حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍اگست 2005ء میں حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحبؓ کے خود نوشت حالات اور ایمان افراز واقعات شائع ہوئے ہیں۔
آپؓ ضلع لدھیانہ کے ایک گاؤں میں سید نبی بخش صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے میں نے پندرہ سولہ سال کی عمر میں کرتارپور میں حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق سنا تھا جب 1886ء میں شیخ مہر علی ہوشیارپوری کو ایک فوجداری مقدمہ میں پھانسی کی سزا ہوئی تھی تو کسی نے کہا کہ ایک برگزیدہ شخص نے دعا کے ذریعہ بتلایا ہے کہ ان کو پھانسی نہیں دی جائے گی۔ پھر لاہور میڈیکل سکول میں طالب علمی کے زمانہ 1891ء میں ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ اور ڈاکٹر عبد الحکیم مرتد سے ملنے کا اتفاق ہوا، مگر بیعت نہیں کی اور اکثر دفعہ حضرت اقدسؑ اور حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ لاہور تشریف لائے، لیکچر ہوئے مگر بدقسمتی سے مجھے سننے کا موقعہ نہیں ملا۔ البتہ مخالفت میں مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی بھوپڑی کے لیکچر سنے۔
1897ء میں مشرقی افریقہ جاتے ہوئے بمبئی میں حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کے بڑے بھائی ڈاکٹر رحمت علی صاحب ؓ سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ہم دونوں ایک ہی جہاز میں سوار ہوکر افریقہ گئے۔ تمام رستہ ان سے مباحثہ ہوتا رہا۔ آخر میں مان گیا مگر بیعت نہیں کی۔ اکثر عشاء اور تہجد میں دعائیں کرتا۔ کئی دفعہ خواب میں حضرت اقدسؑ کو بھی دیکھا۔ گو میں احمدی ہوچکا تھا، کوئی شک وشبہ نہ تھا مگر بیعت کو ضروری نہ سمجھتا تھا۔ آخر یکایک 1900ء میں اس زور سے تحریک ہوئی کہ نماز فجر پڑھنی مشکل ہوگئی۔ بعد نماز فجر بیعت کا خط حضرت اقدسؑ کی خدمت میں تحریر کردیا۔ اس کے جواب میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا خط قبولیت بیعت کا ملا۔ آخری فقرہ اس کا یہ تھا۔ ’’اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ آمین‘‘۔ تب سے باقاعدہ چندہ وغیرہ دینا شروع کیا۔ 1901ء فروری میں قادیان حاضرہو کر دستی بیعت کی۔
بیعت کے بعد میں پھر افریقہ چلا گیا۔ وہاں میاں محمد افضل صاحبؓ ایڈیٹر البدر اور ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحبؓ پہلے سے موجود تھے اور خوب دعوت الی اللہ کرتے تھے۔ ڈاکٹر رحمت علی صاحبؓ بھی انہی کی دعوت الی اللہ سے احمدی ہوئے تھے اور نہایت صالح اور متقی نوجوان تھے۔ ان کے ذریعہ کثرت سے لوگ احمدیت میں داخل ہوئے اور افریقہ کا چندہ نہایت معقول رقم ہوتی تھی۔ وہاں تنخواہ بہت کافی ملتی تھی۔ چنانچہ میں نے وہاں سے علاوہ پانچ روپے ماہوار کے یکصد منارۃ المسیح کے لئے اور یکصد ریویو آف ریلیجنز کے لئے بھجوائے۔ اکثر حضرت اقدسؑ کے لئے الگ رقم روانہ کرتا رہا۔ مگر احمدیت سے اچھی طرح واقفیت نہ ہونے کے باعث غیراحمدیوں سے اچھی طرح مباحثہ نہ کر سکتا تھا۔
نومبر 1903ء میں واپس انڈیا آیا اور بمعہ اہل و عیال سیدھا قادیان آگیا۔ اکتوبر 1904ء تک قادیان میں رہا۔ ان دنوں مولوی کرم دین بھین کا مقدمہ فوجداری چل رہا تھا اور تمام آریہ اور عیسائی اور غیراحمدی اس کی مدد کر رہے تھے۔ کچہری میں جب دو سال قبل کی پیشگوئی کے الفاظ (جوکہ مواہب الرحمٰن میں درج ہوچکی ہے۔ جس میں ایک شخص کو کہا گیا تھا کہ وہ کذاب، لیئم ہے ) پڑھے جاتے تھے تو عجب لطف آتا تھا۔
ستمبر 1904ء میں لیکچر لاہور اور نومبر 1904ء میں لیکچر سیالکوٹ میں شامل ہوا۔ اکتوبر 1904ء کے اخیر میں ملازم ہو کر پنڈی گھیپ چلا گیا۔ دسمبر 1905ء میں رسالہ الوصیت نکلا۔ جنوری 1906ء میں تیسرے حصہ جائیداد کی وصیت کی۔ بلکہ اسی وقت ایک ہزار روپیہ کے مکانات جو کہ مدرسہ احمدیہ کے شمالی جانب ہیں، وصیت میں دیدیے۔ اور چندہ ماہوار بتدریج اٹھارہ روپے ماہوار تک کر دیا۔ اور مہمان خانہ کے ملحق مکان رہائشی بغیر کرایہ اکثر مہمانوں یا سٹور کے کام آتا تھا۔ اکثر رخصت لے کر قادیان آیا کرتا تھا۔
دوران مقدمہ گورداسپور میں الہامات “عفت الدیار محلھا و مقامھا” اور “تزلزل درایوان کسریٰ فتاد” اور “ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت” وغیرہ میری موجودگی میں ہوئے تھے۔
حضور کی وفات سے قبل 18 مئی 1908ء میں لاہور کے جلسہ دعوت عمائدین لاہور میں شرکت کی۔ دوسرے دن وہاں سے رخصت ہوئے۔ میرے رخصت ہوتے وقت حضرت اقدس نے فرمایا: ’’جاؤ اللہ حافظ‘‘۔ میں نے کہا کہ حضور! میں تو اب بہت دُور چلا گیا ہوں یعنی الہ آباد۔ تو آپؑ نے فرمایا کہ دُور نزدیک کیا، ہمیں تو دعوت الی اللہ کرنی ہے۔
چند دن کے بعد حضور کے وصال کی خبر پڑھ کر بہت رنج ہوا۔