حضر ت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ اکتوبر2009ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ کا حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ کے بارہ میں ایک نامکمل مضمون شامل اشاعت ہے ۔
سچائی اور شفقت۔ بلاشبہ میرے نزدیک ان دو لفظوں میں آپؓ کی شخصیت سمٹتی ہوئی اور پھر نور کی کرنوں کی طرح سارے روحانی وجود پر پھیلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یہ دو صفات آپ کی ہر دوسری صفت پر حاوی تھیں۔ پاکیزہ مزاج۔ رطب ویابس سے مبرا ایسا صاف کلام جس میں کبھی لغو کا کوئی پہلو سنائی نہ دیتا تھا اور جو

لَایَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَلَاکذابًا

کا منظر پیش کرتا تھا۔ دوسروں کو تحمل سے سننا ور بڑے سکون اور وقار سے اس کا جواب دینا۔ تکلف سے پاک کلام۔ آپؓ کی باتوں میں مبالغہ نام کو بھی نہ تھا اور مداہنت سے آپ کی گفتگو کلیتہً نا آشنا تھی لیکن تعجب اس میں نہیں تعجب اس میں ہے کہ اس کے باوجود آپ کی صاف گوئی میں تلخی کا شائبہ تک نہ پایا جاتا تھا۔ بڑے بڑے صاف گو میں نے دیکھے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں دیکھا جس کی صف گوئی بارہا تلخی اور دلشکنی کی حدوں میں داخل نہ ہوجاتی ہو۔ بلکہ اکثر صاف گو تو اپنی سچائی کی جولانیاں دلآزادی کی سر زمین پر ہی دکھاتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ ان کی سچائی کا قدم لا تعداد دُکھے ہوئے دلوں کو مسلتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ کوئی غصیلا اور خشمگین ہی ہو تو اس کا لوگوں پر رعب پڑے بلکہ برعکس قصہ ہے۔ سچا رعب تو کسی شخصیت کو عظمتِ کردار کے ذریعہ عطا ہوتا ہے حضرت اماں جان کو اس رعب سے وافر حصہ ملا تھا۔ اور بچے آپ کے سامنے جا کر اپنی سب شوخیاں بھول جاتے تھے اور سراپا ادب ہوجاتے تھے۔ ایک دفعہ اپنے دو بھائیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے میں آگے آگے بھاگ رہا تھا اور وہ میرے پیچھے پیچھے مجھے پکڑنے کے لئے دوڑے چلے آرہے تھے۔ راستے میں حضرت اماں جانؓ کا صحن پڑتا تھا۔ دوڑتے ہوئے جب ہم صحن میں داخل ہوئے تو حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا برآمدے میں تشریف فرما تھیں۔ یہ سمجھ کر کہ وہ دونوں مجھے مارنے کے لئے پیچھا کر رہے ہیں، بلند آواز سے فرمایا خبردار! جو تم نے اس کو کچھ کہا۔ یہ آواز سنتے ہی وہ دونوں تو ہنستے ہوئے اُلٹے پاؤں لَوٹ گئے اور میں نے اپنے قدم روک لئے۔ جس پیار اور احترام کے رُعب کا میں ذکر کررہا ہوں یہ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ نہ اُن دونوں نے کچھ کہنے کی جرأت کی نہ میں نے ایک لفظ آگے سے کہا۔ خاموشی اور ادب کے ساتھ از خود وہی کچھ کیا جو اماں جان چاہتی تھیں۔ پھر میں حضرت اماں جانؓ کے بلانے پر آہستہ آہستہ آپ کے قریب پہنچا۔ آپؓ نے بڑے پیار سے فرمایا یہ لو چونی اور جا کر کچھ کھالو۔ اور یہ کہتے ہوئے ایک چاندی کی چمکتی ہوئی چونی میرے ہاتھ پر رکھ دی۔ دوسرے دونوں بھائی بھی ساتھ کے گھر سے یعنی حضرت امی جان ؓ (حضرت اُم ناصر) کے گھر سے سلاخوں میں سے جھانک رہے تھے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ میں اپنی طرف سے خوش خوش سیڑھیاں اتر کر بازار کی طرف بھاگنے لگا تو آگے وہ دونوں اس تبرک میں اپنا حصہ بٹانے کے لئے موجود۔ یہ چوّنی جس کی میں بات کر رہا ہوں اپنی قدرو منزلت کے لحاظ سے تو جو تھی وہ تھی ہی، اپنی ظاہری قیمت میں بھی وہ چوّنی نہ تھی جیسے ہم آج کی زبان میں چونی کہتے ہیں۔ اُن دنوں قادیان میں مزدور چھ آٹھ آنے روزانہ پر کام کرتا تھا۔ لیکن یہ تو ایک ضمنی بات ہے۔ اگر وہ چونی ایک دھیلے کے برابر بھی نہ ہوتی تب بھی پیار اور محبت اور شفقت کا وہ نشان میری یادوں کے ان لمحات کو ہمیشہ روشن اور درخشندہ رکھے گا۔
چونی کے ذکر میں ایک اور چونی کی بات یاد آگئی جس نے ایک اور دل میں اسی قسم کی ہل چل مچارکھی ہے۔ میری ہمشیرہ امتہ الباسط کے بچپن کے زمانہ کی ایک سکول کی ساتھی صفیہ بیگم سانگھڑ میں مقیم ہیں جہاں سالہا سال سے اُن کے میاں مکرم ڈاکٹر پیر فضل الرحمن صاحب پریکٹس کر رہے ہیں۔ اُن کے والد حضرت حافظ غلام رسول ؓ وزیر آبادی جماعت کی ایک معروف شخصیت ہیں۔ آپؓ وزیر آباد کے ایک کٹر اہل حدیث خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور احمدیت سے قبل علاقہ کے ایک مشہور اہلحدیث عالم تھے۔ احمدیت میں چونکہ مختلف فرقوں سے آکر سعید روحیں اکھٹی ہوتی ہیں اس لئے باوجود اس کے کہ وحدت کی ایک ہی لڑی میں پروئی جاتی ہیں لیکن ہر ایک اپنے پرانے فرقہ کی رنگ و بُو کی کچھ نہ کچھ چھاپ ضرور رکھتا ہے جو بسا اوقات رفتہ رفتہ احمدیت کے رنگ و بو میں سراپا ڈوب کر اپنا نشان کھو دیتی ہے۔ صفیہ بیگم نے اپنے اباجان کے متعلق یہ بیان کیا کہ ان پر بہت لمبے عرصہ تک اپنے سابقہ فرقے کے اثرات قائم رہے لہٰذا فقہی امور میں سخت متشدّد اور سخت رُو تھے یہاں تک کہ اپنے گھر میں بہو بیٹیوں کو چوڑیاں تک نہیں پہننے دیتے تھے۔ کہتی ہیں میں بہت چھوٹی تھی کہ میری ماں مجھے لے کر حضرت اماں جان ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ حضرت اماں جانؓ نے پوچھا یہ تمہارے ساتھ بیٹی ہے کہ بیٹا؟ میری اُمی نے عرض کیا کہ بیٹی ہے۔ حضرت اماں جانؓ نے فرمایا کہ نہ چوڑیاں نہ کوئی اَور زینت، بیٹیوں والی کوئی علامت تو پہناؤ۔ اُمی نے عرض کیا کہ میرے میاں چونکہ اہل حدیث میں سے آئے ہیں اس لئے سخت متشدّد ہیں اور گھر میں کسی کو بھی چوڑیاں پہننے کی اجازت نہیں۔ اس پر حضرت اماں جانؓ نے ایک چاندی کی چونی میری اماں کے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا: جانے سے پہلے بازار سے گزرتے ہوئے بیٹی کو چوڑیاں پہنا دینا اور میاں پوچھیں تو کہنا کہ اماں جانؓ نے پہنائی ہیں۔ صفیہ بیگم بیان کرتی ہیں کہ اُن دنوں چار آنے کی چوڑیوں سے کہنیوں تک دونوں ہاتھ بھر جاتے تھے۔ ہم جو اِس حال میں گھر لوٹے تو حضرت حافظ صاحبؓ نے کڑک کر پوچھا کہ یہ کیا ہے تو امی نے وہی کہا جو فرمایا گیا تھا۔ یہ سنتے ہی حافظ صاحبؓ کا غصہ رفو چکر ہوگیا اور سر اَدب سے جھک گیا اور پھر ساری زندگی کسی کو چوڑیاں پہننے سے نہ روکا۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں