حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍جولائی 2004ء میں مکرم بشیر احمد رفیق صاحب کا ایک مضمون حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرۃ پر شائع ہوا ہے۔
حضرت چوہدری صاحب کی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس سے ریٹائرمنٹ کا ایمان افروز قصہ یوں ہے کہ 1972ء میں آپؓ کا نام بطور جج دوبارہ انتخاب کے لئے بھجوایا گیا تھا اور آپؓ کویقین تھا کہ آپ منتخب ہوجائیں گے کہ اچانک ایک دن آپؓ نے فون کیا اور مضمون نگار سے فرمایا کہ میں فوری طور پر لندن آرہا ہوں۔ لندن آکر آپؓ نے بتایا کہ مجھے تمام ججوں کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی جاچکی تھی کہ انتخاب میں مَیں یقیناکامیاب ہوجاؤں گا اور مزید 9 سال اس عہدہ پر فائز رہوں گا کہ مَیں نے ایک رات خواب میں حضرت مسیح موعود ؑ کو دیکھا۔ انہوں نے کمال شفقت سے فرمایا: ظفراللہ خان! اب دنیا کے ان جھنجٹوں کو چھوڑ کر بقیہ زندگی کلیتہً خدمتِ دین کے لئے وقف کردو۔ چنانچہ صبح اٹھ کر میں نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنا نام واپس لے لیا۔ اور فوراً اس لئے لندن چلا آیا کہ مباداجج صاحبان مجھے اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرنے کی کوشش کریں۔
اس طرح آپؓ نے ایک ایسے اعلیٰ عہدہ کو ٹھکرادیا جس کے حصول کے لئے لوگ کیا کچھ نہیں کرتے۔ آپؓ چاہتے تو خواب کی تعبیر کسی اور رنگ میں کر سکتے تھے لیکن آپ نے نہ تو دنیوی عہدہ کی پرواہ کی اور نہ اس بات کی پرواہ کی کہ مستقبل میں ذرائع آمدن کیا ہوں گے۔
حضرت چوہدری صاحبؓ کو اپنے وطن پاکستان سے بہت محبت تھی اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ ایک دفعہ فرمایا کہ 1947ء میں تقسیم ملک کے منصوبہ کا اعلان ہوگیا تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں فیڈرل کورٹ آف انڈیا سے علیحدہ ہوجاؤں ۔ چنانچہ اپنا استعفیٰ بھجوایا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں لاہور جا کر وکالت کے پیشہ سے منسلک ہو جاؤں گا۔ پنڈت نہرو نے مجھے ہندوستان میں رہ جانے کے لئے اعلیٰ عہدوں کی پیشکش بھی کی لیکن میں آمادہ نہ ہوا اور پاکستان جانے کی تیاری شروع کردی۔ انہی دنوں نواب سر حمید اللہ خان والیٔ بھوپال دہلی تشریف لائے تو انہوں نے مجھے دعوت دی کہ میں کچھ عرصہ کے لئے بطور مشیر اُن کے ساتھ بھوپال جاؤں۔ میں نے اُن کی شفقت کی وجہ سے ان کی پیشکش کوقبول کر لیا۔ ایک شام انہوں نے میری خدمات کے معاوضہ کی بات کی تو میں نے عرض کیا کہ میں کسی معاوضہ کے لالچ میں حاضرنہیں ہوا۔ آپ سے قریبی دوستانہ تعلقات اورتعلق اخوت ومحبت کی وجہ سے میں نے آپ کی پیشکش کو قبول کیا ہے۔ نواب صاحب نے فرمایا: میں نے اس معاملہ پر غور کیا ہے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی ماہوار تنخواہ 40ہزارروپے ہو گی۔ اس پر کوئی ٹیکس بھی نہیں ہو گا۔ نیز ہم نے آپ کی رہائش کے لئے اپنے محل کا ایک آرام دہ حصہ مخصوص کر لیا ہے۔ آپ اور آپ کی فیملی اور مہمانوں کا کھانا شاہی مطبخ (باورچی خانہ) میں تیار ہوا کرے گا۔ اور یہ سب سرکار کی طرف سے ہو گا۔ آپ کسی قسم کی ادائیگی نہیں کریں گے۔ اگلے دن چھ نہایت خوبصورت بڑی موٹریں اور باوردی ڈرائیور بھی میری تحویل میں دے دیں۔
کچھ عرصہ کے بعد قائد اعظم نے مجھے فرمایا کہ تم اب بھوپال سے اپنا تعلق ختم کر کے فوراً پاکستان آجاؤ، ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔ چنانچہ انہوں نے مجھے پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر کردیا۔ یہاں مجھے چار ہزار روپے ماہوار ملنے لگے۔ اس پر ٹیکس الگ تھا۔ شروع میں ایک ہوٹل میں دوکمروں میں قیام کرنا پڑا۔ ایک موٹر کار ملی۔ باوجود ان نامساعد حالات کے، مَیں نے پاکستان کی خدمت کا عزم کیا اور اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ مالی یا رہائشی پریشانیوں سے کیونکر نپٹا جائے گا۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سرخضر حیات خان ٹوانہ لندن تشریف لائے اور ایک ہوٹل میں جہاں وہ ہمیشہ قیام پذیر ہوتے تھے ٹھہر گئے۔ ایک دن حضرت چوہدری صاحب نے مجھے فرمایا کہ خضر حیات میرے پرانے دوستوں میں سے ہیں اور میری خواہش ہے کہ ان کی ملاقات کے لئے جاؤں۔ تم بھی میرے ساتھ چلو۔ چنانچہ ہم دونوں وقت مقررہ پر ہوٹل حاضر ہوگئے۔ سرخضر حیات کے پرائیویٹ سیکرٹری ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے۔ وہ ہمیں بذریعہ لفٹ اوپر کی منزل میں لے گئے۔یہ ساری منزل سر خضر حیات کے لئے بک کرائی گئی تھی۔ لفٹ پر بھی انہی کے آدمی تھے۔ سرخضر حیات ایک کمرہ میں تشریف فرما تھے۔ ہم حاضر ہوئے تو وہ اٹھ کر حضرت چوہدری صاحب سے بہت تپاک سے ملے۔ حضرت چوہدری صاحب نے میرا تعارف کرایا۔ سر خضر حیات نے دوران گفتگو بتایا کہ اگرچہ اس دفعہ ان کے اہل وعیال ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ پھر بھی جب بھی وہ لندن آتے ہیں تو یہ پورا ونگ ان کے لئے بک ہوتا ہے۔ وہ اپنا باورچی اور نوکر چاکر ساتھ لاتے ہیں۔ حضرت چوہدری صاحب نے فرمایا کہ جب آپ کو ایک پورے حصہ کی ضرورت نہیں تو پھر اس پر اتنی رقم ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تو خضر حیات صاحب نے فرمایا: چوہدری صاحب! ہم نے ساری زندگی ایسے گزاری ہے اور ہمیں دولت کے ضیاع پر کوئی افسوس بھی نہیں ہوتا۔ دولت تو اسی لئے ہے کہ آدمی آرام وآسائش سے رہے۔ اس کے بعد خضرحیات خانصاحب نے حضرت چوہدری صاحبؓ سے دریافت کیا کہ آپ کی رہائش کہاں ہے۔ حضرت چوہدری صاحب نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ لندن احمدیہ مشن ہاؤس میں ان کے ساتھ والے ایک کمرہ کے فلیٹ میں رہتا ہوں اور کھانا بھی ان کے ساتھ کھاتا ہوں۔ سر خضر حیات نے کہا: چوہدری صاحب! ایک بیڈ روم کے فلیٹ میں آپ کو گھبراہٹ نہیں ہوتی، مجھے تو اس کے تصور سے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ آپ کو خدا نے بہت کچھ دیا ہے۔ پھر اس طرح فقیری میں زندگی گزارنے کی کیا ضرورت ہے۔ حضرت چوہدری صاحب نے فرمایا: خضر! اس طرح زندگی گزارنے اور اپنی دولت غرباء اور مساکین پر خرچ کرنے میں جو لطف اور اطمینان قلب اور سکون مجھے نصیب ہے، کاش میں وہ بیان کر سکتا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے انتہائی پر سکون اور خوشیوں سے بھر پور زندگی سے نوازا ہے۔ مجھے کبھی ظاہری شان وشوکت کا خیال بھی نہیں آتا۔ پھر فرمایا: خضر! کاش تمہیں بھی یہ دولت جو فقر کی ہے نصیب ہوجائے تو پھر تم اس کو سمجھ سکو گے کہ اس میں کتنا لطف ہے۔
ایک دفعہ جب آپؓ پاکستان تشریف لے جانے لگے مجھے ارشاد فرمایا کہ کسی سستی ائیر لائن کا ٹکٹ خرید کر لاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو تو اعلیٰ ائیر لائن میں فرسٹ کلاس میں سفر کرنا چاہئے۔ آپؓ نے فرمایا: میرے فرسٹ کلاس میں نہ جانے سے مجھے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ میں زیادہ آسائش کا یوں بھی عادی نہیں ہوں۔لیکن جو رقم میں اس طرح بچا سکتا ہوں، وہ کئی طلباء ، غرباء اور بیوگان کے کام آسکتی ہے۔ چنانچہ مَیں نے ایک درمیانے درجہ کے ائیرلائن میں ٹکٹ خرید کر ان کو پیش کردیا۔ لیکن اپنی بے وقوفی سے دوبارہ کہا کہ آپ کو فرسٹ کلاس میں سفر کرنا چاہئے۔ آپؓ خاموش ہوگئے۔ اسی شام مجھے اچانک اُس ائیرلائن کے جنرل منیجر کا فون آیا اور پوچھا کہ تم نے جو سرظفر اللہ خان کیلئے اکانومی کلاس کا ٹکٹ خریدا ہے۔ کیا یہ وہی ظفر اللہ خان ہیں جو پاکستان کے وزیرخارجہ اور عالمی عدالت انصاف کے صدر تھے۔ میں نے کہا ہاں یہ وہی ہیں۔ اس نے کہا کہ وہ کل مجھے اور حضرت چوہدری صاحب کو ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے اگلے دن ان کیلئے چائے کا انتظام کیا۔ وہ تشریف لائے اور حضرت چوہدری صاحب کو مخاطب کرکے کہنے لگے کہ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ آپ ہماری ائیر لائن سے سفر کرنے والے ہیں تو میں نے فوراً اپنے ہیڈ آفس سے رابطہ کر کے ان کو بتایا کہ چوہدری صاحب ہماری ائیرلائن سے سفر کر رہے ہیں۔ مجھے ہیڈ آفس نے ہدایت کی ہے کہ جس دن آپ سفر کریں گے اس دن ہم فرسٹ کلاس کیلئے کسی مسافر کو نہیں لیں گے بلکہ پورا فرسٹ کلاس آپ کے لئے مخصوص ہوگا۔ ائیر پورٹ پر بھی ہم آپ کو V.I.Pلاؤنج میں ٹھہرائیں گے۔ جب یہ صاحب چلے گئے تو حضرت چوہدری صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کر جذباتی رنگ میں فرمایا: امام صاحب! آپ باربار کہہ رہے تھے کہ مجھے فرسٹ کلاس میں سفر کرنا چاہئے اور میں اس بات پر مصر تھا کہ میں اکانومی کلاس میں سفر کرکے بچی ہوئی رقم غرباء پر خرچ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس بحث ومباحثہ کو آسمان پر دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنی محبت کا اظہار یوں کیا کہ ظفر اللہ خان کو فرسٹ کلاس ہی میں بھجواؤں گا خواہ اس نے اکانومی ٹکٹ ہی لیا ہو۔ یہ بات کہتے وقت حضرت چوہدری صاحب کی آنکھوں میں نمی تھی۔