حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 4؍اگست 2007ء میں مکرم راجہ غالب احمد صاحب کے قلم سے، اُن کے مشاہدات کے حوالہ سے، حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
آپ لکھتے ہیں کہ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ سے خاکسار کی پہلی ذاتی ملاقات 1935ء میں ہوئی۔ میری عمر اس وقت سات سال کے قریب تھی۔ میں اپنے والد حضرت راجہ علی محمد صاحبؓ اور حضرت نواب محمد دین صاحبؓ کے ہمراہ حضرت چوہدری صاحبؓ کے دیدار سے مشرف ہوا۔ آپؓ نے والد صاحب سے سوال کیا کہ خاکسار کا نام کس نے رکھا؟ محترم والد صاحب نے کچھ جھجک کے ساتھ کہا کہ یہ نام میں نے ایک خواب کی بناء پر حضورؓ کی خدمت میں تجویز کیا تھا اور حضورؓ نے اسے منظور فرمالیا۔
اس واقعہ کے نو سال بعد 1944ء میں جب خاکسار تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کا طالب علم تھا اور بورڈنگ ہاؤس میں رہائش پذیر تھا۔ موسم سرما کی ایک دوپہر کو چند ہم عمر طلباء ایک کمرہ میں بیٹھے تھے حضرت چوہدری صاحبؓ اپنی مخصوص ترکی ٹوپی پہنے ہمارے کمرہ میں ایک مہمان کے ساتھ داخل ہوئے۔ پہلے اپنا اور مہمان کا تعارف کروایا اور پھر ہم سے فرداً فرداً نام پوچھنے لگے۔ خاکسار نے جب اپنا نام بتایا تو آپ نے فوراً کہا ’’آپ سے پہلے بھی ملاقات ہوچکی ہے لاہور میں آپ کے والد صاحب اور نواب محمد دین صاحب کے ساتھ‘‘۔ خاکسار کا آپؓ کی یادداشت کی غضبناکی کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ میرے اوسان خطا ہوگئے کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک وہ شخص جو دینی اور دنیاوی مصروفیات میں بے حد اور بے پناہ منہمک رہتا ہے وہ ایک سات سالہ بچے سے ملاقات کا واقعہ جس کو گزرے ہوئے بھی نو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اپنی ’’شعوری یادداشت‘‘ میں محفوظ رکھ سکا ہے اور بغیر یاد کروائے ازخود اسے روزمرہ کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔ یہ یادداشت ہی وہ نعمتِ خاص تھی جس سے آپؓ کی قوت شعوروتعقل اور استدلال وتدبر کی تشکیل وتعمیر ہوئی اور اسی نے آپؓ کی شخصیت کی تعمیر میں ایک بنیادی کردار ادا کیا۔
بہرحال تعارف کے بعد آپؓ ہم سے مخاطب ہوئے کہ آپ لوگوں نے ہمارے آنے پر کوئی چیز یہاں یکدم چھپا دی تھی۔ وہ کیا تھی؟ ہم سب حیران ہوئے کیونکہ ہم تازہ گاجریں کھا رہے تھے اور وہ گاجروں کا ’’تھبہ‘‘ ہم نے جلدی سے بستر میں چھپا دیا تھا۔ حضرت چوہدری صاحبؓ نے بستر کی تلاشی لی اور گاجریں برآمد کرکے فرمانے لگے کہ انہیں چھپانے کی تو کوئی ضرورت نہیں تھی، یہ تو آپ کی صحت کیلئے بہت اچھی ہیں اور پھر ہماری حوصلہ افزائی کے لئے ایک گاجر کا ٹکڑا توڑ کر خود کھایا اور ایک اپنے مہمان مسٹر وید کو دیا۔
اسی شام خاکسار نے محترم خلیل احمد ناصر صاحب سے حضرت چودھری صاحبؓ کی یادداشت پر اپنی حیرت کے اظہار کے ساتھ اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مسٹر وید کمیونسٹ ہیں، ان کو جماعت احمدیہ سے دلچسپی کس طرح پیدا ہوگئی؟ اگلے ہی روز نماز مغرب کے بعد مسجد میں ہی حضرت چوہدری صاحبؓ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: مسٹر وید کے قادیان آنے پر تمہیں حیرت کیوں ہے؟ تمہاری اس حیرت کا کل رات خلیل احمد ناصر صاحب نے ذکر کیا تھا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ تمہیں یہ بتا دوں ہم نے ہر ایک کو دعوت دینی ہے، اس میں کسی مفروضے کی بناء پر ایک طبقے سے پرہیز کرلینا واجب نہیں۔
اس واقعہ سے خاکسار نے اور بھی بہت سے سبق سیکھے۔ لیکن ایک شدید اثر دل اور دماغ پر یہ بھی تھا کہ ہمارے بزرگ ہم سے کس قدر محبت، شفقت اور اخلاص بھرا تعلق نہ صرف قائم کرتے ہیں بلکہ اس کو نبھانے کے لئے تردّد بھی کرنا پڑے تو کرتے ہیں۔ آپؓ نے میری ایک الجھن کو دُور کرنے کے لئے محض للہ تکلیف اٹھائی۔ ورنہ خاکسار کی بساط کیا تھی۔ جماعت نہم کا ایک حقیر سا طالب علم ہی تو تھا۔
جب حضرت چودھری صاحبؓ خاکسار سے گفتگو فرمارہے تھے تو وہاں حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ بھی تشریف لے آئے۔ حضرت چوہدری صاحبؓ نے خاکسار کا ازخود حضرت مولانا صاحب ؓ سے تعارف کروایا تو حضرت مولوی صاحبؓ کمال شفقت سے خاکسار سے بغلگیر ہوگئے۔ پھر مجھے فرمایا کہ اگر تم عشاء کی نماز تک مسجد مبارک میں ٹھہر سکتے ہو تو چند منٹ ہر روز عشاء کی نماز کے بعد مجھ سے ایک حدیث یاد کرلیا کرو اور اس حدیث کا سیاق و سباق بھی میں تمہیں بتا دیا کروں گا۔ دراصل یہ وہ ستارے تھے کہ جن وجودوں پر ان کی نگاہِ نور والتفات بظاہر حادثاتی طور پر پڑ جاتی تھی ان کی کایا پلٹ کاسلسلہ بھی اسی لمحہ شروع ہوجاتا تھا۔
1966ء میں خاکسار کے سب سے چھوٹے بھائی عزیزم کرنل راجہ باسط احمد صاحب کی شادی لاہور میں ہونا قرار پائی۔ حضرت چوہدری صاحبؓ لاہور تشریف لائے ہوئے تھے۔ محترم والد صاحب کے ارشاد پر آپؓ کو بھی دعوت نامہ بھجوادیا۔ میرا ارادہ تھا کہ خود جاکر دعوت دوں لیکن والد صاحب نے فرمایا کہ نہ جانے ان کی کیا مصروفیات ہوں اور تمہارے جانے سے شاید یہ تاثر پیدا ہو کہ ہم ہر رنگ میں ان کی شمولیت ضروری خیال کرتے ہیں اور کوئی صورت تکلف کی نکل آئے جس میں اُن کے لئے کسی قسم کی تکلیف کا پہلو ہو۔ تم یہ دعوت نامہ بذریعہ ڈاک بھجوا دو۔ خاکسار نے حسب ارشاد تعمیل کر دی۔ جس شام دعوت ولیمہ تھی اسی دن خاکسار کو حضرت چوہدری صاحبؓ نے فون کیا اور ارشاد فرمایا کہ میرے ساتھ ایک مہمان بھی ہوں گے جن کو آپ کی طرف سے شمولیت کی دعوت تو نہیں لیکن ان کو اس شام مَیں نے کھانے پر بلایا ہوا تھا، تو کیا میں انہیں اپنے ساتھ لاسکتا ہوں۔ میرے عرض کرنے پر کہ آپؓ کی شمولیت تو ہمارے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ آپؓ نے فرمایا: بہرحال اجازت لینا ضروری تھا۔
خاکسار کی بیٹی کی شادی پر خاکسار نے حضرت چوہدری صاحبؓ سے اجتماعی دعا کی درخواست بھی کی ہوئی تھی۔ اس شادی میں کسی حد تک غیر متوقع طور پر حضرت مسیح موعود ؑ کے ایک جلیل القدر پوتے نے بھی محض شفقت کرتے ہوئے شمولیت فرمائی۔ جب دعا کا موقعہ آیا تو خاکسار اس الجھن میں تھا کہ میں نے تو حضرت چوہدری صاحبؓ سے دعا کے لئے کہا ہوا تھا اور اب ایک نئی صورت در پیش ہے۔ کچھ دیر بعد حضرت چوہدری صاحبؓ نے از خود حضرت میاں صاحب کی طرف اشارہ کیا اور خاکسار کی الجھن کو بغیر کہے سنے نہایت حکیمانہ انداز میں دُور فرما دیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں