خلافت احمدیہ اور قبولیت دعا کا اعجاز
خلافت احمدیہ اور قبولیت دعا کا اعجاز
(محمود احمد ملک)
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن 24 مئی 2002ء)
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’مَیں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبیعہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دعا ہے۔‘‘
(برکات الدعا۔ روحانی خزائن جلد 6۔ صفحہ 11)
حضور علیہ السلام کو دعا کے ثمرات پر اس قدر یقین تھا کہ آپ نے اپنی صداقت کی پرکھ کا ایک بڑا ذریعہ دعا کو قرار دیتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ اگر کسی کو حضورؑ کے دعویٰ مسیحیت میں شک ہو اور دیگر ذرائع اُس کی تسلّی کے لئے ناکافی ہوں تو اُسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے دربار میں عرض کرے اور دعا کرے تو یقینا خدا تعالیٰ اُس کی راہنمائی فرمادے گا۔ نیز فرمایا:۔
’’دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا نے مجھے بار بار الہامات کے ذریعہ یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا کے ذریعہ سے ہوگا۔‘‘
(سیرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی عرفانی صاحبؓ ۔ صفحہ 518)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کو جماعت نے اجتماعی طور پر ہمیشہ پیش نظر رکھا اور پھر جو کچھ بھی پایا دعا کے ذریعہ ہی پایا۔ نیز خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو جو نظام خلافت کی نعمت سے نوازا ہے، یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا ہی ثمر ہے۔ اس نظام کی عظیم برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کو قبولیت دعا کا معجزہ عطا کیا جاتا ہے۔ اس کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔
’’اللہ تعالیٰ جب کسی کو منصبِ خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اُس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اُس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اُس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے۔‘‘
(منصب خلافت۔ صفحہ 32)
دراصل تو خلافت کا قیام بھی دعا کے ذریعہ سے ہی ہوتا ہے اور پھر دعا کے ذریعہ سے ہی اس کے ثمرات پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ خلافت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری مت کرو اور خدا تعالیٰ کے الہامات کو تحقیر کی نگاہ سے مت دیکھو جس میں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ تم دعاؤں میں لگے رہو تا قدرت ثانیہ کا پے درپے تم میں ظہور ہوتا رہے۔ تم اُن ناکاموں اور نامرادوں اور بے عملوں کی طرح مت بنو جنہوں نے خلافت کو ردّ کردیا بلکہ تم ہر وقت ان دعاؤں میں مشغول رہو کہ خدا قدرت ثانیہ کے مظاہر تم میں ہمیشہ کھڑے کرتا رہے‘‘
(خلافت راشدہ۔ صفحہ 269)
پس دعاؤں کے ذریعہ قائم کی جانے والی خلافت اپنی ذات میں قبولیت دعا کے بے شمار اعجازی نشانات کی حامل ہوتی ہے۔ خلیفۃالمسیح کے ساتھ خدا تعالیٰ کا ایک ایسا زندہ تعلق قائم ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں خلافت پر ایمان لانے اور اعمال صالحہ کرنے والے اپنے بے شمار مصائب، پریشانیوں اور تکالیف سے صرف اس لئے نجات پاجاتے ہیں کہ ایک ایسا وجود اُن کے لئے دعاگو ہوتا ہے جس کی دعاؤں کی قبولیت کا ذمہ خود خدا تعالیٰ نے لیا ہے۔ خلفائے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی زندگیاں دعا سے عبارت نظر آتی ہیں اور کچھ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ گویا خلیفہ وقت ایک مجسم دعا وجود ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے اپنے دورِ خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ کے موقع پر 26؍دسمبر 1980ء کو خطاب فرماتے ہوئے اپنی کیفیت کا یوں ذکر کیا:۔
’’چاہو تو یہ سمجھ لو کہ خدا کا فضل یہ کہ ایک ایسا انسان تمہارا امام بنایا جو تڑپ تڑپ کے تمہارے لئے دعائیں کرتا ہے۔‘‘
(اخبار ’’البدر‘‘۔ 7؍جنوری 1909ء)
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے ایک حج کے موقع پر یہ دعا کی تھی: ’’یا الٰہی! جب مضطر ہوکر کوئی دعا تجھ سے مانگوں تو اس کو قبول کرنا‘‘۔ یہ دعا اس شان سے پوری ہوئی کہ آپؓ کی زندگی اس کے ثمرات سے بھری پڑی ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی دعاؤں نے بے شمار معجزے دنیا کے سامنے پیش کئے۔ مکرم ملک محمد عبداللہ صاحب اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جو آپ کے بڑے بھائی نے بیان کیا کہ جب آپ کی عمر ڈیڑھ سال تھی تو آپ کی ٹانگ پر پھوڑا نکلا جو بگڑتے بگڑتے ناسور بن گیا۔ جب ہر علاج بے اثر ثابت ہوا تو شدید تکلیف میں آپ کو مشن ہسپتال سیالکوٹ لے جایا گیا جہاں کے انگریز ڈاکٹر نے فوری طور پر ٹانگ کاٹنے کا مشورہ دیا۔ اس پر آپ کے والدین آپ کو لے کر قادیان آگئے اور بڑی بے قراری سے صورتحال حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی خدمت میں عرض کی۔قادیان میں ایک اور بچی بھی اسی قسم کی تکلیف کا شکار تھی۔ حضورؓ نے اس کے لئے دو ڈاکٹروں کا ایک بورڈ مقرر فرمایا جنہوں نے معائنہ کرکے یہی مشورہ دیا کہ ٹانگ کاٹ دینی چاہئے۔ چنانچہ ایک روز بچی کا آپریشن کرکے اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی ۔ اگلے روز ملک صاحب کا آپریشن ہونا تھا۔ دعائیں بھی کی گئیں اور چونکہ حضورؓ کے ایک صاحبزادے آپ کے بڑے بھائی کے دوست تھے اور انہوں نے بھی حضورؓ کی خدمت میں بار بار ٹانگ نہ کٹنے کے لئے عرض کیاتو حضورؓ نے فرمایا کہ اس بچے کے بار بار اصرار پر میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی ہے جسے میں الٰہی تحریک سمجھتا ہوں۔ آپؓ نے آپریشن ملتوی کرکے کچھ مرہم اور پڑیاں عطا فرمائیں جن سے اسی روز بہت افاقہ ہوا اور تین دن میں اللہ کے فضل سے بیماری کا اثر زائل ہوگیا اور چند روز میں مکمل صحت ہوگئی۔ مکرم ملک صاحب کہتے ہیں کہ آج میری عمر ۸۵ سال ہے، ناسور کے نشان آج بھی گھٹنے پر موجود ہیں لیکن اس کے بعد کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی شفقت و محبت کی عکاسی کرنے والے ایسے بے شمار واقعات ہیں جب حضورؓ کی گریہ و زاری سے لبریز دعاؤں نے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کیا۔ محترم چودھری حاکم دین صاحب کی بیوی کو زچگی کی شدید تکلیف تھی۔ وہ رات گیارہ بجے حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے گھر گئے اور چوکیدار سے پوچھا کہ کیامیں حضورؓ کو اس وقت مل سکتا ہوں۔ چوکیدار نے نفی میں جواب دیا لیکن حضورؓ نے آواز سن لی اور اندر بلالیا۔ انہوں نے تکلیف کا ذکر کیا تو حضورؓ نے ایک کھجور پر کچھ پڑھ کر آپ کو دی اور فرمایا: ’’یہ اپنی بیوی کو کھلادیں اور جب بچہ ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دیں‘‘۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور تھوڑی دیر بعد بچی پیدا ہوئی۔ انہوں نے سوچا کہ حضورؓ کو جگانا مناسب نہیں، چنانچہ صبح اذان کے وقت حاضر ہوئے اور حال عرض کیا۔ آپؓ نے فرمایا: ’’بچی پیدا ہونے کے بعد تم میاں بیوی آرام سے سو رہے اگر مجھے بھی اطلاع دے دیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا۔ میں تمام رات تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا‘‘۔
چوہدری غلام محمد صاحب حضرت خلیفہ اولؓ کی دعا کی قبولیت کے متعلق فرماتے ہیں۔1909ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ لگاتار آٹھ روز بارش ہوتی رہی جس سے قادیان کے بہت سے مکان گر گئے۔ آٹھویں یا نویں روز حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ نے فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ سب لوگ آمین کہیں۔ دعا کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ آج میںنے وہ دعاکی ہے جو حضرت رسول کریم ﷺ نے ساری عمر میں صرف ایک دفعہ کی تھی یہ دعا بارش بند ہونے کی دعا تھی۔ دعا کے وقت بارش بہت زور سے ہو رہی تھی اس کے بعد بارش بند ہوگئی اور عصر کی نماز کے وقت آسمان بالکل صاف تھااور دھوپ نکلی ہوئی تھی۔
حضرت شیخ فضل احمدصاحب بٹالویؓ کی ایک روایت ہے جو آپؓ نے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ سے ہی سنی۔ ایک دن حضورؓ کے پاس ایک احمدی فوجی انڈین آفیسر آئے اور کہنے لگے کہ حضورؓ! آپ دعا کریں کہ میں لڑائی میں بھی نہ جائوں اور مجھے تمغہ بھی مل جائے۔ حضورؓ نے فرمایا: ’’ ہمیں تو آپ کے قواعد کا علم نہیں ہے، معلوم نہیں کہ تمغہ کس طرح ملا کرتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ میڈل اُسے ملتا ہے جو لڑائی میں جائے۔ آپؓ نے فرمایا: ’’ پھر آپ کو بغیر لڑائی میں جانے کے کیونکر مل سکتا ہے؟‘‘ وہ کہنے لگے کہ حضور دعا کریں۔ آپؓ نے فرمایا: اچھا ہم دعائیں کریں گے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ آئے اور بتلایا کہ حضورؓ کی دعا سے مجھے تمغہ مل گیا ہے۔ اور پھر دریافت کرنے پر بتلایا کہ میں بیس (Base) کیمپ میں تھا کہ میرے نام حکم پہنچا کہ لڑائی کے میدان میں پہنچو۔ میں ڈرا مگر چل پڑا۔ ابھی تھوڑی دُور ہی گیا تھا مگر وہ سرحد پار کرچکا تھا جس کے عبور کرنے پر ایک فوجی افسر تمغہ کا حقدار تصور ہوجایا کرتا تھا، کہ پھر حکم ملا کہ واپس چلے آؤ، صلح ہوگئی ہے اور لڑائی بند ہے۔ اس طرح حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی دعا سے وہ لڑائی میں بھی شامل نہ ہوئے اور تمغہ بھی مل گیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل نے تمام کامیابیوں کی بنیاد دعا کو قرار دیتے ہوئے فرمایا:۔
’’دعا ہی تمام کامیابیوں کی جڑ ہے۔ دیکھو قرآن شریف کی (ابتداء) بھی دعا ہی سے ہوتی ہے۔ انسان بہت دعائیں کرنے سے منعم علیہ بن جاتا ہے، دکھی ہے تو شفا ہو جاتی ہے۔ غریب ہے تو دولتمند، مقدمات میں گرفتار ہے تو فتح یاب، بے اولاد ہے تو اولاد والا ہوجاتا ہے… ہر مرض کی دوا ، ہر مشکل کی مشکل کشا یہی دعا ہے‘‘۔
(خطبات نور۔ صفحہ 277)
حضرت مصلح موعودؓ کا تو اپنا وجود ہی دعاؤں کا ثمر تھا اور یہی فیض پھر آپؓ کے وجود سے آگے جماعت میں منتقل ہوا۔ مکرم سید اعجاز احمد شاہ صاحب کا بیان ہے کہ ۵۱ء میں جڑانوالہ سے چھوٹے بھائی نے مجھے ربوہ میں تار دی کہ والد صاحب کی حالت نازک ہے فوراً پہنچوں۔ میں نے مغرب کی نماز گھبراہٹ کے عالم میں حضرت مصلح موعودؓ کی اقتداء میں ادا کی اور نماز کے بعد دعا کیلئے عرض کیا تو فرمایا ’’اچھا دعا کروں گا‘‘۔ جب میں اگلی صبح جڑانوالہ پہنچا تو والد صاحب چارپائی پر بیٹھے پان چبا رہے تھے۔ بھائی نے بتایا کہ کل مغرب کے بعد سے حالت معجزانہ طور پر بہتر ہونی شروع ہوگئی ورنہ پہلے تشویشناک حد تک خطرناک تھی۔ میں نے اُسے بتایا کہ کل مغرب کے بعد ہی حضورؓ سے دعا کیلئے عرض کیا گیا تھا اور یہ اُسی کی برکت ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پاکیزہ زندگی میں اور خصوصاً آپؓ کے باون سالہ دورِ خلافت میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے واقعات ملتے ہیں جب آپؓ کی دعاؤں نے گویا کہ مُردے زندہ کردیئے اور ایسے کام بنادیئے جو بظاہر ناممکن تھے۔
قیام پاکستان کے بعد حضرت نواب عبداللہ خان صاحبؓ بطور ناظراعلیٰ خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ حالات انتہائی کٹھن تھے جب ۱۹۴۸ء کی ایک صبح آپؓ پر دل کا ایسا شدید حملہ ہوا کہ ڈاکٹر زندگی سے نا امید ہو گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ کو اطلاع ملی تو آپؓ نے اور حضرت اماں جانؓ نے بہت رقّت اور درد سے اللہ کے حضور دعائیں شروع کیں۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ ایسا دورہ قلب ہم نے کتابوں میں تو پڑھا ہے لیکن اس کا مریض پہلی بار دیکھا ہے۔ حضرت نواب صاحبؓ کا دل ساقط ہو چکا تھا اور زندگی کے آثار تقریباً ختم ہوچکے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے دعائیں قبول کیں اور زندگی کی رو پھر سے چلنی شروع ہو گئی۔ چنانچہ اس دورہ کے بعد ایک لمبا عرصہ تک آپ کو خفیف حرکت کی اجازت بھی نہیں تھی۔ کئی بار حالت خطرناک ہوئی اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے دعاؤں سے نازک وقت ٹال دیا۔ حتی کہ کئی ماہ بعد آپؓ قدم اٹھانے کے قابل ہوئے اور پھر ۱۳ سال تک معجزانہ طور پر صحتمند زندگی گزاری۔
محترمہ سعیدہ خانم صاحبہ کی ایک دو سالہ بیٹی کے پاؤں کے انگوٹھے پر چوٹ لگنے سے ہڈی کو نقصان پہنچا اور زخم ناسور بن گیا۔ ڈاکٹروں نے ٹانگ کاٹنے کا خطرہ ظاہر کیا۔ ایسی حالت میں حضرت
مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے مسلسل دو تین ہفتے خط لکھ کر عرض کیا گیا اور حضورؓ کی طرف سے جواب بھی ملتا رہا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُسی دوا میں شفا ڈال دی جو وہ پہلے بھی بیسیوں دفعہ استعمال کرچکے تھے۔
مکرم شیخ فضل حق صاحب کا چوتھا لڑکا پیدائش کے آٹھ نو ماہ بعد سخت بیمار ہوگیا۔ ہر قسم کا علاج تین سال تک ہوتا رہا یہاں تک کہ ٹانگیں جواب دے گئیں ۔ لوگ تعویذ کیلئے کہتے مگر انہوں نے کہا خواہ یہ مر جائے تعویذ نہیں دوں گا۔ آخر حضرت مصلح موعودؓ کو دعا کیلئے لکھا۔ آپؓ نے جواباً فرمایا ’’اللہ تعالیٰ عزیز کو صحت دے گا‘‘۔ یہ جواب ملنا تھا کہ بیماری میں فرق پڑنے لگا اور شفا ہوگئی۔
بلاشبہ سینکڑوں بے اولاد جوڑوں کو خدا تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کی دعاؤں کا نشان دکھایا اور اولاد عطا فرمائی۔ مصر کے ایک مخلص احمدی محترم عبد الحمید خورشید آفندی صاحب ۱۹۳۸ء میں چالیس روز کیلئے قادیان آئے اور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ دس بارہ سال سے شادی شدہ ہونے کے باوجود اولاد سے محروم ہوں۔ حضورؓ نے دعا کرنے کا وعدہ فرمایا۔ کچھ دنوں بعد آپ حضورؓ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے تو حضورؓ نے فرمایا: ’’میں نے آپکے لئے دعا کی ہے، اللہ تعالیٰ آپکو فرزند عطا کرے گا‘‘۔ چنانچہ آفندی صاحب واپس مصر آگئے اور یہاں آپ کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بلاد عربیہ کے پہلے مربی کے نام پر جلال الدین رکھا گیا۔ پھر دوسرا لڑکا شمس الدین اور ایک لڑکی عائشہ بھی پیدا ہوئی۔
مکرم فتح محمد صاحب مٹھیانی لکھتے ہیں کہ میں اور چار دوسرے دوست ۱۹۲۱ء میں احمدی ہوئے تو گاؤں میں ہماری شدید مخالفت شروع ہوگئی اور مخالفین نے بحث میں عاجز آکر کہا کہ کیا ہوا اگر یہ احمدی ہوگئے، انکو ملتی تو لڑکیاں ہی ہیں۔ اتفاق سے اُس وقت ہم پانچوں کے لڑکیاں ہی تھیں اور اولاد نرینہ نہ تھی۔ اس بات کا میرے دل پر بڑا صدمہ ہوا اور میں نے حضرت مصلح موعودؓ سے دعا کیلئے عرض کیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ خداوند تعالیٰ آپ سب کو نرینہ اولاد دے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم سب کو نرینہ اولاد سے نوازا۔
حقیقت یہ ہے کہ خلافت احمدیت کی برکات کا دائرہ صرف احمدیوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ جب بھی کسی نے اخلاص کے ساتھ بارگاہ خلافت میں دعا کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خلیفۂ وقت کی دعاؤں کو غیروں کے حق میں بھی شرف قبولیت عطا فرمایا۔ اس کے نتیجہ میں بے شمار خاندانوں نے قبول احمدیت کی سعادت بھی پائی۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ یوں درج ہے کہ قادیان کے قریب ایک گاؤں بھاگی ننگل میں ایک شخص لچھمن سنگھ رہتا تھا جس کے ہاں اولاد نہ ہوتی تھی۔ ایک روز اس نے ایک احمدی حضرت منشی امام الدین صاحبؓ (جو محترم چودھری ظہور احمد صاحب سابق ناظر دیوان کے والد محترم تھے) سے کہا کہ میرے لئے حضرت صاحبؓ سے دعا کروائیں کہ خدا مجھے لڑکا دیدے۔ اگر مرزا صاحبؑ سچے ہوں گے تو میرے ہاں اولاد ہو جائے گی۔ منشی صاحب نے قادیان آ کر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تو حضورؓ نے فرمایا ’’میں دعا کروں گا اور انشاء اللہ اس کے ہاں اولاد ہو گی۔‘‘ چنانچہ اُس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جو میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والا اپنے گاؤں کا پہلا نوجوان تھا۔
ایک بہت ایمان افروز واقعہ محترم غلام نبی صاحب سابق ایڈیٹر الفضل قادیان نے یوں بیان کیا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ۳۱دسمبر ۱۹۱۴ء کو میرا نکاح پڑھا۔ اس کے بعد کئی سال تک نہ اولاد ہوئی اور نہ ہی میں نے درخواست دعا کی کہ حضور کو تو معلوم ہی ہے۔ ۱۹۲۲ء میں حضور کا ایک مکتوب شائع ہوا جس میں درج تھا کہ۔
۱۔ انسان کو دعا پر مخفی طور پر یقین نہیں ہوتا۔ وہ خود تو بعض دفعہ دعا کرلیتا ہے مگر دوسرے کو کہتے ہوئے اباء کرتا ہے۔
۲۔ کبھی دوسرے سے دعا کی تحریک مخفی تکبر کی وجہ سے نہیں کی جاتی۔
۳۔ کبھی شیطان اس کے متعلق دھوکہ دے دیتا ہے جس سے انسان دعا کروانا چاہتا ہے کہ میں ایسا مقبول نہیں کہ کوئی میرے لئے دعا کرے یا میں اس کے وقت کو کیوں ضائع کروں۔
۴۔ شامت اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جس کو فوائد سے محروم رکھنا چاہے تو اس کی توجہ اس شخص سے پھیر دیتا ہے جس سے وہ اپنے مطلب کو حاصل کر سکتا ہے۔ اور اگر پہلے امور میں سے کوئی وجہ نہیں تو آخری ضرور ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ یہ خط ۲۲ مئی ۱۹۲۲ء کو شائع ہوا جسے پڑھ کر میں نے حضورؓ کی خدمت میں درخواست دعا کی اور اس درخواست کے بعد جلد ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں لڑکی عطا فرمائی جبکہ ہماری شادی کو ساڑھے آٹھ برس ہو چکے تھے۔
خلافت کی یہ نرالی شان ہے کہ بسا اوقات خلیفۂ وقت کی زبان مبارک سے نکلنے والے الفاظ ہی خدا تعالیٰ اپنے فضل سے پورے فرمادیتا ہے اور اپنے بندوں کے لئے تسکین قلب اور مسرتوں کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ ایک مخلص احمدی محمدزین الدین صاحب ٹیکسٹائل برآمد کیا کرتے تھے۔ ۱۹۴۴ء میں وہ سیلون کو بھجوانے کے لئے جب اپنا مال لے کر جنوبی ہندوستان کی ایک بندرگاہ پہنچے تو انہیں یہ معلوم کرکے شدید صدمہ ہوا کہ مال بردار جہاز جنگی مقاصد کے لئے طلب کرلئے گئے ہیںاور سیلون کیلئے جہازرانی بند ہوگئی ہے۔اس اطلاع کا مطلب تھا کہ آپ کا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہوجاتا۔ نہایت پریشانی کے عالم میں آپ نے فوراً حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کیلئے ٹیلیگرام ارسال کیا۔ اگلے ہی روز سیلون سے ٹیلیگرام آیا کہ آپ کا سامان سیلون پہنچ چکا ہے۔ حیرت میں ڈوبے ہوئے جب آپ بندرگاہ پہنچے تو متعلقہ افسر نے بتایا کہ ایک جہازجو سمندر میں تھا، اس کا ہمیں علم نہیں تھا۔ وہ جہاز جیسے ہی بندرگاہ سے لگا ہم نے سامان اس پر لاددیااور وہ اب سیلون پہنچ گیا ہے۔
مکرم زین العابدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ نومبر ۱۹۴۹ء میں پہلی بار حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کیلئے خود حاضر ہوا تو عرض کیا کہ میں نیوی میں سیلر(Sailor)ہوں۔ حضورؓ نے دریافت فرمایا کہ پروموشن کہاں تک ہوسکتی ہے ؟عرض کیا: لیفٹیننٹ کمانڈر تک۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ اُن دنوں نیوی کی وسعت کے لحاظ سے پروموشن بہت کم ملا کرتی تھی… لیکن میں حضورؓ کی دعا کے عین مطابق لیفٹیننٹ کمانڈر بن کر ریٹائرڈہوا۔
حضرت چوہدری غلام حسین صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے اکثر حالات جو ابھی سربستہ راز ہوتے ہیں حضرت صاحبؓ پر کھولے جاتے ہیں۔ میں نے ہر آڑے وقت میں حضرت مصلح موعودؓ سے رجوع کیا اور جتنا جلد ہو سکا دعا کیلئے لکھا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنے اس محبوب کی ایسی خاطر منظور ہے کہ لفافہ لیٹر بکس میں گیا اور ادھر مشکل حل ہونی شروع ہوئی۔ چند روز پہلے میں نے پچیس روپے حضورؓ کی نذر کرنا چاہے مگر آپؓ سندھ تشریف لے گئے ہوئے تھے تو میں نے وہ روپیہ الگ کرکے بطور امانت رکھ دیا۔ اچانک محاسب صاحب کی استفساری چھٹی پہنچی کہ حضور نے سندھ سے بذریعہ فون دریافت فرمایا ہے کہ آیا میں نے کوئی روپیہ حضور کی امانت میں جمع کرایا ہے؟ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ نذر اس مالک حقیقی کے حضور قبول ہو گئی۔
