حضرت ڈاکٹر فیض قادرصاحبؓ کا قبول احمدیت
ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ ستمبر 2011ء میں حضرت ڈاکٹر فیض قادر صاحبؓ کی بیعت کا واقعہ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ کے قلم سے ’’اخبار الحکم‘‘ کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے (مرسلہ مکرم احمد طاہر مرزا صاحب)۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات سے قریباً تیس برس قبل یہ خبر دی تھی کہ تیری عمر اسّی برس یا چار پانچ کم یا چار پانچ سال زیادہ ہوگی۔ اور فرمایا کہ اگر تیری لوگ حفاظت نہ بھی کریں تو بھی خداتعالیٰ تجھے لوگوں سے بچائے گا اور وہ تجھے قتل نہ کرسکیں گے۔ اور صاف طور پر یہ وعدہ دیا گیا کہ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کہ مَیں تجھے طبعی موت دوں گا اور دنیا کی کوئی طاقت تجھے قتل نہیں کرسکے گی۔ چنانچہ دشمنوں نے آپؑ کے قتل کے منصوبے کیے لیکن اُن کی تمام تدبیریں خاک میں مل گئیں۔ اس طرح آپؑ کی طبعی وفات بھی آپؑ کی صداقت کی زبردست دلیل ٹھہری۔
حضرت ڈاکٹر فیض قادر صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ 1897ء میں مَیں ویٹرنری اسسٹنٹ تھا اور محمد بخش تھانیدار کے ہمراہ ایک کیس کی تحقیق کے لیے موضع کالواں میں گیا ہوا تھا۔ وہاں مَیں نے چند یکّے دیکھے جن میں لاہور اور امرتسر کے چند ہندو وکلاء اور بٹالہ کے مہاجن اور رئیس آئے ہوئے تھے۔ اُن کے جانے کے بعد مَیں نے کالواں کے نمبردار سے پوچھا کہ وہ لوگ کیوں آئے تھے۔ اُس نے ٹالنا چاہا لیکن میرے اصرار پر بتادیا کہ یہ لوگ کہہ رہے تھے کہ بقرعید کے دن قادیان کے مرزا کو قتل کردو تو پندرہ ہزار روپیہ جس کے پاس چاہو رکھوادیتے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ پھر کیا طَے کیا؟ اُس نے کہا دیکھا جائے گا۔ مَیں نے کہا کہ تم مرلہ مرلہ زمین اور ایک کھُرلی کے واسطے خون کردیتے ہو، مرزے کو قتل کیوں نہیں کردیتے۔ اُس نے پوچھا تم بھی اُس کے خلاف ہو؟ مَیں نے کہا کہ ہاں اُس نے فتنہ پھیلایا ہوا ہے۔
قریباً ڈیڑھ ماہ بعد بٹالہ میں نائب تحصیلدار نے مجھے ایک سبز اشتہار پڑھنے کے لیے دیا جس کا عنوان تھا: ’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘۔ لکھا تھا کہ مرزا بقرعید کے دن قتل کیا جائے گا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ کالواں والوں سے ضرور سمجھوتا ہوگیا ہے۔ مَیں نے غلام مصطفیٰ بٹالوی سے اس امر کا ذکر کیا اور کہا کہ بقرعید قادیان میں پڑھیں گے اور تماشا دیکھیں گے چاہے نماز ہو یا نہ ہو۔
جب ہم عید کے روز قادیان پہنچے تو لوگ پُل کے پاس بڑؔ کے درخت کے نیچے جمع ہورہے تھے۔ ہمارے ساتھ مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین تھے۔ مَیں لوگوں کی طرف دیکھتا تھا کہ کیا کوئی سکھ مارنے کے لیے آیا ہے؟ ایک بیس برس کا سکھ جس نے پیتل چڑھی لاٹھی پکڑی ہوئی تھی اور بدن پر تیل ملا ہوا تھا نظر آیا تو مَیں نے خیال کیا کہ شاید یہی مارے گا۔ مولوی نورالدین صاحبؓ نے نماز پڑھائی۔ مَیں سجدے سے اُٹھ اُٹھ کر دیکھتا تھا کہ شاید اب کوئی مارتا ہے مگر کسی نے نہ مارا۔ مولوی صاحبؓ نے سجدہ ذرا لمبا کیا تو مرزا امام الدین سجدہ میں ہی بول پڑا کہ سجدہ بہت لمبا کردیا ہے۔ مولوی صاحبؓ نے خطبہ دیا۔
جب حضرت صاحب واپس جانے لگے تو میرے دل میں خیال آیا کہ یہ شخص بزرگ ہے اس کے ساتھ مصافحہ کرنا چاہیے۔ مَیں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو مجھے ایسی خوشی ہوئی جو اَب تک پھر کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ مَیں نے محسوس کیا کہ گویا چاند دو ٹکڑے ہوکر میرے سینے میں آگیا ہے اور اسے منوّر کردیا ہے۔ مَیں مبہوت سا ہوکر وہیں کھڑا ہوگیا۔ جب ربودگی کی حالت دُور ہوئی تو مَیں گھوڑی کھولنے لگا کہ مفتی فضل الرحمٰن صاحبؓ آئے اور پوچھا کہ فیض قادر تم ہی ہو؟ مَیں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا کہ مولوی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ شاید آپ مرزا صاحب کا کھانا نہیں کھاؤگے (کیونکہ اُنہیں میری مخالفت کا علم تھا)۔ اس لیے آپ کھانامیرے ساتھ کھائیں۔ کھانے کے بعد میرے ساتھی مولوی غلام مصطفیٰ صاحب نے کہا کہ قربانی تو کل بھی ہوسکتی ہے، آج جمعہ کی نماز بھی یہاں پڑھتے جائیں۔ سنا ہے مولوی عبدالکریم صاحبؓ بہت اچھا قرآن پڑھتے ہیں۔ چنانچہ ہم بڑی مسجد چلے گئے۔
حضرت مسیح موعودؑ کچھ پہلے تشریف لے آئے۔ کسی نے عرض کیا کہ لاہور سے بعض لوگ بیعت کے لیے آئے ہیں اور آج ہی واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ نماز کے بعد بیعت لیں گے۔ نماز میں مولوی صاحبؓ کے قرآن پڑھنے کا بڑا اثر ہوا۔ جب جمعہ کے بعد حضرت صاحب بیعت لینے لگے تو مَیں تیسری یا چوتھی صف میں بیٹھا ہوا تھا۔ آواز آئی کہ تم بیعت کے لیے ہاتھ پکڑو۔ مَیں نے لاحول پڑھی۔ پھر آواز آئی۔ مَیں نے درودشریف پڑھنا شروع کیا۔ تیسری بار بہت زور سے آواز آئی تو مَیں نے ہاتھ پکڑ کر بیعت کرلی اور میرے ساتھی نے بھی۔
بیعت کے بعد حافظ عبدالرحمٰن صاحبؓ نے عرض کیا کہ بٹالہ میں جو بہت شور کرتا تھا اُس نے بھی آج بیعت کرلی۔ حضورؑ نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کہاں کے رہنے والے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: فیض اللہ چک کے۔ حضورؑ نے فرمایا: رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیں۔
جب ہم رات کو کھانے کے لیے بیٹھے تو مَیں روتا تھا اور بہت رویا۔ حضورؑ بار بار دیکھتے اور فرماتے: ڈاکٹر صاحب! کیوں روتے ہو؟ مَیں نے کہا حضور! آپ کے حق میں گستاخی سے سخت کلمات استعمال کرتا رہا ہوں۔ آپؑ نے مسکراکر فرمایا: وہ تو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیے۔ کیا آپ نے میرے ہاتھ پر بیعت کے وقت تین مرتبہ استغفار نہیں پڑھا! مَیں نے عرض کیا: خدا نے اپنے گناہ معاف کردیے ہیں، جو مَیں نے آپؑ کے گناہ کیے تھے وہ بھی آپؑ معاف کریں۔ تو آپؑ نے ہنس کر فرمایا کہ ہم نے معاف کردیے۔ پھر مَیں نے حضرت صاحب کے ساتھ کھانا کھایا۔
جب صبح کو بٹالہ پہنچے تو وہاں شور پڑگیا۔مَیں نے غلام مصطفیٰ سے اُن کی بیعت کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا: مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے قرآن کریم ہاتھ میں لے کر خطبہ میں مرزا صاحب کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ منجانب اللہ ہے۔ تو جب ہماری نماز، روزہ، قبلہ وغیرہ ایک ہی ہے تو پھر کیوں نہ مانیں۔ اگر خدا کی طرف سے ہے تو ہماری نمازوں وغیرہ کی پُرسش نہیں ہوگی۔ اگر خدا کی طرف سے نہیں تو اس کا وبال اُس پر ہوگا۔ ہم تو نماز وغیرہ وہی پڑھتے ہیں جو اسلام نے بتائی ہے۔
مَیں نے کہا کہ میری مثال تو ایسی ہے کہ آگ لینے کو گئے اور پیغمبر بن گئے۔ مَیں قتل دیکھنے کے لیے گیا اور آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوکر چلا آیا ہوں۔ …… پھر مَیں تمام مقدمات میں حضرت صاحب کے ساتھ رہا اور حتی الامکان خدمت کی۔