حضرت میاں محمد خانصاحبؓ کپورتھلوی کی حضرت مسیح موعود سے محبت

حضرت مسیح موعودؑ کے کپورتھلہ سے تعلق رکھنے والے سترہ اصحاب میں ایک حضرت میاں محمد خانصاحبؓ بھی تھے۔ آپ لدھیانہ میں پہلی بیعت کے موقعہ پر بیعت سے مشرف ہوئے اور پھر کئی سفروں میں حضورؑ کے ہم سفر بھی ہوئے اور حضورؑ کے کلمات طیبات قلمبند کرنے کی سعادت بھی آپؓ کو حاصل ہوتی رہی۔ حضرت اقدسؑ نے آپؓ کے بارے میں فرمایا:
’’حبی فی اللہ میاں محمد خاں صاحب ریاست کپورتھلہ میں نوکر ہیں۔ نہایت درجہ کے غریب الطبع، صاف باطن، دقیق فہم، حق پسند ہیں اور جس قدر انہیں میری نسبت عقیدت و ارادت و محبت و نیک ظن ہے میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا … وہ سچے وفادار اور جان نثار اور مستقیم الاحوال ہیں۔ خدا ان کے ساتھ ہو‘‘۔
حضرت میاں محمد خان صاحبؓ ریاست کپورتھلہ کے افسر بگھی خانہ یعنی سرکاری اصطبل کے انچارج تھے اور تین چار سو آدمی ان کے ماتحت تھے۔ آپؓ کو بھی دیگر احباب کپورتھلہ کے ساتھ ’’براہین احمدیہ‘‘ کی تصنیف کے زمانہ سے حضرت اقدسؑ کے ساتھ تعلق پیدا ہوگیا تھا۔ جب حضورؑ کو بیعت لینے کا اذن ہوا تو حضورؑ نے آپؓ کو بھی خط لکھا اور آپؓ اس قافلہ میں شامل تھے جس نے کپورتھلہ سے لدھیانہ پہنچ کر حضرت اقدسؑ کی دستی بیعت کا شرف حاصل کیا۔
حضرت میاں محمد خاں صاحبؓ کی وفات یکم جنوری 1904ء کو ہوئی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ آپؓ کا ایسا تعلقِ محبت و فدائیت تھا کہ حضورؑ کو آپؓ کی وفات کا الہام ہوا ’’اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے‘‘۔ نیز یہ الہام بھی ہوا ’’اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا‘‘۔ اس الہام کے مطابق حضرت خاں صاحبؓ کی وفات کے بعد آپؓ کے فرزند افسر بگھی خانہ مقرر ہوئے اور ترقی کرتے کرتے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوکر پنشن پائی۔
ایک بار حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ نے بعض دوستوں کو غالباً کسی غفلت پر کچھ تنبیہ کے الفاظ تحریر فرمائے جن کو حضرت خان صاحبؓ نے اپنے متعلق گمان کیا۔ جب یہ بات حضرت اقدسؑ تک پہنچی تو حضورؑ نے اپنے دست مبارک سے آپؓ کو وہ خط لکھا جس کا ایک ایک لفظ حضرت میاں محمد خانصاحبؓ اور دیگر اصحاب کپورتھلہ کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ حضورؑ نے فرمایا:
’’…آپ دلی دوست اور مخلص ہیں اور میں آپ کو اور اپنی تمام اس مخلص جماعت کو ایک وفادار اور صادق گروہ یقین رکھتا ہوں اور مجھے آپ سے اور منشی اروڑا صاحب اور دوسرے کپورتھلہ کے دوستوں سے دلی محبت ہے پھر کیونکر ہو کہ ایسی جماعت کی نسبت کوئی ناگوار کلمہ منہ سے نکلے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس دنیا اور آخرت میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے ساتھ ہوں گے اور آپ ان دوستوں میں سے ہیں جو بہت ہی کم ہیں۔ آپ نے دلی محبت سے ساتھ دیا اور ہر ایک موقعہ پر صدق دکھلایا پھر کیونکر فراموش ہوسکتے ہیں …‘‘۔
حضرت مسیح موعودؑ کے پہلے فرزند بشیر اول وفات پاگئے جنہیں حضورؑ نے اجتہاداً پسر موعود اور پیشگوئی مصلح موعود کا مصداق سمجھا تھا تو بعد میں حضورؑ نے اپنے ایک مکتوب میں یوں تحریر فرمایا:
’’…بشیر درحقیقت ایک شفیع کی طرح پیدا ہوا اور اس کی موت ان سچے مومنوں کے گناہوں کا کفارہ ہے جن کو اس کے مرنے پر محض للہ غم ہوا۔ یہاں تک کہ بعض نے کہا کہ ہماری ساری اولاد مر جاتی اور بشیر جیتا رہتا تو ہمیں کچھ رنج نہ تھا …‘‘۔
ایسا اخلاص کا اظہار کرنے والے حضرت منشی محمد خانصاحبؓ تھے اور حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ ہمیشہ آپؓ کے اس اخلاص پر رشک فرمایا کرتے تھے۔
حضرت میاں محمد خانصاحبؓ شعر بھی کہتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی مدح میں آپؓ کی ایک نظم سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

زمینِ دل پڑی تھی مردہ ساری
تو آیا مثل بارانِ بہاری
تو آیا ہے بعینہ انتظاری
دلوں کو لگ رہی تھی بے قراری
دکھایا زور وہ تیرے قلم نے
جھکائے سر عرب نے اور عجم نے
فصاحت ہاتھ تیرے چومتی ہے
بلاغت مست ہو ہو جھومتی ہے
بچا جس کے لئے تو نے دعا کی
ہوا برباد جس کو بد دعا دی
الٰہی اس کے سب مقصد بر آئیں
الٰہی اس کی پوری ہوں دعائیں

عبداللہ آتھم کی پیشگوئی کی میعاد جب ختم ہوئی اور اس نے رجوع بحق ہوکر خود کو بچالیا تو حضرت منشی اروڑا خانصاحبؓ نے اسی وقت مسجد مبارک قادیان میں مقیم بعض دوستوں سے جن میں حضرت محمد خان صاحبؓ بھی شامل تھے 30، 35 روپے جمع کرکے حضورؑ کی خدمت میں پیش کئے تاکہ اس خبر کے بارے میں اشتہار شائع ہو تو خرچ میں شامل کردیئے جائیں۔
حضرت مصلح موعودؓ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے جہاں بھی احباب کپورتھلہ کا ذکر فرمایا تو حضرت میاں محمد خان صاحب کے اخلاص و محبت اور وفاداری کا بھی ذکر کیا ہے۔ حضرت خانصاحبؓ کی سیرت کے بارہ میں ایک مضمون محترم نصراللہ خاں ناصر صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ اگست 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں