خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 12؍ اگست 2005ء
آنحضرت ﷺکا ہر قول اور فعل تصنّع اور بناوٹ سے پاک تھا۔ آپ ؐ کی زندگی سادگی، مسکینی اور قناعت کا حسین نمونہ تھی۔ اور اسی کی آپ ؐ نے اپنی امّت کو تعلیم دی۔
(قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے حوالہ سے آنحضرت ؐ کی سیرت طیبہ سے سادگی،مسکینی اور قناعت پسندی کا دلربا تذکرہ)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 12؍ اگست 2005ء (12؍ ظہور 1384ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن۔ برطانیہ
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک حسین پہلو سادگی،مسکینی اور قناعت بھی تھا۔ جس کی آپؐ نے ہمیں تعلیم بھی دی اور اپنے عمل سے مثالیں بھی قائم فرمائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:آنحضرت ﷺ کی یہ شان ہے
وَمَااَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ (سورۃ ص: 87)
یعنی میں تکلف کرنے کا عادی نہیں ہوں۔ آپؐ کے قول کے ساتھ ساتھ آپؐ کا ہر فعل بھی تصنع اور بناوٹ سے پاک تھا، تکلف سے پاک تھا۔ ہر عمل میں سادگی بھری ہوئی تھی۔ اور تصنع اور تکلّف سے پاک زندگی کا اتنا اونچا معیار تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے یہ اعلا ن کروایا۔ اللہ تعالیٰ نے جو دلوں کو جانتا ہے، جس نے آپؐ کو مبعوث فرمایا، آپؐ پر شریعت اتاری، آپؐ سے یہ اعلان کروایا کہ دنیا کو بتا دو کہ میں تمام تر تکلفات سے پاک ہوں۔ میری زندگی میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو دنیا کی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان کو کبھی استعمال کرنے کی ضرورت ہو تو استعمال تو کرتا ہوں لیکن وہی زندگی کا مقصود و مطلوب نہیں ہیں بلکہ ان کا استعمال بھی اللہ تعالیٰ کے حکم تحدیث نعمت کی وجہ سے ہی ہے۔ اور اگر مجھے کوئی چیز پسندہے، اگر کوئی میری مرغوب چیز ہے، اگر میرا کوئی مطلوب و مقصود ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اللہ تعالیٰ کا پیار ہے۔ یہ دنیا کی چیزیں تو عارضی ٹھکانہ ہیں اور جہاں اپنے عمل سے ہمیں یہ دکھایا کہ یہ دنیاوی چیزیں میرا مقصد حیات نہیں ہیں وہاں یہ تعلیم بھی دی کہ دنیا کی آسائشیں اور نعمتیں تمہارے فائدہ کے لئے تو ہیں، ان سے فائدہ اٹھاؤ لیکن ان دنیاوی چیزوں کو ہی سب کچھ سمجھ نہ بیٹھو۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی چاہئے اور اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو سادگی اور قناعت ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بنتاہے۔ یہی چیزیں ہیں جو تمہیں خدا کا قرب دلانے کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن اگر تم دنیا کے آرام و آسائش کی تلاش میں پڑ گئے اور اس قدرپڑ گئے کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا بھی بھول گئے تو پھر آہستہ آہستہ یہی چیزیں تمہارا مطلوب و مقصود ہو جائیں گی اور مستقل طور پر اللہ تعالیٰ کی یاد آہستہ آہستہ دل سے نکل جائے گی۔ اس بارے میں قرآن کریم نے ہمیں متعدد جگہ پر نصیحت فرمائی۔حکم دیا ہے کہ دنیاکی چیزوں کوہی مقصود نہ سمجھو۔ جیساکہ فرماتاہے
وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ زَھْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔ لِنَفْتِنَھُمْ فِیْہِ۔ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی (طہ: 132)۔
اور اپنی آنکھیں اس عارضی متاع کی طرف نہ پسار جو ہم نے ان میں سے بعض گروہوں کو دنیاوی زندگی کی زینت کے طور پر عطا کی ہے تاکہ ہم اس میں ان کی آزمائش کریں۔ اور تیرے رب کا رزق بہت اچھا اور باقی رہنے والا ہے۔
پس فرمایا کہ اس دنیاوی رزق اور اس کے سامانوں کو سب کچھ نہ سمجھ لو۔ اور اس کو اتنی حسرت سے نہ دیکھو کہ پتہ نہیں یہ کتنی بڑی نعمت ہے۔ دنیا کی چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں یقینا نعمت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا اول طور پر پیش نظر رہے۔ ورنہ یہی نعمتیں اگراللہ سے دور لے جانے والی چیزیں بن جائیں تو وہ نعمت نہیں رہتیں بلکہ لعنت بن جاتی ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ تمہیں خداتعالیٰ کے رزق کو حاصل کرنے کی کوشش اور تلاش رہنی چاہئے۔اور پھر آگے اس کی وضاحت بھی فرما دی کہ وہ رزق کیاہے؟ اور یہ رزق اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا ہے اور اس کی عبادت کرنا ہے، اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ پس یہ وہ تعلیم تھی جس پر آنحضرت ﷺنے اپنے عمل سے اعلیٰ مثالیں قائم کیں اور اس کی اپنی امت کو نصیحت فرمائی، آپؐ کی سادگی اور دنیا کی جاہ و حشمت سے نفرت کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے آخری شرعی نبی بنا کر مبعو ث فرمایا اور آپؐ کی بعثت کے بعد سے شرعی نبوت کے تمام دروازے بند کر دئیے گئے لیکن اس عظیم اعزاز نے آپ میں کسی جاہ و جلال کا اظہار پیدا نہیں کیا۔ آپؐ کی زندگی میں تخت و حکومت کے اظہار نظر نہیں آتے بلکہ اس چیز نے آپؐ میں مزید مسکینی، سادگی اور قناعت پیدا کی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کا اور شریعت کا اور اس تعلیم کا جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر نازل فرمائی سب سے زیادہ فہم و ادراک آپؐ کو ہی تھا۔ اور ان حکموں پر عمل کرنے کے لئے آپؐ نے ہی اعلیٰ معیار قائم کرنے تھے، آپؐ نے ہی اسوہ قائم کرنا تھا جن پر چلنے کی آپؐ کی امت نے آپ کے ماننے والوں نے کوشش کرنی تھی اور کرنی چاہئے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی امت کو یہ سمجھانے والے تھے کہ وہ تعلیم کیا ہے جس پر تم نے عمل کرنا ہے۔ ایک جگہ قرآن کریم میں اسی بات کا یوں حکم آیا ہے کہ
وَمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا لَھْوٌوَّلَعِبٌ۔ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ۔ لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ (العنکبوت:65)
اور یہ دنیا کی زندگی غفلت اور کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں اور یقینا آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے۔ کاش کہ وہ جانتے۔
پس جس نے دوسروں کو یہ بتانا ہو، جس پر یہ تعلیم اتری ہو کہ دوسروں کو بتا دو، اپنی امت کو یہ بتا دو کہ یہ دنیا کھیل تماشا کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کی فکر کرو۔ ان دنیاوی چیزوں کو ضرورت کے لئے استعمال تو کرو لیکن مقصود نہ بناؤ۔ سادہ زندگی اور قناعت اور خدا کو اس کے نتیجے میں یاد کرنا یقینا فائدہ مند باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کوسمیٹنے والی ہیں۔ بجائے اس کے کہ تم دنیا کی کھیل کود میں پڑ کر دنیا کے آرام و آسائش میں وقت گزار دو۔ تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرو اور اس کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی گزارو۔ پس یہ تعلیم تھی جو آپؐ نے ہمیں دی اور جس نے یہ تعلیم ہمیں دی جس کا تقویٰ کا معیار بھی غیرمعمولی تھا، جو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی بھی تھا۔ تو دیکھیں انہوں نے اس اُسوہ کی، ان باتوں کی خود کتنی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہوں گی۔ آپؐ نے اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اس چیز کومدنظر رکھا۔ گھر میں بھی مسکینی اور سادگی کے سبق گھر والوں کو دئیے اور ایسے دئیے کہ جس سے گھر کے بچے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو لاڈلے نواسوں میں بھی کبھی یہ احساس پیدا نہ ہوا جو کہ آپؐ کے انتہائی لاڈلے تھے کہ ہم کسی ایسی ہستی کے نواسے ہیں کہ جس کے ماننے والے اس کے وضو کے پانی کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتے اس لئے ہم بھی ان لوگوں کے سامنے شہزادوں کی طر ح رہیں۔ آپ نے اپنے عمل سے اپنے بچوں میں بھی یہ بات راسخ کر دی کہ تمہاری زندگی میں سادگی اور مسکینی رہے گی تو اسی میں تمہاری بڑائی ہے۔
چنانچہ روایت میں آتا ہے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ ہم سے بعض لوگ جب محبت کا غیر ضروری حد تک اظہار کرتے تھے توہم کہا کرتے تھے کہ ہم سے بے شک محبت کرو مگر محض اسلامی محبت۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ مجھے میرے حق سے زیادہ بڑھا چڑھا کر نہ پیش کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بندہ پہلے بنایا اور رسول بعد میں۔ (مجمع الزوائد۔ کتاب علامات النبوۃ باب فی حسن خلقہ وحیائہ وحسن معاشرۃ جلد 9 صفحہ21)
پس یہ تھی وہ تربیت جو آپؐ نے اپنے عمل سے اپنے گھر والوں کی بھی کی۔ اپنے عمل سے یہ سمجھا دیا کہ میں اللہ کا ایک عاجز بند ہ ہوں اور اس بندگی کے اعلیٰ معیار نے ہی مجھے یہ قرب کا مقام عطا فرمایا ہے کہ تم لوگ بھی اس عاجزی، مسکینی اور سادگی کو اپنائے رکھو تو تمہیں بھی اللہ تعالیٰ قرب کے راستے دکھاتا رہے گا۔
ایک جگہ آپؐ نے فرمایا کہ میں نسل آدم کا سردار ہوں لیکن یہ کوئی فخر کی بات نہیں۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس بات کا ذکر فرمایا ہے (جوپہلے حدیث بیان کی گئی ہے) کہ مَیں اللہ کا بندہ پہلے ہوں، اس کا ایک اور روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا۔ کہ مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری تعریف و تعظیم میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم کے حق میں کیا۔ مَیں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں۔ اس لئے
فَقُوْلُوْا عَبْدُاللہِ وَرَسُوْلُہٗ
مجھے اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہنا۔ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء۔باب قول اللہ واذکرفی الکتب مریم)
آپ کی یہ عاجزی اور سادگی ہی تھی جس کی وجہ سے ناواقف نئے آنے والے لوگ جب آتے تھے اور آپؐ مجلس میں بیٹھے ہوتے تھے تو پہچان نہیں سکتے تھے کیونکہ سادہ اور بے تکلف مجلس ہوا کرتی تھی اور نیا آنے والا شناخت نہیں کر سکتا تھا۔چنانچہ ایسی ہی ایک مجلس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم شروع میں ہجرت فرما کر مدینہ پہنچے تو وہ دوپہر کا وقت تھا۔ دھوپ شدت کی تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے سائے میں تشریف فرما ہوئے۔ لوگ جوق در جوق آنے لگے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی تھے جو آپؐ کے ہم عمر ہی تھے۔ اہل مدینہ بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے اکثر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے قبل نہ دیکھا تھا۔ لوگ آپ کی طرف آنے لگے۔ حضرت ابوبکرؓ کی وجہ سے آپ کو نہ پہچانتے تھے۔ آپ اس قدر سادگی اور عاجزی کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ سب لوگ ابو بکر کو رسول اللہ سمجھنے لگے۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ محسوس کیا تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چادر سے سایہ کرنے لگے جس سے لوگوں نے جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں۔ (سیرۃ ابن ھشام۔باب منازل رسول اللہ ﷺ بالمدینۃ)
پھر ایک اور روایت میں آتا ہے کہ شریک بن عبداللہ بن ابونمر روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت انس بن مالکؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک بار ہم مسجدمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا تم میں سے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کون ہیں ؟۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا یہ گورے رنگ کے شخص جو تکیہ لگائے بیٹھے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تب وہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا :کیا آپ ؐ عبدالمطلب کے بیٹے ہیں ؟۔ آپ نے اس سے کہا ہاں مَیں ہی ہوں۔ وہ کہنے لگا (آگے پھر سوال شروع ہو گئے) کہ مَیں آپؐ سے پوچھنا چاہتا ہوں اور سختی سے پوچھوں گا کہ آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس طرح جی چاہے پوچھو۔ تب اس نے کہا، آپ کی سادگی کا ذکر ہو چکا ہے، آپ کے سوال و جواب کا ذکر بھی کر دیتا ہوں کہ آپؐ کو آپ ؐ کے ربّ اور اگلے لوگوں کے ربّ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو سب لوگوں کی طرف بھیجا ہے؟۔ آپ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم!پھر کہنے لگا میں آپ کو قسم دیتا ہوں، کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ رات اور دن میں پانچ نمازیں پڑھیں ؟ حضورؐ نے فرمایا ہاں۔ پھر اس نے کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر میں اس مہینے یعنی رمضان میں روزے رکھو؟۔ آپؐ نے فرمایا اللہ کی قسم ہاں۔ پھر کہنے لگا میں آپؐ کو قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوٰۃ لے کر ہمارے محتاجوں میں بانٹ دو؟۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم ایسے ہی ہے۔ وہ شخص کہنے لگا آپ جو تعلیم لے کر آئے ہیں میں اس پر ایمان لایا اور مَیں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہوئے بھیجا ہوا نمائندہ ہوں۔ میرا نام زمام بن ثعلبہ ہے اور میں بنو سعد بن بکر کا بھائی ہوں۔ (بخاری کتاب العلم باب القرأۃ والعرض علی المحد ث)
پھر آپؐ کا صحابہؓ کے ساتھ بے تکلف اور سادہ ماحول کا ایک اور روایت میں بھی ذکر ملتا ہے۔ روایات تو کئی ہیں۔ مَیں ایک اور روایت بیان کرتا ہوں جس سے آپؐ کی بے تکلفی اور سادگی کا وصف مزید نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ سفر میں تھے، راستہ میں کھانا تیار کرنے کا وقت آیا تو ہر ایک نے اپنے اپنے ذمہ کچھ کام لئے۔ کسی نے بکری ذبح کرنے کا کام لیا، کسی نے کھال اتارنے کا، کسی نے کھانا پکانے کا۔تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جنگل سے لکڑیاں لے کر آؤں گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ ہم کافی ہیں، ہم لے آتے ہیں۔ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا: مَیں جانتا ہوں لیکن مَیں یہ امتیاز پسند نہیں کرتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کو ناپسند کرتا ہے جو اپنے ساتھیوں میں امتیازی شان کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہو۔ (شرح المواھب اللدنیہ للزرقانی۔ الجزء 4صفحہ 265مطبع الازھر مصر1328ھجری)
یہ سادگی اور بے نفسی کے اظہار کسی دکھاوے کے لئے نہ تھے بلکہ بے اختیار تھے اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے تھے،اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی جو تعلیم تھی اس میں عمل دکھانے کے لئے تھے۔ پھر جس طرح پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ صحابہؓ کے ساتھ عام کام سر انجام دیا کرتے تھے اسی طرح جنگ احزاب کے موقع پر ایک عام آدمی کی طرح، ایک عام سپاہی کی طرح آپؐ نے کام کیا جس کا روایت میں یوں ذ کرآتا ہے۔
حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ احزاب میں خندق کھودنے کے دوران ایک جگہ سے دوسری جگہ مٹی لے جاتے ہوئے دیکھا اور مٹی نے آپؐ کی پیٹ کی سفیدی کو ڈھانپ لیا تھا۔ یعنی کام کر کرکے مٹی بھی گر رہی ہو گی تو مسلمانوں کی تعداد کم تھی ایک ایک آدمی کی بڑی اہمیت تھی، کام کی زیادتی بھی تھی ایک تو یہ کہ آپؐ کی طبیعت میں یہ تھا کہ عام مسلمانوں کی طرح مَیں بھی ہر کام میں حصہ لوں۔ دوسرے اس وقت میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ آپ پیچھے رہتے کہ صرف نگرانی کریں۔ بلکہ آپؐ نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ سارے کام سر انجام دئیے۔
پھر سادہ زندگی اور قناعت کی طرف اپنے بچوں کو بھی توجہ دلاتے رہتے تھے۔ ایک تو پہلے اس امر پہ ایک حدیث بیان کی گئی کہ کس طرح اس کا بچوں پہ اثر ہوا۔ ایک اس حدیث میں آپؐ نے براہ راست نصیحت فرمائی اور نصیحت بھی اپنی انتہائی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہؓ کو فرمائی۔ اس کا روایت میں یوں ذ کر آتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف ہو گئی اور ان دنو ں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور ؐ کے پاس گئیں لیکن آپؐ کو وہاں نہ پایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملیں اور آنے کی وجہ بتائی۔جب حضور ؐ باہر سے تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کا ذکر کیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر آئے، رات کا وقت تھا، کہتے ہیں کہ ہم بستروں پرلیٹ چکے تھے تو حضورؐ کے تشریف لانے پر ہم اٹھنے لگے تو آپؐ نے فرمایا نہیں لیٹے رہو۔ پھر آپؐ ہمارے درمیان تشریف فرما ہوئے۔ کہتے ہیں کہ یہاں تک کہ حضور کے قدموں کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہارے سوال سے بہتر چیز نہ بتاؤں ؟ جب تم بستروں پر لیٹنے لگو تو 34دفعہ اللہ اکبر کہو، 33بار سبحان اللہ اور 33بار الحمدللہ کہو۔ یہ تمہارے لئے نوکر سے بہتر ہے، ملازمین رکھنے سے بہتر ہے۔ (مسلم کتاب الذکر باب التسبیح اول النھاروعند النوم)
آپؐ نے اپنی لاڈلی بیٹی کے ہاتھ کے زخموں کو دیکھ کر باپ کی شفقت اور پیار سے مغلوب ہو کر ان کی اس وقت کی وہ ضرورت پوری نہیں کی۔ بلکہ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے کہ یہ دنیا کی چیزیں عارضی فائدے کی چیزیں ہیں اور تم جس کا میرے ساتھ خونی رشتہ بھی ہے اس وجہ سے سب سے زیادہ قرب کا رشتہ بھی ہے، روحانی رشتہ بھی ہے خونی رشتہ بھی ہے تو تمہاری بھلائی کے لئے یہ میں کہتا ہوں کہ ان دنیاوی آسائشوں پر نظر نہ رکھو بلکہ سادگی اور قناعت کو اختیار کرو۔ تمہارے ہاتھوں کے یہ زخم اللہ تعالیٰ کو پیارے ہیں۔ اللہ کے فضلوں کو مزید سمیٹنے کے لئے اس طرح سادہ زندگی بسر کرو، اپنے کام کو ہاتھ سے کرو اور اس کے ساتھ ساتھ تکبیر، تسبیح اورتحمید جو بتائی ہے وہ کرو۔ یہ زیادہ بہتر ہے اور اللہ کا قرب دلانے والی چیز ہے اُس کی نسبت جس کا تم مطالبہ کر رہی ہو یعنی ایک غلام کا۔ ویسے بھی اس وقت اور بھی ضرورت مند تھے ان کو شائد ان سہولتوں ان غلاموں کی زیادہ ضرورت ہو۔ آپ ہر قسم کے اسوہ کی مثالیں اپنی ذات اور اپنے گھر سے قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ چیزیں اپنے لئے نہ لو بلکہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور عبادت کی طرف تمہیں نظر رکھنی چاہئے۔ اور وہی دنیا و آخرت میں تمہارا بہترین سرمایہ ہوگی۔
اور حضرت فاطمہؓ کے ضمن میں اسی سادگی کی مثال ایک اور دے دوں کہ جب حضرت فاطمہؓ کی شادی ہوئی ہے انتہائی سادہ شاد ی تھی۔ جہیز میں آپؐ نے جو چیز یں حضرت فاطمہؓ کو دیں ان میں ایک ریشمی چادر تھی اور ایک چمڑے کا گدیلا تھا جس میں کھجور کے پتے یا ریشے بھرے ہوئے تھے۔ آٹا پیسنے کی ایک چکی تھی، ایک مشکیزہ تھا اور دو گھڑے تھے۔کُل یہ جہیز تھا جو آپؐ نے دیا۔ اور اس طرح سادگی کی اعلیٰ مثال قائم کی، ان کو بھی بتایا کہ سادہ رہو اور قناعت کرنے کی عادت ڈالو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے اندر سادہ ماحول کا نقشہ ایک حدیث کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یوں بیان فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ:
’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمتع دنیاوی کا یہ حال تھا‘‘ یعنی دنیاوی چیزوں اور مال کا ’’کہ ایک بار حضرت عمرؓ آپؐ سے ملنے گئے، ایک لڑکا بھیج کر اجازت چاہی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ جب حضرت عمرؓ ؓ اندر آئے تو آپؐ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ مکان سب خالی پڑاہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے۔ ایک کھونٹی پر تلوارلٹک رہی ہے یا وہ چٹائی ہے جس پر آپؐ لیٹے ہوئے تھے اور جس کے نشان اسی طرح آپؐ کی پشت مبارک پر بنے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ ان کو دیکھ کر رو پڑے۔ آپؐ نے پوچھا: اے عمر! تجھ کو کس چیز نے رُلایا؟۔(حضرت) عمرؓ نے عرض کی کہ کسریٰ اور قیصر تو تنعّم کے اسباب رکھیں ‘‘ یعنی ان کے پاس ہرقسم کی چیزیں اور نعمتیں موجود ہیں ’’اور آپ جو خداتعالیٰ کے رسول اور دو جہان کے بادشاہ ہیں اس حال میں رہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر! مجھے دنیا سے کیا غرض؟مَیں تو اس مسافر کی طرح گزارہ کرتا ہوں جو اونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہو۔ ریگستان کا راستہ ہو اور گرمی کی شدت کی وجہ سے کوئی درخت دیکھ کر اس کے سایہ میں سستا لے اور جونہی کہ ذرا پسینہ خشک ہوا ہو وہ چل پڑے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ51 جدید ایڈیشن)
تو یہ ہے نقشہ جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حدیث کا بیان فرمایا ہے۔ اور فرمایا کہ نبی اور رسول جو ہیں وہ آخرت کو ہی ہمیشہ مدنظر رکھتے ہیں۔
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آپؐ کی اس حالت کو دیکھ کر صحابہؓ نے کہا کہ ہم آپؐ کے لئے گدیلا بنا دیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ مجھے دنیا سے کیا غرض۔ بعض روایات میں گدیلے کے استعمال کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس لئے غلط فہمی نہ ہو جائے کہ گدیلا کبھی استعمال نہیں کیا لیکن وہ گدیلا بھی اتنا سخت اور کھجور کے پتوں یا اس کے ریشے کا ہوتا تھا کہ وہ چٹائی کی طرح ہی جسم پہ نشان ڈال دیا کرتا تھا۔ آپ کا اصل مقصد تو یہی تھا کہ دنیاوی چیزیں مجھے اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ اس لئے آپ زیادہ آسائش اور سہولت والی چیزیں زیادہ استعمال نہیں کرتے تھے۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے اس کھجور کے پتوں کے گدیلے پر ایک چادر چار تہیں کرکے بچھا دی۔ اس دن آپ تہجد کے لئے نہ اٹھ سکے تو آپ نے پوچھا آج بستر کچھ بدلا ہوا ہے،کیا وجہ ہے؟ تو حضرت عائشہؓ نے عرض کی کہ ہاں ایک چادر کی چار تہیں کرکے بچھا دی تھی تاکہ کھجور کے پتے آپ کو نہ چبھیں ،جو ریشہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا اس کو اٹھا دو اس وجہ سے آج مجھے دیر سے جاگ آئی ہے اور مَیں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میرا کوئی دم اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہو۔
ایک دفعہ آپؐ کے لئے ایک لباس آیا جس پر عمدہ نقش و نگار تھے، اچھا پرنٹ تھا۔ آپ نے اس پر غور نہیں کیا اور اسی طرح سادگی میں پہنا اور نماز کے لئے چلے گئے۔ نماز پڑھنے کے دوران آپ کی نظر اس پر پڑی تو نماز پڑھ کر جب گھر تشریف لائے تو اس کو اتار دیا اور حضرت عائشہؓ سے فرمایا یہ لباس فلاں کو بھیج دو اورمیرے لئے تو سادہ کپڑے کا لباس مہیا کرو۔ مَیں ایسا لباس نہیں پہن سکتا جو مجھے اللہ کی یاد سے غافل کرے۔
اس لئے جو لوگ نماز کے دوران اپنے لباس کی فکر میں رہتے ہیں ان کے لئے بھی اس میں اُسوہ ہے، نمونہ ہے کہ ایسا لباس پہننا ہی نہیں چاہئے جو نماز سے توجہ ہٹائے اور بجائے نماز کی طرف توجہ کے لباس کی طرف توجہ رہے۔
پھر سادگی کی ایک اور مثال، اگر کوئی غریب آدمی بھی آپ کو دعوت پر بلاتا تو آپ ضرور جاتے اور غریب کے تحفے کی بھی قدر کرتے۔ چنانچہ آپؐ فرمایا کرتے تھے، ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا کہ اگر مجھے بکری کے پائے کی دعوت پر بھی بلایا جائے تو میں دعوت پر جاؤں گا۔ اور اگر مجھے بکری کا پایہ کوئی تحفہ میں دیا جائے تو مَیں اسے قبول کروں گا۔(بخاری کتاب النکاح باب من اجاب الی کراعٍ)
یہ بات آپؐ کی غریبوں اور مسکینوں سے محبت کا بھی اظہار کرتی ہے اور یہ محبت اس لئے بھی تھی کہ خداتعالیٰ بھی غریبوں اور مسکینوں سے محبت کرتا ہے۔ اس لئے آپؐ یہ دعا بھی کیا کرتے تھے کہ مجھے بھی یہ مسکینی کی حالت نصیب ہو۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ:
اے اللہ ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مجھے مسکینی کی حالت میں وفات دینا اور قیامت کے دن مساکین کے گروہ میں سے مجھے اٹھانا۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ایسی دعا کیوں کرتے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا کیونکہ مساکین امیر لوگوں سے چالیس سال قبل جنت میں داخل ہوں گے۔ اس لئے اے عائشہ ! تو مسکین کو نہ دھکتار خواہ تجھے کھجور کا ٹکڑہ ہی دینا پڑے۔ اور مساکین سے محبت رکھ اور انہیں اپنے قریب رکھ، اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں تجھے قیامت کے روز اپنا قرب عطا فرمائے گا۔(سنن الترمذی کتاب الزھد عن رسول اللہ۔ باب ما جاء عن فقراء المہاجرین)
پس جہاں اپنے عمل سے مسکینوں سے محبت کے آپؐ نے اعلیٰ معیار آپؐ نے قائم فرمائے، اُمّت کو بھی یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے ضروری ہے کہ تم مساکین سے بھی محبت رکھو، غریب کا بھی خیال رکھو۔
ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہؓ بن ابی اوفٰی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے ذکر کرتے اور لغو سے بچتے تھے۔ نماز نسبتاً لمبی پڑھاتے تھے اور خطبہ چھوٹا دیتے اور تکبر نہ کرتے اور بیوگان اور مساکین کے ساتھ چل کر ان کی حاجات کو پورا کرنے میں عار محسوس نہ کرتے۔(سنن الدارمی۔ مقدمہ۔باب فی تواضع رسول اللہ ﷺ)
پھر اس کمزور اور غریب طبقے کے اللہ کے نزدیک مقام کے بارے میں آپؐ ایک جگہ فرماتے ہیں۔ حضرت حارثہؓ بن وہب روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ کیامَیں تمہیں جنت والوں کی اطلاع نہ دوں۔ صحابہؓ نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر کمزور قرار دئیے جانے والا اگر وہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھا لے تو اللہ تعالیٰ اس کی لاج رکھتا ہے۔ یعنی اس کی قسم کو پورا فرما دیتا ہے۔ پھر فرمایا کہ کیا مَیں تم کو آگ والوں کی خبر نہ دوں۔ صحابہؓ نے عرض کی کیوں نہیں ؟ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر سر کش، درشت مزاج، متکبر، آگ والا ہے۔ (مسلم کتاب الجنۃ ونعیمھا باب 46حدیث 7187)
پس جیسا کہ آپؐ نے یہ خوشخبری دی ہے جنت تلاش کرنی ہے تو کمزوروں اور غریبوں میں تلاش کرو۔ایک اور روایت میں انہیں غریبوں اور مسکینوں کے بارے میں اپنے صحابہ کو نصیحت کرتے ہوئے یہ فرمایا۔ حضرت ابوعباسؓ سہل بن سعد ساعدی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے پاس بیٹھنے والوں سے فرمایا اس شخص کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے۔ اُس نے کہا یہ معزز لوگوں میں سے ہے۔ اللہ کی قسم یہ اس قابل ہے کہ اگر یہ کہیں نکاح کا پیغام دے تو اس کا نکاح کر دیا جائے۔ اور اگر یہ سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے۔ اس کی بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ پھر ایک اور شخص کا گزر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو کہا اس آدمی کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ غریب مسلمانوں میں سے ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ اگر یہ نکاح کا پیغام دے تو اس کا نکاح نہ کیا جائے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے اور اگر کوئی بات کہے تو اس کی بات نہ سنی جائے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا یہ ایک فقیر، دنیادار لوگوں سے بھری دنیا سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ (ریاض الصالحین باب فضل ضعفۃ المسلمین)
ایک فقیر مسکین نیک مسلمان کو آپ نے کئی دنیاداروں کے مقابلے پر ترجیح دی۔ اس لئے کہ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ایک فقیر اور مسکین اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو۔ اسی لئے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا۔ اسی طرح چاہئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں۔ اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے؟ بلکہ سوال یہ ہو گا کہ تمہارا عمل کیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر خدا نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہ! خداتعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا۔اگر تم کوئی برا کام کروگی تو خداتعالیٰ تم سے اس بات سے درگزر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ370 جدید ایڈیشن)
پھر آپ کی جو خوراک تھی کتنی سادہ اورمعمولی ہوا کرتی تھی اس کا ذکر روایات میں ملتا ہے۔ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ بھانجے ہم دیکھتے رہتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں دو دو ماہ تک آگ نہیں جلائی جاتی تھی۔اس پر میں نے پوچھا خالہ! پھر آپ لوگ زندہ کس چیز پر تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم کھجوریں کھاتے اور پانی پیتے تھے۔سوائے اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے انصاری تھے ان کے دودھ دینے والے جانور تھے وہ رسول اللہ کو ان کا دودھ تحفتہً بھیجتے تھے جو آپؐ ہمیں پلادیتے تھے۔ (بخاری کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیھا باب فضل الھبۃ)
پھرآپ کی سادہ خوراک کے بارے میں روایت آتی ہے۔سہل بن سعدؓ سے روایت ہے ان سے سوال کیا گیا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی کھائی ہے؟۔ سہلؓ نے جواب دیا کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تادم آخر کبھی چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی نہیں دیکھی۔ اس پرمَیں نے پوچھا کیا تمہارے پاس آنحضرتؐ کے زمانہ میں چھلنیاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا آنحضرت ؐ نے اپنی بعثت سے لے کر وفات تک چھلنی نہیں دیکھی۔ ابو حازم کہتے ہیں مَیں نے سہل سے پوچھا آپ بغیر چھانے کے جَو کا آٹا کس طرح کھاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوٹنے کے بعد اسے پھونکیں مار لیتے اور اس طرح جو اڑنا ہوتا وہ اڑ جاتا اور باقی کو ہم بھگو کر کھا لیتے۔(بخاری کتاب الاطعمۃ باب ما کان النبی ﷺ واصحابہ یاکلون)
ایک روایت اور بھی ہے اس میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک خادمہ (کسی دوسرے ملک سے آئی تھی لونڈی) آٹا چھان رہی تھی تو آپ نے اسے فرمایا کہ یہ کیا کر رہی ہو؟ اس نے کہا آٹاچھان رہی ہوں، ہمارے ملک میں تو اس طرح چھانا جاتا ہے۔آپ نے فرمایا نہیں اس کو بیچ میں ملا دو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے علم میں نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی طشتریوں میں کھانا کھایا ہو اور نہ ہی آپ کے لئے کبھی چپاتیاں پکائی گئی ہیں، روٹی پکائی گئی اور نہ کبھی آپ نے تپائی (چھوٹی میز سامنے رکھ کر اونچی چیز پر) لگا ہوا کھانا باقاعدہ کھایا ہو۔ تو قتادہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمکس پر کھانا کھایا کرتے تھے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ دستر خوان پہ۔ یعنی زمین پہ کپڑا بچھا لیتے تھے۔ اور اس پہ بیٹھ کے کھانا کھایا کرتے تھے۔ (بخاری کتاب الاطعمۃ باب الخبز المرقق والاکل علی الخوان والسفرۃ)
باوجود اس کے کہ آپ ایک طرح سے حکومت کے سربراہ بھی تھے، آپؐ حکومتی معاملات کسی دربار یا تخت پر بیٹھ کر نہیں فرمایا کرتے تھے بلکہ مسجد نبویؐ ہی آپؐ کا تخت و دربار تھا۔ یا سفر پر ہوتے تو جو بھی جگہ میسر آ جاتی وہیں دربار لگ جاتا۔ لیکن اس کے باوجود اس دربار کا رعب لوگوں کے دلوں پر دنیاوی بادشاہوں کے درباروں سے زیادہ ہوتا تھا۔
چنانچہ ایک روایت میں ذکر آتا ہے حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا جب آپؐ سے بات کرنے لگا تو وہ کانپنے لگ گیا۔ اس پر آپؐ نے اس کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تسلی رکھو میں کوئی بادشاہ تونہیں۔ میں تو ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھایا کرتی تھی۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب القدید)
یہ خداداد رعب کسی تخت و تاج کو نہیں چاہتا تھا بلکہ سادگی اور عاجزی میں ہی اس کا حسن تھا۔
اس حدیث کو بیان کرنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ’’ متکبر خدا تعالیٰ کے تخت پر بیٹھنا چاہتا ہے۔ پس اس قبیح خصلت سے ہمیشہ پناہ مانگو۔ خداتعالیٰ کے تمام وعدے بھی خواہ تمہارے ساتھ ہوں مگر تم تب بھی فروتنی کرو کیونکہ فروتنی کرنے والا ہی خداتعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے۔ دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابیاں اگرچہ ایسی تھیں کہ تمام انبیائے سابقین میں اس کی نظیر نہیں ملتی، مگر آپؐ کو خداتعالیٰ نے جیسی جیسی کامیابی عطا کیں، آپؐ اتنی ہی فروتنی اختیار کرتے گئے۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ548 جدید ایڈیشن)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اتنی سادہ تھی اورماحول اس قدر گھلا ملا ہوا تھا کہ آپ کے پاس ہر کوئی آسکتا تھا، ہر کوئی اپنی ضرورت پوری کروا سکتا تھا۔ جو بھی ان کی ڈیمانڈ ہوتی تھی پوری کرنے کے لئے لوگ آ جایا کرتے تھے۔ چاہے وہ معمولی سی کوئی لونڈی ہو۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کی لونڈیوں میں سے کوئی لونڈی اپنے کام کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر جہاں چاہتی لے جاتی اور آپؐ انکار نہ فرماتے اور اس کا کام کرتے۔ (ریاض الصالحین باب التواضع۔ واخفض الجناح للمومنین)
یہ بے تکلف اور سادہ ماحول تھا جو کسی سے چھپا ہوا نہیں تھا اورآپ کی یہ سادگی اورقناعت ایسی تھی جس کا اثرغیروں پر بھی تھا اور اس زمانے میں بھی اور یہ ہر جگہ نظر آتی ہے۔ جس کی چند مثالیں میں نے پیش کی ہیں۔ بے شمار مثالیں ہیں۔ اور غیر بھی اس زمانے میں اس کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ چنانچہ کیرن آر مسٹرانگ نے لکھا ہے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیشہ سادہ و سائل کو صحیح استعمال کرتے ہوئے اور قناعت سے پُر زندگی گزاری۔ اور اُس وقت بھی آپؐ سے اس نمونے کا اظہار ہوا جب آپؐ عرب کے طاقتور ترین سردار تھے۔ آپؐ کو ہمیشہ آسائشوں اور آرم دہ زندگی سے نفرت تھی اور اکثر ایسا ہوتا کہ آپ کے گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہ ہوتا۔ آپ کے پاس کبھی ایک جوڑے کپڑے سے زیادہ ایک وقت میں نہ ہوا۔ اور جب کبھی آپ کے صحابہ نے آپ کو بعض مواقع پر اعلیٰ لباس پہننے کو کہا (موقع کی مناسبت سے) تو آپ نے ہمیشہ انکارکیا بلکہ عام سادہ کھدرکے لباس کو ترجیح دی جو ہر معمولی آدمی پہنتا تھا۔ جب کبھی آپ کو تحائف اورمال غنیمت آیا آپؐ نے اسے غریبوں میں تقسیم فرما دیا۔(اور آگے وہ لکھتی ہیں یہ سارا انہی کا بیان ہے) اور حضرت عیسیٰؑ کی طرح آپ مسلمانوں کو کہا کرتے تھے کہ غریب اور مسکین آدمی امراء سے پہلے جنت میں داخل ہوگا۔
اسی طرح بعض اور منصف مزاج عیسائیوں نے آپؐ کو اس طرح کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا آپ کی یہ سادگی مسکینی اور قناعت اتنی واضح تھی کہ اس کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں۔
تو اللہ تعالیٰ ہمیں جو اس نبی کی امت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہیں یہ توفیق دے کہ آپؐ کے اس اسوہ پر عمل کرتے ہوئے سادگی اور قناعت کو اپنائیں۔ ایک ایک حدیث میں کئی کئی پیغام ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ یہ ہمارے سامنے اُسوہ ہیں، آنحضور ؐ نے جن پر عمل کرکے دکھایا یہ نمونے قائم فرمائے۔ یہ ہمارے عمل کے لئے ہیں، ہماری بہتری کے لئے ہیں۔ صرف سننے کے لئے اور کہانیوں کے لئے نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