حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب
حضرت مولوی نذیر احمد صاحب علی کی وفات پر حضرت مولانا نذیر احمد صاحب مبشرنے جو مضمون لکھا وہ ایک پرانی اشاعت سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5 ؍مارچ 1997ء میں منقول ہے۔
آپ لکھتے ہیں کہ مولوی نذیر احمد علی صاحب 1936ء میں دوبارہ غانا کیلئے روانہ ہوئے تو میں بھی آپکے ہمراہ تھا۔ راستہ میں مولوی صاحب سخت بیمار ہوگئے۔ جہاز کے ڈاکٹر نے کہا کہ انہیں سِل ہے اور اس لئے نہ صرف جہاز میں الگ رکھا گیا بلکہ راستہ میں ہی مارسیلزمیں اتار دیا گیا۔آپ بہت نحیف ہوچکے تھے حتی کہ خود چل پھر بھی نہ سکتے تھے۔ میں انہیں لے کر ایک ہوٹل میں پہنچا۔ زبان سے ناواقفیت کی بنا پر بہت مشکل پیش آئی اور حیران تھا کہ علاج کیسے کرواؤں گا۔ اتفاقاً وہاں ایک مصری آگیا جو مولوی صاحب کا واقف تھا، وہ ہمیں ایک ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس نے بتایا کہ مولوی صاحب کو سِل نہیں ہے بلکہ اعصابی کمزوری ہے۔ چنانچہ چند روزہ علاج سے مولوی صاحب تندرست ہوگئے اور ہم دوبارہ عازم سفر ہوکر غانا پہنچے۔ چونکہ غانا میں اس وقت کوئی مرکزی مبلغ نہ تھا اس لئے جماعت کی مالی اور تربیتی حالت کو بہتر بنانے کے لئے حضرت مولوی صاحب کو بہت محنت کرنی پڑی ۔ 1937ء میں آپ نے سالٹ پانڈ میں احمدیہ مشن کا افتتاح کیا تو اس میں 3 ہزار احمدی شامل ہوئے۔ اکتوبر 1937ء میں آپ نے سیرالیون جاکر نئے مشن کی بنیاد رکھی اور 1944ء تک وہاں مقیم رہے۔ پھر چند سال مرکز میں گزار کر افریقہ بھجوائے گئے لیکن شدید بیماری کی وجہ سے 1950ء میں واپس بلالئے گئے۔ مئی 1954ء میں پھر سیرالیون بھجوائے گئے جہاں چند ماہ بعد شدید بیماری کے حملہ کے بعد انہوں نے وفات پائی اور سیرالیون میں ہی دفن ہوئے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے کئی بار اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میدان تبلیغ میںان کی وفات ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش پوری فرمادی۔