محترم محمد رفیع صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ لکھتے ہیں کہ ۱۹۳۰ء میں ان کا بچہ خونی پیچش سے ایسا بیمار ہوا کہ ڈاکٹر عاجز آگئے اور بچہ چند گھڑیوں کا مہمان دکھائی دینے لگا۔ تب میں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کیلئے تار دیا اور اسی وقت سے بچہ کو صحت ہونی شروع ہو گئی اور چند روز میں بالکل تندرست ہو گیا۔
ایسے کتنے ہی واقعات ہیں جب حضرت مصلح موعودؓ کی دعا کو قبولیت کا درجہ دیتے ہوئے خدا تعالیٰ نے بیماروں کو ایسی صحت عطا فرمائی کہ طبیب بھی حیرتوں کے سمندر میں ڈوب گئے۔ چنانچہ مکرم مولوی عبدالرحمٰن دہلوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ دہلی کے مکرم ماسٹر محمد حسن آسان صاحب ، جو مکرم مسعود احمد دہلوی صاحب کے والد محترم تھے، سرکاری دفتر سے فارغ ہوتے تو سا را وقت تبلیغ میں صرف کردیتے یا جماعتی کاموں میں جُتے رہتے۔ اُن کی ایک صاحبزادی اچانک بیمار ہوگئیں۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ تپدق ہوگئی ہے اور اس درجہ پر ہے کہ مریضہ لاعلاج ہے۔ تاہم مکرم ماسٹر صاحب نے علاج جاری رکھا اور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں تفصیلی خط لکھ کر دعا کی درخواست کی۔ حضورؓ کا جواب آیا: ’’میں نے دعا کی ہے اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے گا‘‘۔
چند دنوں کے بعد مکرم ماسٹر صاحب نے محسوس کیا کہ مریضہ رُو بصحت ہے چنانچہ وہ اُسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے طبّی معائنہ کیا اور ایکسرے لئے تو کہا کہ ماسٹر صاحب! آپ غلطی سے اپنی دوسری بیٹی لے آئے ہیں، اس کو تو تپدق نہیں ہے۔ ماسٹر صاحب نے اصرار کیا کہ یہ وہی بچی ہے جس کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر نے دوبارہ تفصیلی معائنہ کیا اور کہا کہ رپورٹ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس بچی کو کبھی تپ دق ہوئی ہی نہیں۔
اسی قسم کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت چودھری اسداللہ خان صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ لاہور بیان کرتے ہیں کہ تقسیم ملک سے چند سال پہلے میں شدید بیمار ہوگیا اور پیشاب کی جگہ خون کے اخراج سے اس قدر کمزوری ہوگئی کہ پہلو بدلنا بھی ممکن نہ رہا۔
ایک دن حضرت مصلح موعودؓ عیادت کے لئے تشریف لائے اور باتوں باتوں میں فرمایا ’’آپ کا جلسہ پر جانے کو تو جی چاہتا ہوگا!‘‘۔ میں نے آبدیدہ ہوکر عرض کیا ’’وہ کون احمدی ہے جو جلسہ پر جانا نہ چاہے‘‘۔ اس پر حضورؓ نے اپنی مبارک آنکھیں اٹھاکر میری طرف دیکھا اور حضورؓ کی گردن سے نہایت خوبصورت سرخی چہرہ کی طرف بڑھنی شروع ہوئی کہ حضورؓ کا چہرہ، گردن، پیشانی اور کان سرخ، خوبصورت اور چمکدار ہوگئے۔ حضورؓ نے شہادت کی انگلی سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ’’آپ انشاء اللہ ضرور جلسہ پر آئیں گے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد حضورؓ تشریف لے گئے تو مجھے پیشاب کی حاجت ہوئی۔ پیشاب کیا تو اس میں ذرہ بھر بھی خون کی آلائش نہیں تھی۔ اس کے بعد میں تیزی سے رُوبہ صحت ہوا اور جلسہ سے تین چار روز قبل ہی قادیان میں حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔
ڈھاکہ کے محترم فیض عالم صاحب بیان کرتے ہیں کہ ان کی اہلیہ لاعلاج نسوانی مرض میں مبتلا تھیں اور ہر قسم کے علاج کے باوجود مرض بڑھتا جا رہا تھا حتی کہ زندگی سے بھی مایوسی ہوگئی۔ آخر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعائیہ خط لکھ کر حالات عرض کئے تو حضورؓ نے جواباً فرمایا ’’اچھی ہو جائے گی‘‘۔
اسی دوران ان کی اہلیہ نے خواب میں حضرت مصلح موعودؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ دعا کو دوا کے طور پر استعمال کرتی جاؤ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے (ڈاکٹروں کے نزدیک لاعلاج) بیماری سے کامل صحت ہوگئی اور پھر اولاد بھی عطا ہوئی۔
محترم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ربوہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مجلس مشاورت کے موقعہ پر میرے نام کے ساتھ بے ساختہ ’’پروفیسر‘‘ کہہ دیا۔ اگرچہ بظاہر پروفیسر بننا میرے لئے ممکن نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے کی بات کو پورا کرنے کے لئے مجھے ایک کتاب ’’خلاء کی تسخیر‘‘ تصنیف کرنے کی توفیق دی جو نہ صرف بہت مقبول ہوئی بلکہ اس کی بنیاد پر مجھے پروفیسر کا عہدہ بھی مل گیا۔
حضرت سیدہ مہر آپا فرماتی ہیں کہ جن دنوں حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو حکومت نے احمدیت کے جرم میں قید کر رکھا ہوا تھا۔ انہی گرمیوں کی ایک شام رات کے کھانے کے وقت حضرت مصلح موعودؓ نے گرمی کی شدت اور بے چینی کا اظہار فرمایا تومیرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا ’’پتہ نہیں ناصر اور میاں صاحب کا اس گرمی میں کیا حال ہوگا، خدا معلوم انہیں کوئی سہولت بھی میسر ہے یا نہیں‘‘۔ حضورؓ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے۔ وہ صرف اس جرم پر ماخوذ ہیں کہ ان کا کوئی جرم نہیں۔ اس لئے مجھے اپنے خدا پر کامل یقین و ایمان ہے کہ وہ جلد ہی ان پر فضل کرے گا‘‘۔ اس کے بعد آپؓ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپؓ عشاء کی نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ گریہ و زاری کا وہ منظر میں بھول نہیں سکتی اور اس کیفیت کو قلمبند نہیں کرسکتی۔ اس گریہ میں تڑپ اور بیقراری بھی تھی اور ایمان و یقینِ کامل بھی تھا…۔ پھر یہی منظر تہجد کے وقت دیکھا… اگلی صبح جو پہلا تار ملا وہ یہ خوشخبری لئے ہوئے تھا کہ دونوں اسیران رہا ہوچکے ہیں۔
حضرت چودھری اسداللہ خان صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ لاہور ۱۹۲۸ء میں حصولِ تعلیم کے لئے برطانیہ تشریف لے گئے لیکن ماحول کے فرق کی وجہ سے آپؓ کی طبیعت اس قدر بوجھل ہوئی کہ واپسی کا ارادہ کرلیا اور واپسی کے لئے سیٹ بھی بُک کروالی۔ حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی سرزنش بھی آپ کے ارادہ کو تبدیل نہ کرسکی۔ لیکن روانگی سے چند روز قبل جب حضرت مصلح موعودؓ کا یہ پیغام پہنچا کہ اگر تعلیم حاصل کئے بغیر آ گئے تو میں ناراض ہو جاؤں گا تو دل کی کایا پلٹ گئی اور پھر تعلیم حاصل کرنے میں ایسے مگن ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۳ سالہ کورس ۲ سال میں مکمل کرلیا۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ کمرہ امتحان سے باہر آکر جب میں نے دوسرے طلباء کے ساتھ اپنے جوابات کا موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ میرا پرچہ اچھا نہیں ہوا چنانچہ میں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا تو حضورؓ نے جواباً فرمایا:۔ ’’میں دعا کر رہا ہوں، اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور کامیاب فرمائے گا‘‘۔ محترم چودھری صاحب نے حضورؓ کا یہ جواب نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی اپنے دوستوں کو دکھادیا چنانچہ جب نتیجہ نکلا تو آپ کے نمبر سب دوستوں میں زیادہ تھے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے منصبِ خلافت پر سرفراز ہوتے ہی خدا تعالیٰ سے قبولیت دعا کے نشان کی استدعا کی تھی۔ چنانچہ آپؒ کو یہ نشان بطور خاص مرحمت فرمایا گیا اور دنیا کے ہر خطہ کے احمدیوں نے آپؒ کی دعاؤں کے معجزات ملاحظہ کئے۔ لاعلاج بیماریوں سے شفا اور غیرممکن حالات میں اولاد کے عطا ہونے کے بے شمار نشانات حضورؒ کے تعلق باللہ پر گواہ ہیں۔ فرینکفرٹ (جرمنی) کے مکرم خالد صاحب کے ہاں دس سال تک اولاد نہ ہوئی۔ ڈاکٹروں نے تشخیص کیا کہ ان کی اہلیہ کے رحم کے منہ پر کینسر کے آثار ہیں جس کے لئے آپریشن ضروری ہے۔ انہوں نے حضورؒ کی خدمت میں عرض کیا تو حضورؒ نے فرمایا آپریشن ہرگز نہ کروائیں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ … ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ بچہ پیدا ہونے کی ننانوے فیصد کوئی امید نہیں اور آپریشن کے نتیجہ میں جو ایک فیصد امید ہے وہ بھی جاتی رہے گی۔ … لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں ایک بیٹی خولہ سے نوازا۔
چودھری محمد سعید کلیم صاحب کی بہو کو جرمنی میں پیٹ درد کی شکایت پر ڈاکٹروںنے آپریشن کا مشورہ دیا۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی گئی تو فرمایا ’’اس کو لکھ دو کہ آپریشن نہ کرائے میں دعا کروں گا وہ ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ خدا کے فضل سے وہ بغیر آپریشن کے ٹھیک ہوگئیں۔
مغربی افریقہ سے ایک خاتون نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں لکھا کہ ہماری شادی کو ۳۷ سال ہوچکے ہیں اور ہم اولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور اب عمر کی وجہ سے بظاہر ناممکن بھی نظر آتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضورؒ کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے شادی کے ۴۰ سال بعد لڑکا عطا فرمایا۔
مکرم میاں محمد اسلم صاحب نے نومبر ۶۳ء میں قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ اپریل ۶۵ء میں آپ کی شادی ہوئی اور باوجود علاج معالجہ کے بارہ سال تک اولاد سے محروم رہے اور مخالفین کہنے لگے کہ یہ احمدی ہوگیا ہے اس لئے ابتر رہے گا۔ چنانچہ آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں تمام حالات عرض کرکے دعا کی درخواست کی تو حضورؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا اور ضرور نرینہ اولاد سے نوازے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹے عطا فرمائے۔
غانا سے تعلق رکھنے والے ایک نہایت مخلص احمدی محترم ڈاکٹر مبارک صاحب نے بتایا کہ جب میری شادی ہوئی تو ایک لمبا عرصہ میں اولاد کی نعمت سے محروم رہا۔ آخر غانا میں مختلف ٹسٹ کروانے کے بعد پتہ چلا کہ ڈاکٹروں کے نزدیک میری اہلیہ بعض بنیادی نقائص کی وجہ سے کبھی بھی ماں نہیں بن سکیں گی اور یہ کہ ان کی اس کمزوری کا کوئی علاج بھی نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ میں جرمنی میں زیرتعلیم رہا تھا اور جرمنی کی طبی میدان میں سائنسی ترقیات سے بھی کسی حد تک واقف تھا اس لئے امید کی ایک کرن باقی تھی چنانچہ میں اپنی اہلیہ کو ہمراہ لے کرجرمنی آگیا جہاں ٹسٹ دوبارہ ہوئے اور آخر تمام رپورٹس اسی نتیجہ پر پہنچیں کہ میری اہلیہ بنیادی طور پر اولاد پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں اور ان کا یہ مرض لاعلاج ہے ۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ تب میں نے شدید مایوسی کے عالم میں جرمنی سے ہی حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میںایک عریضہ لکھا جس میں علاج کی ساری تفصیل عرض کرکے دعا کی عاجزانہ درخواست کی۔ اپنے اس خط کے جواب کا مجھے شدت سے انتظار تھا اور میں حیران تھا کہ میرے اس خط کا جواب کیوں نہیں آرہا جبکہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ حضورؒ کی طرف سے مجھے جواب کا اس قدر انتظار کرنا پڑے۔ چنانچہ میں واپس غانا چلا گیا اور اپنے آپ کو حالات کے مطابق ذہنی طور پر تیار کرنے لگا۔ غانا واپس پہنچ جانے کے بھی کافی عرصہ بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؒ کی طرف سے میرے خط کا جواب موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ میں نے دعا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا عطا فرمائے گا جس کا نام … رکھیں۔ اس جواب نے نہ صرف مجھے خوشیوں کے سمندر میں دھکیل دیا بلکہ مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ بھی ٹوٹ پڑے کہ بظاہر ناممکن ہونے کے باوجود بھی کوئی چیز کیسے پیدا ہوسکتی ہے! لیکن بہرحال میرے آقا نے یہی فرمایا تھا۔ نیز مجھے جواب دیر سے موصول ہونے کی وجہ بھی معلوم ہوگئی کہ حضورؒ نے خاص طور پر دعا کی ہے اور پھر یہ خوشخبری دی ہے۔
کچھ عرصہ بعد میری بیوی امید سے ہوئیں تو میں انہیں لے کر ڈاکٹروں کے پاس گیا۔ ڈاکٹروں نے سر جوڑ کر اپنے ٹسٹوں کی رپورٹیں دوبارہ دیکھیں، معائنہ کیا اور حیرت سے اُن کے منہ کھلے رہ گئے کہ اس خاتون کا امید سے ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ لیکن ایسا تو تھا۔ چنانچہ مقررہ مدت کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک صحتمند بیٹے سے نوازا جس کا نام میں نے وہی رکھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؒ نے اپنے خط میں تحریر فرمایا تھا۔ اور اس طرح ایک عظیم اعجازی نشان کی صورت میں یہ بچہ میرے سامنے بڑا ہونے لگا۔ اگلے موسم گرما میں میں اپنی بیوی اور بچے کو لے کر ایک بار پھر جرمنی آیا اور انہی ڈاکٹروں کے سامنے یہ معاملہ دوبارہ پیش کیا جو پہلے مایوسی کا اظہار کرچکے تھے۔ یہاں بھی تفصیلی طبی معائنہ ہوا اور قطعی طور پر یہ کہا گیا کہ میری بیوی اولاد پیدا کرنے کی اہلیت سے قطعی طور پر محروم ہے اور چونکہ وہ بنیادی طور پر بعض پیچیدگیوں کا شکار ہے اس لئے کوئی مصنوعی طریقہ بھی ایسا نہیں ہو سکتا جو اس بارہ میں مددگار ہوسکے۔ لیکن یہ بھی درست تھا کہ وہ ماں بھی بن چکی تھی۔
وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ میری خوش قسمتی تھی کہ جرمنی میں میرے قیام کے دوران ہی حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؒ یورپ کے دورہ پر تشریف لائے اور جرمنی میں بھی ورود فرما ہوئے۔ خاکسار حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے بچہ کو حضورؒ کی خدمت میں پیش کرکے سارا ماجرا عرض کیا۔ حضورؒ کوسارا واقعہ یاد تھا،آپؒ نے از راہِ شفقت بچے کو گود میں لے کر پیار کیا اور فرمایا کہ جب اس کا بھائی آئے گا تو اس کا نام … رکھنا اور جب دوسرا بھائی آئے تو اس کا نام … رکھنا۔ پھر خدا تعالیٰ نے حضورؒ کی بات کو پورا فرماتے ہوئے مجھے دو بیٹے مزید عطا فرمائے۔
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بابرکت دَور اجتماعی لحاظ سے اور انفرادی پہلوؤں سے بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں کی قبولیت کا زندہ نشان ہے۔ آج احمدیت کی عالمی فتوحات اور کُل عالم میں پھیلے ہوئے ثمرات پر نگاہ ڈالیں تو دل خدا تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے۔ اور دوسری طرف دنیا کے ہر علاقہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں احمدی اور غیرازجماعت افراد اپنی زندگیوں میں حضور انور کی دعاؤں کے معجزات پر گواہ ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍ستمبر ۲۰۰۰ء میں فرماتے ہیں:-
’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں کثرت سے ایسے گواہ موجود ہیں جنہوں نے اس عاجز کی دعاؤں کو کثرت سے قبول ہوتے دیکھا ہے‘‘۔
حضور انور کی قبولیت دعا کے محض چند واقعات بطور مثال ہدیۂ قارئین ہیں۔
مکرم سیف اللہ چیمہ صاحب اپنی بیوی بشریٰ کے ہمراہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خدمت اقدس میں عرض کیا کہ شادی پر ایک عرصہ گزر گیا ہے اور اولاد نہیں ہوئی۔ حضور انور نے بے اختیار فرمایا ’’بشریٰ بیٹی! آئندہ جب آؤ تو بیٹا لے کر آنا‘‘۔ چنانچہ جلد ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے سے نوازا۔
