حضرت میاں عبدالرحمن صاحب بھیرویؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍ستمبر 2000ء میں حضرت میاں عبدالرحمن صاحب بھیروی ؓ کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون آپؓ کے پوتے مکرم محمود مجیب اصغر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت میاں صاحب 1874ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا آبائی گھر اُسی گلی میں تھا جہاں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا آبائی گھر بھی تھا۔ آپؓ کو حضورؓ کے گھر سے دودھ کا رشتہ بھی تھا۔ آپؓ کے والد حضرت میاں الہ دین صاحبؓ کو آپؓ سے ایک ماہ بعد قبول احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپؓ نے ابتدائی تعلیم بھیرہ میں ہی حاصل کی۔ حضرت سردار عبدالرحمن صاحبؓ (سابق مہرسنگھ) آپؓ کے بچپن کے دوست اور کلاس فیلو تھے۔ وہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے زیرکفالت تھے۔
حضرت میاں صاحبؓ کا تعلق ایک غریب گھرانہ سے تھا۔ والدین اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور بہت دیندار تھے۔ بھیرہ میں احمدیت کا پیغام پہنچا تو حضرت میاں صاحبؓ کا بچپن کا زمانہ تھا۔ اگرچہ آپ کے دل میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کا بے حد احترام تھا لیکن اپنے والد محترم کے ساتھ اختلاف کرکے آپ کو بیعت کرنا مشکل معلوم ہوتا تھا۔ 1898ء میں ایک مرتبہ آپ کو منڈی بہاؤالدین سے باہر جانا پڑا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچر پڑھنے کا موقع ملا اور آپؓ نے فوراً قادیان پہنچ کر شرح صدر سے بیعت کرلی۔ پھر قادیان سے ہی اپنے والد محترم کو خط میں اس کی اطلاع دی اور بیعت کرلینے کی دعوت دی۔ آپؓ کے والد کو خط پڑھ کر بہت افسوس ہوا اور وہ اس نیت سے قادیان روانہ ہوئے کہ حضرت مسیح موعودؑ سے اختلافی مسائل پر بحث کرکے اُنہیں اپنی دانست میں ہراکر پھر اپنے بیٹے کو اپنے ہمراہ لے آئیں گے۔ لیکن جب حضرت اقدسؑ کے چہرہ مبارک پر نظر پڑی تو دل پر ایک خاص اثر ہوا۔ پھر مغرب کی نماز کے بعد حضورؑ نے مسجد مبارک میں ایک تقریر فرمائی جس میں ان کے تمام اعتراضات کا جواب آگیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے آگے بڑھ کر فوراً بیعت کرلی۔ پھر دونوں باپ بیٹا واپس بھیرہ آئے اور دعوت الی اللہ شروع کردی۔ سارے خاندان نے جلد ہی قبول احمدیت کی سعادت پالی۔ حضرت میاں الہ دین صاحبؓ کی وفات 1905ء میں بھیرہ میں ہی ہوئی اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔
موجودہ مسجد نور بھیرہ دراصل حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا جدی مکان تھا اور اس سے متصل آپؓ کی ہی ایک آبائی مسجد تھی۔ جب مسجد کے مقتدیوں میں سے بعض نے احمدیت قبول کرلی تو پھر وہاں دو نمازیں علیحدہ علیحدہ ہونے لگیں تاہم اذان ایک ہی کافی سمجھی جاتی تھی۔ 1911ء میں احمدیوں کی نماز کے دوران ایک مخالف نے کوئی شرارت کی جس پر حضرت میاں عبدالرحمن صاحبؓ نے اُس سے کچھ سختی کی جس پر بڑا فساد برپا ہوا۔ جب حضورؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپؓ نے فرمایا کہ عبدالرحمن نے ٹھیک کیا ہے، غیرت کا یہی تقاضا تھا۔ نیز فرمایا کہ افسوس لوگ ہمیں اب اپنی مسجد میں بھی نماز نہیں پڑھنے دیتے۔ پھر حضورؓ نے اپنا جدی مکان جماعت کو دے دیا تاکہ اُسے مسجد کی شکل دے دی جائے۔
حضرت میاں صاحبؓ بھیرہ جماعت میں سیکرٹری مال بھی رہے۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا اور اس سلسلہ میں ایک اشتہار بھی شائع کرکے تقسیم کیا۔ خلافت ثانیہ کے قیام پر فوراً بیعت کرلی۔ عالم باعمل تھے۔ 1924ء میں آپؓ اپنی والدہ اور دو بھائیوں کے ساتھ حج کرنے مکہ گئے۔ حج کی ادائیگی کے بعد آپؓ کی والدہ محترمہ وہیں وفات پاگئیں اور وہیں تدفین ہوئی۔ اُن دنوں خانہ جنگی کی وجہ سے مکہ سے مدینہ کا راستہ بند تھا چنانچہ تینوں بھائی راستہ کھلنے کے انتظار میں جدہ میں مقیم ہوئے۔ چند دن کے بعد حضرت میاں صاحبؓ بیمار ہوئے اور وفات پاکر جدہ میں ہی دفن ہوئے۔