حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ
حضرت مولوی محمد دین صاحب رضی اللہ عنہ 4؍دسمبر 1881ء کو لاہور میں پیدا ہوئے ۔ 1901ء میں آپؓ خطرناک طور پر بیمار ہو گئے اور ایک سال سے زیادہ عرصہ مختلف معالجوں سے علاج کروانے سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوا تو حضرت منشی تاج الدین صاحبؓ اکاؤنٹنٹ کے کہنے پرقادیان آگئے۔ قادیان پہنچ کر جب پہلے روز ہی حضرت مسیح موعودؑ کا چہرہ مبارک دیکھا تو دل نے گواہی دی کہ یہ مونہہ جھوٹے کا نہیں ہو سکتا۔ پھر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا درد بھرا حال کہا اور ناسور دکھایا تو حضرت مولوی صاحبؓ نے ناسور دیکھ کر سخت تشویش کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اب تو دوا سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے اور پھر آپؓ کو حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کرکے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے صرف اتنا کہا کہ خطرناک ہے۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضورؑ کا چہرہ ہمدردی سے بھرا ہوا تھا اور حضورؑ کے محبت آمیز کلمات نے آپؓ کو چشم پرآب کردیا اور آپؓ کی یہ حالت ہوگئی کہ زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکال سکے۔ چنانچہ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں اپنی بساط کو جانتا تھا، میری حالت یہ تھی کہ محض ایک لڑکا میلے اور پرانے وضع کے کپڑے ، چھوٹے درجہ چھوٹی قوم کا آدمی، میرے مونہہ سے لفظ نہ نکلا سوائے اس کے آنسو جاری ہوگئے‘‘۔ جب حضورؑ نے یہ فرمایا ’’میں تمہارے لئے دعا کروں گا، فکر مت کرو انشاء اللہ اچھے ہو جاؤگے‘‘ تو آپؓ مطمئن ہوگئے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے معمولی سا علاج شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے محض ایک مہینہ میں ہی آپؓ بالکل تندرست ہوگئے۔ اس طرح آپؓ کی خوش قسمتی آپؓ کو بیمار کرکے قادیان لے آئی اور 1901ء میں آپؓ نے قبولِ احمدیت کی سعادت حاصل کی۔ 1903ء میں آپؓ نقل مکانی کرکے مستقل قادیان آگئے۔
قادیان میں ہی قیام کے دوران آپؓ کو طاعون ہوگئی تو حضرت مسیح موعودؑ اپنے ہاتھوں سے دوا تیار کرکے آپؓ کو بھیجتے رہے۔ آپؓ کی بیماری کے دوران آپؓ کے والد آپؓ کو گھر لے جانے کے لئے قادیان آئے لیکن آپؓ نے ان کے ساتھ جانے کی بجائے قادیان میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو طاعون سے معجزانہ شفا عطا فرمائی۔
ستمبر 1907ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احباب جماعت کو زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ بھی اس تحریک پر لبیک کہنے والے اولین 13 ؍اصحاب میں شامل تھے۔ اس وقت آپؓ علی گڑھ کالج میں B.A. کے طالبعلم تھے۔
حضرت مولوی صاحبؓ 1914ء سے 1921ء تک تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہیڈماسٹر رہے۔ جنوری 1923ء سے دسمبر 1925ء تک امریکہ میں دعوت الی اللہ کی توفیق پائی اور پھر ایک طویل عرصہ تک تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر رہے۔ 1942ء سے 1947ء تک گرلز ہائی سکول قادیان کے ہیڈماسٹر بھی رہے۔ قیام پاکستان کے بعد لمبے عرصہ تک بطور ناظر تعلیم اور ’’ریویو آف ریلجنز‘‘ کے ایڈیٹر کے فرائض انجام دیئے۔ 65ء میں صدرانجمن احمدیہ کے صدر کے عہدہ جلیلہ پرآپؓ کا تقرر ہوا اورتا وقتِ وفات اسی عہدہ پر فائز رہے۔ 7؍مارچ 1983ء کو 102 سال کی عمر میں آپؓ وفات پاگئے۔ اس طرح آپؓ نے قریباً 76 سال تک خدمت کی توفیق پائی۔
آپؓ کے مختصر حالات زندگی مکرم مولانا عبدالباسط صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍جون 1997ء میں شاملِ اشاعت ہیں۔
محترم محمد ابراہیم جمونی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ انتہائی سادہ مزاج، تصنع سے پاک اور کفایت شعار مگر غریبوں کیلئے سخی انسان تھے۔ آپؓ کا اخلاق اور کردار بہت مضبوط تھا اور آپؓ بہت نڈر اور حق گو تھے۔ آپؓ کو حافظہ بھی کمال کا عطا ہوا تھا۔ آپؓ انگریزی زبان کے ماہر اور اتھارٹی تھے۔ چنانچہ حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے جب حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر تفسیرصغیر کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرنا شروع کیا تو حضرت چودھری صاحبؓ کی درخواست پر آپؓ کے ساتھ مدد کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ کو بھی لگایا گیا۔
حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ کی تعلیمی خدمات اتنی بھرپور ہیں کہ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقعہ پر آپؓ کی خدمات کو جماعت پر احسان قرار دیا۔ آپؓ کی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اورتابوت والی ٹرالی کو دیگر احباب کے ہمراہ کھینچ کر قبر تک پہنچایا اور تدفین کے بعد دعا کروائی۔ نیز حضور انور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں نہایت محبت سے حضرت مولوی صاحبؓ کاذکر خیر کرنے کے بعد فرمایا ’’…ایک محمد دین اگر آج ہم سے جدا ہوتا ہے تو خدا کرے کہ لاکھوں کروڑوں محمد دین پیدا ہوں۔‘‘