حضرت ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب ؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍جولائی 2011ء میں مکرم محمود مجیب اصغر صاحب کے قلم سے حضرت ماسٹر سردار عبدالرحمن صاحبؓ (سابق مہر سنگھ) اور اُن کے بیٹے حضرت ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحبؓ کا ذکرخیر شامل ہے۔

انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب

حضرت ماسٹر سردار عبدالرحمن صاحبؓ بہت بڑے داعی الی اللہ اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ احمدی ہونے کے بعد آپؓ نے اپنے والدین اور بھائیوں سے کہا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ ’اگر تم لوگ مسلمان ہوجاؤگے تو تمہاری اولاد آگے چلے گی ورنہ تمہاری نسل ختم ہو جائے گی اور اب میں اس خاندان کا نیا آدم ہوں‘۔ چنانچہ ان کے سب بھائی میّا سنگھ، گلاب سنگھ، پرتاب سنگھ لاولد فوت ہوگئے اور حضرت سردار عبدالرحمٰن مہرسنگھ کو خداتعالیٰ نے 6 بیٹے اور 7 بیٹیاں عطا فرمائیں۔
مہر سنگھ دس بارہ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعودؑ کے پاس پہنچے تو حضورؑنے آپؓ کو حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے سپرد کر دیا۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے ہی آپؓ کی کفالت فرمائی اور تربیت کی۔ اُن کا آبائی وطن بھیرہ تھا۔ چنانچہ پانچ سال کا عرصہ آپؓ نے بھیرہ میں گزارا اور وہیں سے میٹرک کیا۔ 313 صحابہ کی فہرست میں حضرت مسیح موعودؑ نے انہیں 255نمبر پر ’بھیرہ‘ میں شمار کیا ہے۔
خاکسار کے دادا حضرت میاں عبدالرحمن صاحبؓ کا تعلق بھی بھیرہ سے ہے۔ وہ حضرت ماسٹر سردار عبدالرحمن صاحبؓ کے ہم عمر اور کلاس فیلو تھے۔ بزرگوں کے اس دیرینہ تعلق کی وجہ سے خاکسار کا رشتہ حضرت ماسٹر صاحبؓ کی پوتی اور حضرت سردار نذیر احمد صاحب کی بیٹی سے ہوا۔
حضرت ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب کو خدمت دین، دعوت الی اللہ اور طب کے پیشہ کے ذریعہ بنی نوع انسان کی خدمت کا جنون تھا۔ ان کے ساتھ شروع سے ہی خارق عادت واقعات ہوتے رہے۔ 2؍ اکتوبر 1906ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ صاحبہ کو خواب میں پہلے ہی دکھایا گیا تھا کہ لڑکا ہوگا اس کا نام نذیر احمد رکھنا۔ ابھی وہ چند ماہ کے تھے کہ ان کی والدہ صاحبہ انہیں حضرت مسیح موعودؑ کے پاس لے گئیں اور خواب بھی سنائی۔ حضورؑ نے لڑکے کو گود میں لے کر پیار کیا اور فرمایا: ’’ایک نذیر تو دنیا سے سنبھالا نہیں جاتا ایک اور نذیر آگیا ہے‘‘۔
حضرت ماسٹر سردار عبدالرحمن صاحبؓ کا ارادہ تھا کہ اپنے بیٹے نذیر احمد کو B.A. کرائیں چنانچہ وہ F.A. پاس کرکے B.A. میں داخل ہوگئے۔ لیکن تب حضرت ماسٹر صاحبؓ کو خواب میں بتایا گیا کہ نذیر احمد کو ڈاکٹر بناؤ، وہ ڈاکٹر بن جائے گا۔ چنانچہ حضرت ماسٹر صاحبؓ کے کہنے پر انہوں نے کالج چھوڑا اور امرتسر میڈیکل کالج میں داخل ہونا چاہا لیکن گو F.A. میں اچھے نمبر آئے تھے تاہم میٹرک میں سیکنڈ ڈویژن تھی اس لئے داخلہ نہ مل سکا۔ پھر حضرت ماسٹر صاحبؓ کے کہنے پر وہ آگرہ کے میڈیکل کالج میں داخل ہونے کے لئے وہاں چلے گئے لیکن وہاں بھی داخلہ نہ ملا۔ انہوں نے اس صورتحال کی اطلاع اپنے گھر پر دی تو حضرت ماسٹر صاحبؓ نے انہیں لکھا کہ تم پروفیسروں سے ملتے رہو، اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوگا خواہ اس رنگ میں کہ کوئی لڑکا فوت ہو جائے یا کسی کو کالج سے نکال دیا جائے۔
چنانچہ آپؓ نے اپنے بزرگ والد کی اسی نصیحت پر عمل شروع کردیا اور اکثر پرنسپل سے دریافت کرنے لگے کہ کیا کوئی جگہ خالی ہوئی ہے؟ ایک دن پرنسپل نے آپؓ سے دریافت کیا کہ اب تم کیوں وقت ضائع کرتے ہو۔ اب تو و یٹنگ لسٹ کا بھی موقع نہیں رہا۔ تو آپ نے کہا کہ میرے والد صاحب کو خداتعالیٰ نے الہاماً بتایا ہے کہ مَیں ڈاکٹر بن جاؤں گا۔ پرنسپل نے حیران ہو کر پوچھا: کیا اس زمانہ میں بھی الہام ہوتا ہے؟
موسم گرما کی تعطیلات میں حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحبؓ نے ایک ماہ تبلیغ کے لئے وقف کیا اور سفر میں بھی دعا کرتے رہے کہ یا الٰہی میں تیرا کام کرتا ہوں تُو میرا کام کردے۔ اس سفر کے دوران موضع کریام (ضلع جالندھر) میں ظہر کی نماز میں کشفی حالت میں آپؓ کو آگرہ کا ایک ہندو لڑکا (سانولے رنگ کا) دکھایا گیا جسے پرنسپل نے کہا: ’’نکل جاؤ، ہم نہیں مانگتا‘‘۔ آپؓ نے حضرت حاجی غلام احمد صاحب امیر جماعت کریام سے یہ کشف بیان کردیا۔
اس کے دو تین روز بعد نذیر احمد صاحبؓ نے اطلاع دی کہ ایک ہندو لڑکا پرنسپل کے پاس سے گزرا۔ پرنسپل نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ اُس نے کہا کہ میں دوسہرے کی تعطیلات گزار کر گھر سے آیا ہوں۔ پرنسپل نے پوچھا کہ کیا سپرنٹنڈنٹ ہوسٹل سے اجازت لے کر گئے تھے؟ لڑکے نے کہا کہ چھٹیوں میں سب لڑکے چلے گئے تھے، مَیں کوئی قیدی تو نہیں تھا کہ اجازت لے کر جاتا۔ اس گستاخانہ جواب پر پرنسپل نے برافروختہ ہو کر وہی الفاظ دہرائے جو کشف میں بتائے گئے تھے اور یہ بھی کہا کہ پہلے تمہارا قصور نہ تھا لیکن اب قصور ہو گیا ہے۔
پھر پرنسپل نے (قریب کھڑے ہوئے) نذیر احمد صاحبؓ سے کہا کہ اگر آج تم ایک ہزار روپے کی ضمانت دے سکتے ہو تو تمہیں داخل کر لیا جائے گا۔
چنانچہ آپؓ ضمانت دے کر داخل ہوگئے حالانکہ اس وقت سہ ماہی امتحان ہو چکا تھا۔ تاہم دعا اور محنت سے آپ مسلسل تین سال تک سالانہ امتحانات میں اوّل آتے رہے۔ جب چوتھے سال کا فائنل امتحان ہوا تو اس میں پریکٹیکل کے 35 نمبر آپؓ کو ملے۔ آپؓ کو بڑی فکر ہوئی کہ اس طرح آپؓ اوّل آکر میڈل نہیں لے سکتے تھے۔ چنانچہ آپؓ نے اپنے والد حضرت ماسٹر صاحبؓ کو بڑی پریشانی کا خط لکھا۔ انہوں نے جواباً تحریر فرمایا:’’تم گھبراتے کیوں ہو، ہمارا خدا بڑا قادر ہے، ہم دعا کریں گے۔ کیا پتہ تمہارے مارکس 35کی بجائے 53 ہو جائیں اور تمہاری پوزیشن برقرار رہے‘‘۔ چنانچہ یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا اور لکھنے والوں نے غلطی سے 35کی بجائے 53 نمبر لکھ دئیے اور اس طرح حضرت سردار نذیر احمد صاحبؓ اوّل قرار پائے۔
ڈاکٹر بننے کے بعد حضرت سردار نذیر احمد صاحبؓ کو شاندار خدمات بجالانے کی توفیق ملی۔ 1935ء میں آپ کو حضرت مصلح موعودؓ نے اہل حبشہ کی خدمت کے لئے بھجوایا۔ اس وقت اٹلی اور حبشہ کے درمیان جنگ ہو رہی تھی۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ نے خلیفۂ وقت کی توقعات کے مطابق (ریڈکراس کے ذریعے) عین میدان جنگ میں طبّی خدمات سرانجام دیں اور ساتھ ہی غیر معمولی دعوت الی اللہ کی توفیق بھی پائی۔
ستمبر1936ء میں آپؓ فلسطین، مصر اور شام کی سیاحت اور ان علاقوں میں تبلیغ میں مصروف رہے۔ 1937ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر کینیا چلے گئے اور 1939ء تک وہاں قیام فرمایا۔ 1940ء میں حاجیوں کے ایک جہاز میں میڈیکل آفیسر مقرر ہوئے۔ اس دوران بمبئی، جدّہ اور کراچی کئی بار آنا جانا ہوا۔ نیز حج کرنے کی بھی توفیق ملی اور مکہ معظمہ ، عرفات، منیٰ ، مزدلفہ اور جدّہ میں تبلیغ کرتے رہے۔
1941ء میں حضرت ڈاکٹر صاحبؓ نے ڈلہوزی آکر پریکٹس شروع کردی۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر ایبے سینیا (حبشہ) کے بادشاہ ہیل سلاسی کو خط لکھاکہ جنگ کے دوران آپؓ کی خدمات کے عوض وہ آپؓ کو میڈیکل سروس میں لے لیں۔
1943ء میں آپؓ عدن چلے گئے اور ایک سال سرکاری ہسپتال میں سرو س کی اور خوب تبلیغ بھی کی۔
اگست 1944ء میں آپؓ دوبارہ حبشہ چلے گئے اور قائمقام سول سرجن لگ گئے۔ شاہ حبشہ ہیل سلاسی سے کئی بار آپؓ کی ملاقات بھی ہوئی۔ وہاں عام آدمی سے لے کر شاہی محل تک آپؓ نے احمدیت کا پیغام نہایت حکمت سے پہنچایا۔ 9 سال (1953ء تک) آپؓ نے حبشہ میں خوب کام کیا۔ اور پھر حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے ایک ماہ پاکستان میں گزار کر واپس حبشہ تشریف لے گئے۔ لیکن جولائی 1953ء میں پادریوں نے آپؓ کی تبلیغی سرگرمیوں کو دیکھ کر شکایت کی۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کو نیروبی (کینیا) چلے جانے کا ارشاد فرمایا۔ 1960ء تک آپ کینیا میں مقیم رہے۔
1960ء میں آپؓ یورپ تشریف لے گئے اور وہاں سے آنکھوں کے علاج میں مہارت حاصل کی۔ 1962ء میں قادیان اور پھر ربوہ میں جلسہ سالانہ پر حاضر ہوئے اور پھر واپس برطانیہ جاکر برمنگھم میں سرجری کھول لی۔ جرمنی میں بھی مقیم رہے۔ نو سال یہاں گزارنے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی نصرت جہاں سکیم پر لبّیک کہا اور پھر کئی سال تک سیرالیون اور گھانا میں خدمت کی توفیق پائی۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو لندن آگئے۔
1984ء میں آپؓ وقف عارضی کرکے سپین بھی گئے۔ 27دسمبر 1987ء کو لندن میںوفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ آپؓ نے اپنے پیچھے 5 بیٹے اور 4 بیٹیاں چھوڑیں جن میں سب سے بڑے بیٹے مکرم ڈاکٹر سردار حمید احمد صاحب برطانیہ میں نیشنل سیکرٹری تبلیغ ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے یکم جنوری 1988ء کو نماز جمعہ کے بعد حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے سلسلہ کے ایک بہت ہی مخلص فدائی کارکن ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب ابن سردار عبدالرحمن صاحب (مہر سنگھ) چند دن پہلے وفات پاگئے ہیں۔ انگلستان کی جماعت ہی صرف ان سے واقف نہیں بلکہ پرانے قادیان کے پروردہ سب احمدی ان کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں اور مختلف ممالک میں ان کو خدمت دین کی بڑی توفیق ملتی رہی۔ سادہ لوح، سادہ دل، بے نفس انسان جن کا ظاہر اور باطن ایک تھا۔ اس سے زیادہ میرے علم میں ان کی کوئی تعریف نہیں آ سکتی۔ سچے آدمی تھے جو ظاہر تھا وہی باطن تھا۔ نیک دل، نیک نفس، خدمت کرنے والے ، ہر قسم کے تکبر سے پاک تھے۔بہت اچھی طرح اپنے بزرگ باپ کی نیکیوں کو زندہ رکھنے کی عمر بھر کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کے نقش قدم پر چلائے اور ان کے دوسرے بھائیوں اور ان کی اولاد کو بھی اپنے بزرگ حضرت عبدالرحمن صاحبؓ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت ڈاکٹر نذیر احمد صاحبؓ کی اہلیہ اوّل مکرمہ غلام فاطمہ صاحبہ چکوال کے ایک قدیم اعوان احمدی گھرانے کے محترم ملک کرم دین صاحب مومن کی بیٹی تھیں۔ 16؍ دسمبر 1933ء کو شادی ہوئی۔ محلہ میں لجنہ کی سالہاسال محاصل رہیں۔ 22جنوری 1978ء کو لندن میں وفات پائی۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میںہوئی۔
حضرت سردار ڈاکٹر نذیر احمد صاحبؓ نے ایک شادی ایک جرمن خاتون سے بھی کی۔ وہ آپؓ کے ساتھ سیرالیون اور گھانا میں ہاتھ بٹاتی رہیں۔ اُن کا نام پہلے Juliane Koopmann تھا اور احمدی ہونے کے بعد جمیلہ کہلائیں۔ اور پھر ڈاکٹر صاحبؓ نے اُن کا نام خدیجہ رکھ دیا۔ انہیں خلافتِ رابعہ کے دوران دفتر پرائیویٹ سیکرٹری لندن میں مختلف خدمات کی سعادت ملتی رہی ہے۔ ان کے بارہ میں ایک مضمون یکم مارچ 2002ء کے شمارہ میں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں