حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی
حضرت مولوی صاحبؓ کی سیرۃ کا مختصر ذکرخیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍جنوری 1999ء میں مکرم عبدالقدیر قمر صاحب نے کیا ہے۔
حضرت مولوی صاحبؓ غیرتِ دینی میں اپنی مثال آپ تھے۔ قرآن کریم سے آپؓ کو والہانہ عشق تھا۔ ایک بار آپؓ نے فرمایا: ’’قرآن کریم کیلئے روح ایسی غیرت محسوس کرتی ہے کہ … اگر قرآن شریف کے سامنے کوئی اور دوسری کتاب پڑھتا ہو تو مجھے ایسا ہی جوش آتا ہے کہ کیوں یہ اس کتاب کو دیکھ رہا ہے۔ کیا کلام اللہ سے بڑھ کر اس کو راحت رساں اور دلچسپ پاتا ہے‘‘۔
یہی عشقِ قرآن تھا کہ جب آپ امریکن مشن سکول میں استاد تھے تو ایک دن عیسائی اساتذہ اور طلبہ سے تبادلہ خیال کے دوران جب کسی نے قرآن کریم کا بائبل سے موازنہ کرتے ہوئے قرآن کریم کے بارے میں دلآزار کلمات کہے تو آپؓ نے اُس کو خوب سرزنش کی ۔ جس کے نتیجہ میں آپؓ کو سکول انتظامیہ نے فارغ کردیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فوراً ہی ڈسٹرکٹ بورڈ مڈل سکول سیالکوٹ میں آپؓ کی ملازمت کا بندوبست کردیا۔ اس واقعہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ لکھتے ہیں: ’’ان کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گزری تھی اور دنیا کی عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا۔ نوکری بھی انہوں نے اسی واسطے چھوڑ دی تھی کہ اس میں دین کی ہتک ہوتی ہے‘‘۔
قبول احمدیت کے بعد آپؓ حضرت اقدسؑ کی محبت میں اس قدر محو ہوئے کہ اپنے محبوب امام کی رائے کے خلاف سوچنا بھی کفر سمجھتے تھے۔ آپؓ فرمایا کرتے: ’’میں جو 1890ء سے یہاں (یعنی قادیان میں) رہتا ہوں۔ خلوت میں جلوت میں ہر حال میں آدھی آدھی رات تک اپنے امام کی گفتگو سنی ہے۔ میں خوب جانتا ہوں کہ میری روح نے دھوکہ نہیں کھایا ہے‘‘۔
حضرت مولوی صاحبؓ کو تحریر و تقریر کا زبردست ملکہ تھا۔ چنانچہ حضرت اقدسؑ کے تقریباً تمام پبلک لیکچر آپ کی زبان سے ہی عوام الناس کے دلوں کی آواز ٹھہرے۔ آپؓ نے نہ صرف کئی لطیف تصانیف تحریر فرمائیں بلکہ حضرت اقدسؑ کی بعض کتب کا ترجمہ کرنے کی سعادت بھی پائی۔ اسی طرح حضور علیہ السلام کی طرف سے عربی کتب و رسائل کی تصنیف و تقریر کا ایک سبب آپؓ کی فرمائش تھی۔ چنانچہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’اپنے ابتدائی ایام میں تصانیف میں حضرت صاحب نے کوئی کتاب عربی زبان میں نہیں لکھی تھی بلکہ تمام تصانیف اردو میں یا نظم کا حصہ فارسی میں لکھا۔ ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے عرض کیا کہ حضور کچھ عربی میں بھی لکھیں تو بڑی سادگی اور بے تکلّفی سے فرمایا کہ میں عربی نہیں جانتا۔ مولوی صاحب بے تکلّف آدمی تھے۔ انہوں نے پھر عرض کیا۔ میں کب کہتا ہوں کہ حضورؑ عربی جانتے ہیں۔ میری غرض تو یہ ہے کہ کوہ طور پر جائیے اور وہاں سے کچھ لائیے۔ فرمایا، ہاں میں دعا کروں گا۔ اس کے بعد آپؑ تشریف لے گئے اور جب دوبارہ باہر تشریف لائے تو ہنستے ہوئے فرمایا کہ مولوی صاحب میں نے دعا کرکے عربی لکھنی شروع کی تو بہت ہی آسان معلوم ہوئی۔ چنانچہ پہلے میں نے نظم ہی لکھی اور کوئی سو شعر عربی میں لکھ کر لے آیا ہوں۔‘‘
حضرت اقدسؑ کی کتاب ’’التبلیغ‘‘ میں شامل عربی مکتوب بھی حضرت مولوی صاحبؓ کے توجہ دلانے پر ہی ’’شاہکار‘‘ بنا۔ خطبہ الہامیہ بھی آپؓ کی وجہ سے رہتی دنیا تک ’’معجزہ‘‘ بن گیا۔
جب فونوگراف کی ایجاد ہوئی تو حضرت مولوی صاحبؓ کی دلکش آواز میں پہلے سورۃالانبیاء کا آخری رکوع ریکارڈ کیا گیا پھر آپؓ نے حضورؑ کی اِس نظم کے دو اشعار مترنم آواز میں پڑھے:
آواز آ رہی ہے یہ فونوگراف سے
اسی طرح حضور علیہ السلام کا نعتیہ کلام :
عجب نوریست در جان محمدؐ
بھی آپؓ ہی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔
حضرت مولوی صاحبؓ کی آخری بیماری کے دوران حضور علیہ السلام کو الہاماً بتایا گیا کہ دو شہتیر ٹوٹ گئے۔ جب 11؍اکتوبر 1905ء کو حضرت مولوی صاحبؓ کی وفات ہوئی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’بڑے ہی مخلص اور قابل قدر انسان تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی یہی مرضی تھی۔ اگرچہ بشریت کے لحاظ سے صدمہ ہوتا ہے مگر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر خوش ہیں۔ اس نے ہماری تسلّی کیلئے پہلے سے ہی بتا دیا تھا‘‘۔
کچھ ہی عرصہ بعد یعنی 3؍دسمبر 1905ء کو حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ بھی وفات پاگئے۔ ان بزرگوں کے جانشین پیدا کرنے کیلئے حضرت اقدسؑ نے مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی جس کی موجودہ شکل جامعہ احمدیہ ہے۔