حضرت میاں خیردین صاحبؓ

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جنوری 2003ء میں حضرت میاں خیر دین صاحبؓ کے بارہ میں مکرم ظہور احمد مقبول صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت میاں صاحبؓ تقریباً 1869ء میں پیدا ہوئے اور 17؍مارچ 1949ء کو بعمر 80 سال وفات پائی۔ آپؓ کے والد حضرت میاں محمد صدیق صاحبؓ کا شمار حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے 313؍اصحاب میں کیا ہے۔ آپؓ کا آبائی وطن کشمیر میں موضع بھائج بالن ضلع اسلام آباد تھا۔ بعد میں آپؓ کے آباء و اجداد نے ہجرت کرکے قادیان سے چار میل کے فاصلہ پر سیکھواں میں رہائش اختیار کرلی۔ آپؓ کے چند قریبی رشتہ دار قادیان میں رہتے تھے اس لئے آپؓ اکثر قادیان آیا جایا کرتے تھے اور یوں حضورؑ سے بھی اکثر ملاقات ہوجاتی تھی۔ 23؍نومبر 1889ء کو آپؓ کو بیعت کی سعادت عطا ہوئی، رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپؓ کا نام 151ویں اور 313؍صحابہؓ کی فہرست میں آپؓ کا نام 31ویں نمبر پر درج ہے۔
بعثت سے قبل جب آپؓ قادیان جاتے اور حضورعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے تو چونکہ آپؓ کے ننھیال وہاں تھے اس لئے کھانا اُن کے ہاں سے کھاتے۔ ایک بار وہاں کسی عورت نے خواہ مخواہ یہ کہہ دیا کہ یہ آتے تو اُدھر (یعنی حضورؑ سے ملنے) ہیں اور کھانا یہاں کھاتے ہیں۔ اگلی دفعہ جب آپؓ حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؑ نے ازخود ارشاد فرمایا کہ جب قادیان آؤ تو کھانا ہمارے ہاں کھایا کرو۔ اس بات نے آپؓ کو خوش بھی کردیا اور حیران بھی۔
ایک دفعہ جب کھانے کا وقت آیا تو حضورؑ دیگر احباب کے ہمراہ گول کمرہ میں بیٹھے تھے۔ کھانے میں پلاؤ تھا۔ حضورؑ نے خود ایک رکابی پلاؤ کی زائد ڈال کر آپؓ کے آگے رکھ دی۔
جب حضورؑ نے حضرت عیسیٰؑ کے آثار کی تلاش میں ایک وفد کو نصیبینؔ بھجوانے کا ارادہ فرمایا تو اُس کے اخراجات کے لئے حضرت میاں خیر دین صاحبؓ اور آپؓ کے دونوں بھائیوں نے 50؍ روپے پیش کئے۔ منارۃالمسیح کی تعمیر کے لئے جب حضورؑ نے ایک ایک سو روپیہ طلب فرمایا تو آپؓ کی والدہ کی اس درخواست کو حضورؑ نے منظور فرمایا کہ مالی وسعت نہ ہونے کی وجہ سے والدہ اور تینوں بیٹے مل کر ایک سو روپیہ پیش کرسکتے ہیں۔ حضورؑ اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’مَیں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جمال دین اور خیردین اور امام الدین کشمیری، میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں۔ وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روزانہ مزدوری کرتے ہیں، سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں‘‘۔
حضرت میاں خیر دین صاحبؓ 17؍مارچ 1949ء کو مال گاڑی کے ڈبہ کی زد میں آکر شدید زخمی ہوگئے اور چند گھنٹے بعد وفات پائی۔ آپؓ کو امانتاً جہلم میں دفن کیا گیا اور 1960ء میں بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں