حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحبؓ کٹکی
حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحبؓ سونگھڑہ کے ایک قصبہ دریاپور میں سید غلام حیدر صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم سونگھڑہ کے ہی مختلف جید علماء سے حاصل کی۔ لیکن حصول علم کا شوق اس قدر تھا کہ اپنی بوڑھی ماں اور نوبیاہتا بیوی کو چھوڑ کر دو دوستوں کے ساتھ پاپیادہ حیدرآباد دکن کی طرف روانہ ہوئے جہاں کے علماء کا شہرہ آپ نے سن رکھا تھا۔ کئی مہینوں کے سفر کے بعد حیدرآباد دکن پہنچے اور مدرسہ محبوبیہ میں داخل ہوئے۔ وہیں حضرت میر محمد سعید صاحبؓ سے شناسائی ہوئی اور اُنہوں نے ہر پہلو سے آپ پر احسانات کئے۔ مدرسہ سے دستار بندی کے بعد اپنے وطن واپس آنے کیلئے آپؓ نے سرمایہ جمع کرنے کیلئے ٹیوشن پڑھانی شروع کی۔ پھر کسی جگہ مدرس ہوگئے لیکن بدعات کے خلاف آواز اٹھانے پر آپ کا تبادلہ کردیا گیا۔ قریباً 1900ء میں آپ کو کسی نے بتایا کہ پنجاب میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا ہے جو کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہیں۔ آپ نے فوراً کہا کہ یہ فضول بات ہے، ایسے شخص کی بات سننا ہی نہیں چاہئے۔ …کچھ عرصہ بعد آپ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں حیدرآباد دکن گئے اور حضرت مولانا میر محمد سعید صاحب کے ہاں قیام کیا۔ حضرت میر صاحب نے بھی یہی تذکرہ کیا۔ آپ دینی معاملات میں سخت مشتعل ہونے والے تھے چنانچہ حضرت میر صاحب کو بھی اپنا پہلے والا جواب سنایا اور کہا کہ جلد ہی اس نئے عقیدے کو اپنے ایک مضمون کے ذریعہ باطل ثابت کردیں گے۔ حضرت مولانا میر صاحب نے بمشکل آپ کو اس بات پر راضی کیا کہ کہنے والا جو کہتا ہے ، اُسے پہلے دیکھ تو لو، پھر جو چاہو سو کہنا۔ اس پر آپ اس لئے راضی ہوگئے تاکہ اس طرح فریق مخالف کے خیالات معلوم کرکے پھر اپنے عقیدہ کی حمایت میں مضمون لکھیں۔
اسی رات نماز عشاء کے بعد حضرت مولوی سعید صاحبؓ نے آپکو حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیف ’’ازالہ اوہام‘‘ سنانا شروع کی۔ شروع میں تو آپ کچھ لڑتے جھگڑتے رہے لیکن جلد اوّل کے ختم ہونے پر بالکل خاموش ہوگئے۔ دوسرا حصہ شروع ہوا تو آنسو بہنے لگے اور اس شعر پر تو زار زار رونے لگے
بعد از خدا بعشق محمد مخمّرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
کتاب ختم ہوئی تو آپ جو لیٹے ہوئے تھے اُٹھ بیٹھے اور حضرت میر صاحب سے کہنے لگے کہ مولوی صاحب اب دیر کیا ہے؟ حق ظاہر ہوچکا ہے۔ میر صاحبؓ فرماتے جلدی ٹھیک نہیں، اَور کتابیں بھی دیکھنی چاہئیں اور دعا بھی کرنی چاہئے۔
چنانچہ دوسری کتابوں کی تلاش ہوئی تو ایک دوسرے عالم سید محمد رضوی صاحب نے رازداری کا پختہ وعدہ لے کر ’’توضیح مرام‘‘ اور ’’فتح اسلام‘‘ کتابیں چھپاکر دیں۔ آپ نے اپنے ایک رشتہ کے بھائی سید امین اللہ صاحب کو بھی بحث و مباحثہ کے بعد اپنا ہم خیال بنایا۔ اور پھر اپنے دوستوں کو جرأت دلائی کہ سب مل کر بیعت کریں۔ چنانچہ حضرت میر صاحبؓ نے بہت سے لوگوں کی طرف سے بیعت کا ایک خط قادیان لکھ دیا اور اس طرح حیدرآباد دکن میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آگیا۔
حضرت سید عبدالرحیم صاحبؓ نے حیدرآباد سے واپس جاکر کئی رسائل لکھے جن میں احمدیہ عقائد کو دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ یہ رسائل جماعت احمدیہ دکن اور دیگر ذرائع سے شائع ہوتے رہے۔ جب پہلا رسالہ ’’الدلیل المحکم علیٰ وفات المسیح ابن مریم‘‘ شائع ہوا تو آپؓ کو فوری طور پر ملازمت سے معزول کردیا گیا۔ چنانچہ آپ واپس حیدرآباد جاکر ٹیوشن کرنے لگے۔ ایک سال کی کوششوں کے بعد دوبارہ بحال ہوئے لیکن تنخواہ میں تخفیف کے ساتھ بلدہ کے دفتر میں مجاریہ نویس مقرر ہوئے۔ پھر 1899ء یا 1900ء میں اپنے وطن سونگڑہ تشریف لائے اور تبلیغ کا کام شروع کیا۔ آپ کی پہلی عام تقریر 7؍جنوری 1900ء کو ہوئی جس میں پانچ سو سے زیادہ افراد بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوگئے اور اس طرح جماعت احمدیہ اڑیسہ کا قیام بھی عمل میں آگیا۔ اسی سال اڑیسہ سے سات احباب کا ایک قافلہ بصد شوقِ زیارت حضرت اقدس علیہ السلام، قادیان پہنچا۔
حضرت مولوی سیدعبدالرحیم صاحبؓ کا تفصیلی ذکر خیر ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 31؍دسمبر 1998ء میں مکرم منصور احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحبؓ کٹکی کے بڑے بیٹے حضرت علامہ حکیم سید عبدالحلیم صاحب مرحوم کا شمار سلسلہ احمدیہ کے جیّد علماء میں ہوتا ہے۔وہ ادیب و شاعر تھے اور اُن کے مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ دوسرے بیٹے مکرم سید عبدالسلام صاحب قادیان میں زیر تعلیم رہے اور پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کرکے پہلے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں اور پھر اپنے وطن میں ملازمت کرتے رہے۔ تیسرے بیٹے مکرم مولوی سید محمد احمد صاحب لمبے عرصہ تک صوبائی امیر اڑیسہ رہے، نہایت منکسرالمزاج ، عبادت گزار اور صاحب کشف و الہام تھے۔