حضرت مولوی غلام حسین ایاز صاحب

حضرت مولوی غلام حسین ایازؔ صاحب تحریک جدید کے تحت بھجوائے جانے والے پہلے وفد میں شامل تھے۔ آپ کو سنگاپور بھیجا گیا تھا جہاں آپ کو ایسی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور پولیس میں بھی اتنی شکایات آپ کے خلاف ناحق پہنچائی گئیں کہ سنگاپور کی بلیک لسٹ میں آپ کا نام سرفہرست آ گیا۔ بعد میں جاپانیوں کے سنگاپور پر قبضہ کے بعد حالات برعکس ہو گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ظالم نابود ہو گئے۔
آپ کا مختصر ذکر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍ اپریل 1996ء میں محترم محمد نصیب صاحب عارف کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار جنگ عظیم دوم کے دوران انڈین فوج میں شامل ہو کر سنگاپور گئے تھے اور وہاں جاپانیوں کے ہاتھوں قید بھی رہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک روز احمدیہ مشن کے سامنے ایک جاپانی افسر موٹر سائیکل پر سے گر گیا تو حضرت مولوی صاحب نے اسکو طبی امداد پہنچائی اور اس کی یونٹ میں اطلاع کروائی۔ جس پر وہ خوش ہو کر انہیں راہداری کا پاس دے گیا جس سے آپ جزیروں میں آ جا سکتے تھے۔ چنانچہ آپ نے تجارت کے لئے دو کشتیاں تیار کروائیں جس سے آپ کو منافع بھی ہوا اور دعوت الی اللہ کے لئے نئی راہیں بھی نکل آئیں۔
مضمون نگار جب جاپانیوں کے ہاتھوں قید ہوئے تو حضرت مولوی صاحب ان کے اور ان کے ساتھیوں سے ملنے کے لئے جایا کرتے تھے اور ان سب کے لئے پارچات بھی لے کر جاتے رہے۔
حضرت مولوی صاحب بہت متقی، پرہیزگار اور صاحب رؤیا و کشوف تھے۔ ایک بار کسی غیرازجماعت افسر نے آپ کی غریبانہ حالت میں دعوت الی اللہ کے فرائض سرانجام دینے سے متاثر ہو کر مرکز سلسلہ میں اس کی اطلاع دی تو مرکز کی طرف سے الفضل میں اعلان شائع ہوا کہ سنگاپور جانے والے دوست مرکز کو اطلاع دے کر جائیں تا مولوی صاحب کے حالات سے باخبر رہ کر اُن کو ممکن امداد پہنچائی جاسکے۔
مضمون نگار جب قید سے رہائی کے بعد واپس آنے لگے تو مولوی صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں سلام بھیجا اور احمدیت کی ترقی کے لئے درخواست دعا کی۔ مضمون نگار واپس آکر مولوی صاحب کے گھر بھی گئے اور ان کی وہ بچی جسے وہ دو تین ماہ کی عمر میں چھوڑ کر گئے تھے اب تیرہ سال کی ہو چکی تھی۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
حضرت مولوی غلام حسین ایاز صاحب کے بھائی محترم مولوی غلام احمد فرخ صاحب کا ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27 ؍اپریل 1996ء کی اشاعت میں شامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ محترم ایاز صاحب کی ولادت 1903ء میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم کو 1891ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل ہوا تھا۔
محترم ایاز صاحب پرائمری کے بعد مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوئے اور پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کر کے زندگی وقف کر دی۔ 1935ء میں آپ کو سنگاپور بھیجا گیا جہاں سے 1950ء میں واپسی ہوئی۔ شدید مخالفت کے باعث وہاں بارہا آپ پر قاتلانہ حملے ہوئے اور شدید زخمی بھی کیا گیا۔ جب واپس تشریف لائے تو آپ نے پسند نہ کیا کہ دوست سٹیشن پر تشریف لا کر آپ کی خاطر تکلیف برداشت کریں چنانچہ اچانک ربوہ پہنچے اور سٹیشن سے سیدھے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد پہنچ گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں