حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی اور انگلستان کے پہلے مبلغ حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ کا ذکر خیر مکرم مرزا محمد اقبال صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍اگست 1998ء میں شامل اشاعت ہے- آپؓ 1887ء میں جوڑا کلاں ضلع قصور کے ایک بڑے زمیندار حضرت چودھری نظام الدین صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئے- دونوں کو 1899ء میں قادیان جاکر قبول احمدیت کی سعادت عطا ہوئی- ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ قادیان آگئے جہاں سے دسویں تک تعلیم پائی، پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے B.A. اور علیگڑھ یونیورسٹی سے M.A. کی ڈگری حاصل کی- ابھی آپؓ F.A. میں زیر تعلیم تھے کہ زندگی وقف کرنے کی حضرت مسیح موعودؑ کی تحریک پر لبیک کہنے کی توفیق پائی اور حضرت اقدسؑ نے اپنے دست مبارک سے آپؓ کی درخواست پر ’’منظور‘‘ کا لفظ رقم فرمایا-
آپؓ کی شادی حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی ایک نواسی محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ سے ہوئی اور آپؓ کے ایک بیٹے محترم چودھری ناصر محمد سیال صاحب کا رشتہ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی صاحبزادی محترمہ امۃالجمیل صاحبہ کے ساتھ قائم ہوا-
حضرت چودھری صاحبؓ جب ایم-اے کرنے کے بعد قادیان آئے تو آپؓ کو جون 1913ء میں انگلستان جاکر بیرونی دنیا میں پہلا احمدیہ مشن قائم کرنے کی سعادت عطا ہوئی- اپریل 1918ء میں آپؓ واپس ہندوستان تشریف لائے اور 1919ء میں دوبارہ وہاں تشریف لے گئے اور مئی 1921ء تک مقیم رہے- اس دوران حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت کے مطابق آپؓ نے 1920ء میں مسجد فضل لندن کے لئے ایک قطعہ زمین بھی خریدا- آپؓ کو 1924ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ہمراہ تاریخی سفرِ یورپ پر جانے کا شرف بھی عطا ہوا-
حضرت چودھری صاحبؓ نے انگلستان سے واپس آنے کے بعد ملکانہ کے علاقہ میں امیرالمجاہدین کی حیثیت سے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے- آپؓ میںدعوت الی اللہ کا خاص جوش پایا جاتا تھا- آپؓ مجلس انصاراللہ کے دو سال تک صدر اور چار سال تک قائد تبلیغ بھی رہے- 1946ء میں آپؓ پنجاب اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے اور نمایاں خدمات سرانجام دیں- آپؓ نے مذہب کی تخصیص کے بغیر مظلوم کی ہمیشہ مدد کی- آپؓ بہت بہادر تھے- جب ایک موقع پر آپؓ مسلمانوں کے ایسے قافلہ کے پاس پہنچے جس پر سکھوں نے حملہ کیا تھا تو آپؓ نے نہ صرف بعض شرپسندوں کا پیچھا کرکے ایک مسلمان لڑکی بازیاب کی بلکہ خود قافلہ کے ساتھ بٹالہ تک گئے اور اُنہیں کیمپ میں چھوڑ کر واپس آئے- تقسیم ہند کے وقت آپؓ کو قادیان میں گرفتار کرلیا گیا-
آپؓ کی وفات پر حضرت مصلح موعودؓ نے بھی شاندار الفاظ میں آپؓ کی خدمات کو سراہا- حضرت مرزا بشیر احمد صاحب آپؓ کی دعوت الی اللہ کا جوش بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’بڑے مجاہد، نڈر اور بہادر مربی ہونے کے علاوہ تہجد گزار، نوافل کے پابند اور دعاؤں میں بہت شغف رکھنے والے بزرگ تھے- صاحبِ کشف و رؤیا بھی تھے‘‘-
حضرت چودھری صاحبؓ ظاہری تکلّفات سے عاری ہونے کی وجہ سے انتہائی محبوب اور مقبول تھے- آپؓ میں بدظنی کا مادہ بالکل نہیں تھا اور فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ آکر مجھے دھوکہ دے جاتے ہیں، میرا خیال اس طرف جاتا ہی نہیں کہ یہ شخص غلط بیانی بھی کرسکتا ہے-
آپؓ میں غیرت و حمیت کا مادہ اتم طور پر پایا جاتا تھا- جب گرفتاری کے دوران ایک افسر نے آپؓ سے کہا کہ اگر آپؓ ایک درخواست لکھ دیں تو آپؓ کو جیل میں اے-کلاس دے دی جائے گی تو آپؓ نے فرمایا کہ جس حکومت کو خود خیال نہیں اُس کے آگے میں درخواست کرنا اپنی غیرت کے خلاف سمجھتا ہوں-
حضرت چودھری صاحبؓ 28؍فروری 1960ء کو دفتر میں کام کرتے ہوئے حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگئے- اُس وقت آپؓ ناظر اصلاح و ارشاد کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے تھے- اُسی روز حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین کے بعد قبر تیار ہونے پر دعا کروائی-
آپؓ کی وفات کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنے ایک پیغام میں جماعت کے نوجوانوں کو یوں توجہ دلائی کہ’’ میرا دل ہر لحظہ اور ہر آن اس فکر و غم کا شکار ہو رہا ہے کہ چودھری صاحب کی موت کو تو ہم بالآخر رو رو کر بھلا دیں گے مگر اس خلا کو کس طرح پورا کیا جائے ان کے بعد دعوت الی اللہ کے میدان میں اس وقت ملک کے اندر بظاہر اس دھن اور لگن کا کوئی آدمی نظر نہیں آتا جو خدا کے فضل سے چودھری صاحب کو جنون کی حد تک حاصل تھا- … پس میں جماعت کے نوجوانوں کی خدمت میں بڑے دردمند دل کے ساتھ اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور اپنے اندر اشاعت اسلام کا جذبہ پیدا کریں جسے دنیا جنون قرار دیتی ہے مگر خدا کی نظر میں اس سے بڑھ کر کوئی فرزانگی نہیں‘‘-
حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی ایک اردو کلاس میں حضرت چودھری صاحبؓ کا نہایت محبت بھرا ذکر فرمایا- اس کلاس کی مختصر کارروائی مکرم حافظ عبدالحلیم صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ 11؍ستمبر 98ء میں شائع ہوئی ہے- حضور نے فرمایا کہ جس جگہ ہم بیٹھے ہوئے ہیں (یعنی مسجد فضل لندن کا احاطہ) اس کی خرید میں ان کی کوششوں کا دخل تھا-
اُن کو شوگر کی تکلیف تھی اور پرہیز کے قائل نہیں تھے- انہوں نے اپنے نسخے بنائے ہوئے تھے، اس میں اچھا میٹھا ڈال کے کھایا کرتے تھے مگر ویسے بڑی سخت جفاکش زندگی تھی-بہت قابل انسان مگر سادہ مزاج تھے-… امرودوں کا انہیں بہت شوق تھا چنانچہ جب مسجد کے لئے جگہ دیکھی- یہ باغ تھا تو حضرت مصلح موعودؓ نے وہاں سے وارننگ بھیج دی کہ سارے درخت کٹواکے امرود نہ لگوا لینا- اُن کا خیال تھا کہ یہ جگہ لندن سے بہت دور ہے تو حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں لندن اس کی طرف آ جائے گا- چنانچہ لندن اس طرف بڑھا اور بہترین علاقے یہاں کے لندن کے ہوگئے-
ملکانہ کے علاقے میں جب تحریک شدھی چلی تو حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت چودھری صاحبؓ کو اس تحریک کا مقابلہ کرنے کے لئے امیر بنایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کایا پلٹ گئی- اس پر فساد کے خیال سے صلح کروانے کی کاروائی شروع ہوئی اور مسلمانوں کے تمام فرقوں کے نمائندوں کو حکومت نے دلّی بلایا، احمدیوں کو جان کے نہیں بلایا- جب ہندوؤں نے دیکھا کہ کانفرنس میں احمدی ہیں ہی نہیں تو انہوں نے کہا کہ تم لوگوں سے تو ہم ڈرتے ہی نہیں، جن سے ہم ڈرتے ہیں وہ تو ہیں ہی نہیں یہاں- جب تک وہ صلح نہیں کریں گے ہماری صلح ہو ہی نہیں سکتی- چنانچہ پھر تار دے کر قادیان سے احمدی نمائندہ بلوایا گیا-
حضور نے مزید فرمایا کہ حضرت چودھری صاحبؓ پنجاب اسمبلی کے احمدی ممبر تھے- اتنی سادہ طبیعت تھی کہ اپنے بیٹے کی شلوار پہن کے اسمبلی ہال میں چلے گئے جو گھٹنوں تک آتی تھی- پہریداروں نے باہر روک لیا- چنانچہ وہاں کھڑے رہے- اتنے میں کوئی بڑا معزز زمیندار گزرا- اس نے چودھری صاحب کو دیکھتے ہی جھک کے سلام کیا- تب پہریدار نے بھی سیلوٹ (Salute) کیا- … ہر وقت منصوبہ بندی کرتے رہتے تھے، کوئی فلسفہ سوچوں میں رہتا تھا اور ارد گرد نظر ہی نہیں ہوتی تھی- ان کی بیٹی کی شادی ہوئی اور شادی کے بعد وہ پہلی دفعہ ملنے آئی- بڑی خوشی سے ملے اور کہا بہت اچھی دلہن ہو، یہ تو بتاؤ تم کس کی بیٹی ہو- اُس نے کہا اباجان آپ کی بیٹی ہوں- کہتے، بیوقوف پہلے کیوں نہیں بتایا-
لندن کے لئے ایک دفعہ جب روانہ ہوئے تو ایک پوٹلی میں سارے پیسے اور پاسپورٹ وغیرہ ڈال کر بٹالہ اسٹیشن پر ہی بھول گئے- خدا نے فضل کیا اور کسی کو پتہ لگ گیا تو پیچھے پیچھے ان کی پوٹلی پہنچی-
حضور انور نے حضرت چودھری صاحبؓ کے ساتھ اپنے تبلیغی سفر کے بعض واقعات بھی سنائے کہ کس طرح سارا دن بھوکے پیاسے سفر کرتے رہے اور باغیرت اتنے تھے کہ کسی سے کچھ نہیں مانگا- انداز سادہ تھا لیکن بات میں بڑا وزن ہوتا تھا چنانچہ جہاں جاتے خدا کے فضل سے بڑی بیعتیں ہوتی تھیں-