حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری رضی اللہ عنہ
حضرت مولوی حسن علی صاحب رضی اللہ عنہ بھاگلپور صوبہ بہار کے رہنے والے تھے اور پٹنہ ہائی سکول میں ہیڈماسٹر تھے۔ عابد و زاہد، بڑے فصیح البیان واعظ اور اعلیٰ درجہ کے اوصاف سے متصف تھے۔ لوگ آپ کو صدی کا مجدد بھی خیال کرنے لگے تھے۔ پھر آپؓ ملازمت ترک کر کے دین کے لئے وقف ہوگئے اور شہر بہ شہر لیکچر دینے لگے۔
آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام پہلی مرتبہ 1887 میں امرتسر میں سنا اور قادیان آکر ملاقات کی اور پھر واپس آ کر خدمت دین میں مشغول ہو گئے۔ 1893ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ میں حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی پْرمعارف تقریر سننے کا موقع ملا تو فرمایا کہ مجھے فخر ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اتنے بڑے عالم اور مفسر کو دیکھا۔
2؍ جنوری 1894ء کو حضرت سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب مدراسی کے اصرار پر اُن کے ہمراہ قادیان گئے اور حضور ؑ کی زیارت کرتے ہی دل سے ایمان لے آئے لیکن ابھی بیعت نہ کی۔ تیرہ روز قادیان میں رہ کر چند کتب کا مطالعہ کیا اور ان ایام کو اپنی زندگی کے بہترین ایام قرار دیا۔ قبول حق میں سب سے بڑی روک عوام میں آپ کی قدر و منزلت تھی جو لازماً تکفیر اور ملامت میں بدل جاتی۔ اس لئے کچھ عرصہ شدید کشمکش کی حالت میں دعاؤں میں مصروف رہے۔ آخر 11؍جنوری 1894ء کو بیعت کی سعادت حاصل کی۔ واپس جاکر جب آپؓ نے اپنے احمدی ہونے کا اعلان کیا تو پھر آپ کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا جو صداقت کے عاشقوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
آپؓ کے قبول احمدیت کے بارے میں ایک مختصر تحریر محترم نصراللہ خان ناصر صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ اپریل 1996ء کی زینت ہے۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری رضی اللہ عنہ کی مختصر سیرت محترم چودھری عبدالحمید صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ 16؍ مئی 1996ء کی زینت ہے۔ آپؓ 22؍اکتوبر 1852ء کو بھاگلپور (بہار) میں پیدا ہوئے انٹرنس کے بعد انہیں ایک بزرگ کی صحبت میسر آئی جس کے نتیجہ میں انہیں خدا پر توکل اور دعا میں لذت حاصل ہوئی۔
1874ء میں شادی کے بعد آپ پٹنہ ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر ہوگئے لیکن 1886ء میں ایک غیبی اشارے پر ملازمت ترک کر کے اسلام کی سربلندی کے لئے لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا۔ انداز ایسا دل نشین تھا کہ قوم نے آپ کو ’’شمس الواعظین‘‘ کا لقب دیا۔ انہی دنوں آپؓ نے اس امر کا بار بار اظہار کیا کہ اب کسی ہادی کو پیدا ہونا چاہئے جو باطل فلسفہ کے زور کو خدائی نشان دکھا کر توڑ سکے۔
1887ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں سنا تو ملاقات کے لئے قادیان گئے اور حضورؑ کے حسن اخلاق اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوئے۔ 1894ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔ کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اوّلین ساتھیوں میں آپؓ کا نام بھی مرقوم ہے۔ حضورؑ نے آپ کو انگلستان میں تبلیغ کے لئے بھجوانے کے لائق سمجھتے ہوئے جماعت کو معاون اور رقم فراہم کرنے کی تلقین کی تھی اور آپ کو تقی، ذکی اور برگزیدہ قراردیا تھا۔ افسوس آپؓ کی عمر نے وفا نہ کی اور محض ساڑھے تینتالیس سال کی عمر میں 2؍فروری 1896ء کو آپؓ وفات پاگئے۔
تائید احمدیت میں آپؓ کی ایک کتاب ’’تائید حق‘‘ کئی مرتبہ طبع ہو چکی ہے۔ اس کے بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: ’’نہایت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے۔ مَیں نے ایک دفعہ اس کو پڑھنا شروع کیا تو میں اس وقت تک سویا نہیں جب تک مَیں نے اس ساری کتاب کو ختم نہ کرلیا‘‘۔