۔ چنانچہ جب آپ استقبال کے لئے لدھیانہ سٹیشن پر کھڑے تھے تو حضرت اقدسؑ پر نظر پڑتے ہی بے اختیار فرمایا ’’ھٰذا لیس وجہ کاذب‘‘ یعنی یہ جھوٹے شخص کا چہرہ نہیں۔
حضورؑ کے قیام لدھیانہ کے دوران آپؓ کو حضورؑ کی مہمان نوازی کا شرف بھی حاصل ہوا۔ آپؓ حضورؑ کی مجالس عرفان میں نہایت اخلاص و ارادت کے ساتھ دو زانو ہوکر باادب بیٹھتے اور عقیدتمند مریدوں کی طرح حضورؑ سے فیض حاصل کرتے۔ اسی دوران حضرت صوفی صاحبؓ نے حضور علیہ السلام کے ارشاد کی روشنی میں اپنے عقیدہ ’’علم توجہ‘‘ سے بھی توبہ کرلی جس کے بارے میں آپؓ ایک کتاب ’’طب روحانی‘‘ شائع فرما چکے تھے اور مزید دو کتب کا مسودہ تیار تھا جو ضائع کردیا۔ آپ ؓ نے اپنے مریدوں میں بھی یہ اشتہار بھی دیا کہ علم توجہ اسلام سے مخصوص نہیں ہے اور کوئی مرید اسے اسلام کا جزو سمجھ کر استعمال نہ کرے۔
1885ء میں حضرت صوفی صاحب حج کے لئے تشریف لے گئے تو اس موقعہ پر حضورؑ نے آپ کو ایک دعا لکھ کر دی جو حسب ارشاد آپؓ نے بآواز بلند وہاںپڑھی۔ اس سفر سے واپسی کے دوران ہی آپؓ بیمار ہوگئے اور لدھیانہ پہنچ کرچند ہی روز بعد 27 دسمبر 1885ء کو آپکی وفات ہوگئی۔ حضورؑ نے قادیان میں نماز جنازہ غائب پڑھی اور تعزیت کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے۔
23 مارچ 1889ء کوحضورؑ نے پہلی بیعت کیلئے حضرت صوفی صاحبؓ کے مکان میں ایک کچی کوٹھڑی کو شرف بخشا جسے بعد ازاں آپؓ کے صاحبزدگان نے جماعت کو ہبہ کردیا اور جماعت نے ایک خوبصورت مسجد اور لائبریری وہاں تعمیر کروائی۔ 47ء کے فسادات میں یہ تاریخی یادگار جماعت سے چھن گئی۔ اگرچہ حضرت صوفی صاحبؓ کو ظاہری بیعت کا موقعہ نہ مل سکا لیکن حضورؑ نے آپؓ کا نام اپنے صحابہ خاص (313) میں شامل فرمایا۔ آپؓ ہی کے گھر حضورؑ نے اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ تصنیف فرمائی جس میں آپؓ کا نہایت محبت سے ذکر فرمایا۔
عورتوں میں سب سے پہلے بیعت کی سعادت حضرت صوفی صاحبؓ کی صاحبزادی حضرت صغریٰ بیگم صاحبہؓ کو حاصل ہوئی تھی جن کی شادی ابتداء 1889ء میں حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ سے ہوئی تھی۔ بعد ازاں ان ہی کی صاحبزادی حضرت سیدہ امۃالحئی بیگم صاحبہ حضرت مصلح موعودؓ کے عقد میں آئیں اس طرح حضرت صوفی صاحبؓ کا روحانی تعلق کے ساتھ ساتھ ظاہری تعلق بھی اپنی نواسی کے ذریعے حضرت مسیح موعودؑ سے قائم ہوگیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں