حضرت مولوی شیر محمد صاحب آف ہجن
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اپریل 2005ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت مولوی شیر محمد صاحبؓ آف ہجن کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت حکیم شیر محمد صاحب آف ہجن ضلع سرگودھا ’’رانجھا‘‘ قوم سے تعلق رکھتے تھے جو قریش خاندان کی ایک شاخ ہے۔ والد کا نام محترم مولوی غلام مصطفی صاحب تھا۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب کے والد اور جید عالم حضرت مولوی نظام الدین صاحب آپ کے بھائی تھے۔ آپ ایک علم دوست خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ عربی و فارسی کے عالم ہونے کے علاوہ بلند پایہ کے حکیم تھے اور اپنے علاقہ میں جانے پہچانے اور بے حد محترم تھے۔
آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے قریبی دوستوں میں سے تھے اور انہی کے فیوض و برکات کے زیر اثر قبول احمدیت کا شرف پایا۔ آپ کے ذریعہ پھر یہ ثمر حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے خاندان کو ملا۔ حضرت حکیم صاحبؓ نے 7؍ستمبر 1889ء کو بیعت کی، رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کا نام 124ویں نمبر پر یوں درج ہے: مولوی شیر محمد ولد میاں غلام مصطفی زمیندار ساکن موضع ہجن تحصیل بھیرہ ضلع شاہ پور…
آپؓ کا پیشہ طبابت وزمینداری لکھا ہوا ہے۔
آپؓ کے بھتیجے حضرت منشی تصدق حسین صاحبؓ (بیعت 1892ء بمقام سیالکوٹ) حضورؑ کی خدمت میں پہلی دفعہ حاضر ہونے اور بیعت کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مولوی عبدالکریم صاحب مجلس میں سے اٹھ کر میری جانب تشریف لائے وہ مجھ کو نہ پہچان سکے لیکن میں نے اپنی پہچان خود کرائی اور بتایا کہ میں شیر محمد صاحب احمدی ازہجن کا بھتیجا ہوں۔ اس پر جناب مولوی صاحب میری درخواست کے ماتحت حضرت اقدس کے سامنے مجھے لے گئے اور میں نے آپ کے سامنے قبلہ رخ بیٹھ کر مصافحہ کیا۔ مولوی صاحب نے عرض کی کہ یہ بھائی شیر محمد صاحب سکنہ ہجن ضلع شاہ پور کے بھتیجے ہیں۔ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کیا آپ شیر محمد صاحب کو جانتے ہیں۔ جناب مولوی صاحب نے فرمایا حضور جانتا ہوں۔ فرمایا: ’’وہ بہت نیک اور صالح آدمی ہیں‘‘ اس کو دو دفعہ کہا اور پھر تقریر شروع فرمائی …‘‘
حضرت حکیم صاحبؓ حضور علیہ السلام کے لئے بے پناہ محبت اور غیرت رکھتے تھے۔ چنانچہ جب ستمبر 1891ء میں حضرت اقدسؑ دہلی تشریف لے گئے تھے اور وہاں کی جامع مسجد میں مولوی نذیر حسین صاحب کے ساتھ مباحثہ کی تجویز ہوئی تھی تو شہر میں مخالفت کا خطرناک زور تھا اور حضرت اقدسؑ کے اہل وعیال بھی سفر میں تھے اس لئے حضورؑ مباحثہ کی طرف جاتے ہوئے مکان کی حفاظت کے لئے آپؓ کو ٹھہراگئے۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دل میں پختہ عہد کر لیا تھا کہ میں اپنی جان دیدوں گا لیکن کسی کو مکان کی طرف رُخ نہیں کرنے دوں گا۔
حضرت حکیم شیر محمد صاحبؓ نہ صرف عالم تھے بلکہ دعوۃ الی اللہ کا بھی بے حد شوق رکھتے تھے۔ اپنے بڑے بھائی حضرت مولوی نظام الدین صاحب کو پیغام حق پہنچانے کی پوری کوشش کی۔ چونکہ دونوں بھائی جید عالم تھے اس لئے ’’ادرھماں‘‘ گاؤں کی مسجد میں اکٹھے بیٹھ کر تبادلہ ٔ خیالات کیا کرتے اور یہ گفتگو اتنا طول کھینچ جاتی کہ صبح سے شام ہوجاتی۔ دونوں طرف سے کتابوں کا انبار لگ جاتا۔ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ بھی اپنے والد ماجد کو پیغام حق پہنچانے میں آپ کا ساتھ دیتے۔ بالآخر حضرت مولوی نظام الدین صاحب بھی حضور علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوگئے۔ پھر آپ تینوں کی مخلصانہ کوششوں اور پرسوز دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے شیریں پھل عطا کئے اور ’’ادرھماں‘‘ میں ایک نہایت مضبوط اور قربانی کرنے والی جماعت قائم ہوئی۔ یہ گاؤں آج تک احمدی گاؤں کے نام سے مشہور چلا آتا ہے۔
جب موضع چادہ (متصل بھیرہ) میں مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نہر کے پٹواری تھے تو حکیم صاحب اپنی زمین دیکھنے کے سلسلہ میں وہاں گئے اور دعوۃ الی اللہ کے شوق میں مولوی بوتالوی صاحب کو تبلیغ کرنے لگے۔ بعد میں مولوی صاحب نے آپؓ کو بتایا کہ وہ بھی احمدی ہیں لیکن اس لئے چپ رہے تاکہ دیگر حاضرین کو فائدہ پہنچ جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’فتح اسلام‘‘ جو 1890ء کے آخر میں لکھی گئی میں فرمایا کہ:’’…ایسے بھی بہت ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کیلئے مجھے دیا ہے اور وہ میرے درخت وجود کی سرسبز شاخیں ہیں اور میں انشاء اللہ کسی دوسرے وقت میں اُن کا تذکرہ لکھوں گا‘‘۔ چنانچہ اگلے سال آپ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ تصنیف فرمائی جس میں آپ نے اپنے مخلصین مبایعین کا بھی ذکر فرمایا۔ آپ نے ان مخلصین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’یہ سب صاحب علیٰ حسب مراتب اس عاجز کے مخلص دوست ہیں۔ بعض ان میں اعلیٰ درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں، اسی اخلاص کے موافق جو اس عاجز کے مخلص دوستوں میں پایا جاتا ہے۔ اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں جداگانہ ان کے مخلصانہ حالات لکھتا‘‘۔
حضور علیہ السلام نے ان ذکر کردہ اسماء مبایعین میں حضرت مولوی صاحب کو بھی اس طرح شمار کیا ہے: حبی فی اللہ مولوی شیر محمد صاحب ہجنی
حضور کی کتاب ’’آریہ دھرم‘‘ میں حضور کا گورنمنٹ کے نام ایک اشتہار (ستمبر 1895ء) درج ہے جس میں 700؍افراد کے نام درج ہیں۔ بھیرہ ضلع شاہ پور کے ذیل میں حضرت حکیم صاحبؓ کا نام بھی موجود ہے۔
جون 1897ء میں قادیان میں ڈائمنڈ جوبلی منائی گئی اور ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا گیا حضرت حکیم صاحب خود تو جلسہ میں نہ حاضر ہوسکے لیکن جلسہ کے لئے چندہ ادا کیا۔ حضور علیہ السلام نے ازراہ شفقت آپ کا نام بھی فہرست میں شامل کیا ہے اور آپ کا نام 297 نمبر پر موجود ہے۔
آپ کی بڑی خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ حضور علیہ السلام نے آپ کا نام اپنے 313 کبار صحابہ کی فہرست میں یوں شامل فرمایا ہے:
219۔ مولوی شیر محمد صاحب ہجن۔ شاہ پور
حضرت مولوی شیر محمد صاحبؓ نے قریباً 50 سال کی عمر میں 1904ء میں وفات پائی۔ 7؍ستمبر 1905ء کو حضور علیہ السلام نے وفات پاجانے والے چند صحابہؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے آپؓ کا بھی تذکرہ فرمایا۔ آپ کی وفات پر اخبار ’’البدر‘‘ قادیان نے لکھا:
’’مولوی صاحب موصوف موضع ہجن تحصیل بھیرہ ضلع شاہ پور کے رہنے والے تھے جب حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ تصنیف کی تو اس کتاب کو پڑھنے کے بعد حضرت اقدس کے ارادتمندوں اور بہت آمدورفت رکھنے والوں میں سے ایک یہ بھی تھے اور اول مرتبہ جب آپؑ دہلی تشریف لے گئے تو یہ بھی ہمراہ تھے۔ آپؑ کے پرانے خادموں میں سے تھے حضرت اقدس سے انہیں ایک خاص اُنس و محبت تھی۔ دین کے خادم تھے اور اپنے ضلع میں خدا کے اس سلسلہ کو پھیلانے کا دل میں بہت جوش تھا … اور کئی آدمیوں نے ان کے ذریعہ بیعت کی اور علاوہ علم و فضل ودینداری اور تقویٰ کے حاذق طبیب ہونے کی وجہ سے اپنے ضلع بھر میں مشہور ومعروف تھے اور لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے شاگرد ہونے کا ان کو فخر حاصل تھا اور مولوی صاحب کو بھی ان سے بڑی محبت تھی۔
مولوی صاحب مرحوم کا اخلاص اس سے بھی ظاہر ہے کہ اپنی وفات سے پہلے انہوں نے وصیت کی تھی کہ میری زمین کا نصف حصہ سلسلہ احمدیہ کی خدمت کے لئے وقف کیا جاوے۔ چنانچہ ان کی بیوہ ہر سال زمین کی پیداوار کی نصف قیمت حضرت اقدس کی خدمت میں بھیج دیا کرتی ہیں ان کی وفات بھی عجیب نظارہ تھا وفات تک پورے ہوش میں رہے اور قرآن شریف لے کر وعظ کر رہے تھے اور ابھی انگلی قرآن شریف میں ہی تھی کہ جان دیدی۔ ازالہ ٔ اوہام میں جن مخلصین کا نام حضرت اقدس نے لکھا ہے ان میں ان کا بھی نام ہے سلسلہ کی تائید میں انہوں نے پنجابی زبان میں ایک نہایت مفید نظم تصنیف کی تھی‘‘۔