اسی طرح ایک غانین خاتون کی اولاد پیدائش کے دو ہفتہ کے اندر فوت ہو جاتی تھی۔ اُس نے حضور انور کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا تو حضور انور نے جواباً تحریر فرمایا ’’بچی کا نام امۃالحئی رکھنا‘‘۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹی ہی عطا فرمائی جو خدا کے فضل سے صحتمند اور ہشاش بشاش ہے۔
اسی طرح غانا ہی کے ایک چیف کو جب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک پر قبول اسلام کی توفیق ملی تو وہ نرینہ اولاد سے محروم تھے اور ان کی اہلیہ کا دو مرتبہ حمل ضائع ہوچکا تھا۔ مایوس ہوکر انہوں نے حضور انور سے دعا کیلئے عرض کیا۔ حضور نے بڑے درد سے دعا کی اور کچھ ہی مدت بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک صحتمند بیٹے سے نوازا۔
جرمنی کے مکرم عبدالباسط صاحب کے ایک احمدی دوست اپنے کیس کے سلسلہ میں پریشانی میں حضور کی خدمت میں خط لکھ رہے تھے کہ ایک عرب دوست وہاں آگئے اور اُن کے دریافت کرنے پر اِنہوں نے بتایا کہ دنیا کی تدبیریں تو سب کرلی ہیں اب اپنے امام کو دعا کیلئے خط لکھ رہا ہوں۔ کچھ دن بعد احمدی دوست کے کیس کا فیصلہ عین اُسی روز اُن کے حق میں ہوا جس دن حضور کا جواب اُنہیں ملا۔ اس پر عرب دوست نے متأثر ہوکر کہا کہ میرے لئے بھی دعا کا خط لکھو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کا کیس بھی اُسی روز منظور ہوا جس روز حضور کی طرف سے انہیں اطمینان کا پیغام ملا۔ جب یہ بات مشہور ہوئی تو ایک اور غیر از جماعت دوست نے اپنے ایک ایسے عزیز کیلئے دعا کی درخواست کی جو پاکستان میں تشویشناک طور پر بیمار تھا اور ڈاکٹر اُس کی بیماری کی تشخیص نہیں کرپا رہے تھے۔ اُنہوں نے حضور انور کی خدمت میں تحریر کئے جانے والے اپنے خط میں گزشتہ واقعات کا حوالہ بھی دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ایک دن ڈاکٹروں نے بیماری کی تشخیص کرلی اور پھر مریض دیکھتے دیکھتے شفا پاگیا۔ لطف کی بات یہ تھی کہ ڈاکٹروں نے اُسی روز بیماری کی تشخیص کی جس دن حضور کا جوابی خط اُس دوست کو ملا۔
مکرمہ سیدہ نسیم سعید صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میرے بھائی ڈاکٹر سید برکات احمد صاحب انڈین فارن سروس میں رہے، تاریخ دان تھے، عربی، فارسی، ترکی، جرمن، ہندی، انگریزی اور اردو زبانوں کے ماہر، مصنف اور محقق تھے۔ کئی کتب لکھیں۔ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ میں کئی سال مضامین لکھے۔ حضور انور کی کتاب ’’مذہب کے نام پر خون‘‘ کا انگریزی ترجمہ کیا۔ آپ مثانہ کے کینسر سے بیمار تھے جس کا امریکہ میں آٹھ گھنٹے کا ناکام آپریشن ہوا اور ڈاکٹروں نے چار سے چھ ہفتے کی زندگی بتائی۔ حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تو جواب آیا: ’’دعا کی تحریک پر مشتمل آپ کے پُرسوز و گداز خط نے خوب ہی اثر دکھایا اور آپ کے لئے نہایت عاجزانہ فقیرانہ دعا کی توفیق ملی اور ایک وقت اس دعا کے دوران ایسا آیا کہ میرے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا، مَیں رحمت باری سے امید لگائے بیٹھا ہوں کہ یہ قبولیت کا نشان تھا۔‘‘ چنانچہ حضور کی دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے انہوں نے چار سال تک فعال علمی و تحقیقی زندگی گزاری۔
آپ مزید بیان کرتی ہیں کہ میری بڑی بیٹی خالدہ اہلیہ میجر غفور احمد شرما صاحب کے ایک بیٹی کے بعد تین ابارشن ہوئے۔ کئی علاج کروائے لیکن کوئی فرق نہ پڑا۔ بیٹی بارہ سال کی ہوگئی تو حالات عرض کرکے حضور انور سے دعا کی درخواست کی گئی۔ حضور نے ہومیوپیتھی کا نسخہ دیا اور دعا کی تو ایک ماہ میں ہی اُسکی گود ہری ہوگئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ایک اَور لڑکی اور ایک لڑکا عطا فرمایا۔
جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۰۱ء کے موقع پر دوسرے روز کی تقریر میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مکرم حافظ احسان سکندر صاحب کے حوالہ سے بیان فرمایا کہ کنگ آف الاڈا کا محل پہلے اتنا خوبصورت نہیں تھا لیکن اب ہم اُن کے محل کی خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کنگ نے بتایا کہ یہ سب تبدیلی خلیفۃالمسیح سے ملنے کے نتیجہ میں ہے کیونکہ انہوں نے فرمایا تھا کہ اللہ آپ کو روحانی ترقی بھی دے گا اور دنیاوی ترقی بھی دے گا ۔ مَیں اُن کی دُعا کی طاقت کا اثر محسوس کر رہا ہوں کیونکہ صرف ایک سال کے عرصہ میں جب سے میں خلیفۃالمسیح سے ملا ہوں میرے تمام دشمن، میرے دوست بن گئے ہیں اور اللہ میری تمام مشکلات حل کرتا جا رہا ہے۔
خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اسی طرح کے ہزاروں واقعات ہر مخلص احمدی نے مشاہدہ کئے ہیں۔ ایسے واقعات کو جماعتی ریکارڈ میں محفوظ کرنا چاہئے اور اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے بھی ان کا تذکرہ کرتے رہنا چاہئے کہ یہ واقعات یقینا ازدیاد ایمان کا باعث ہوتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے افراد جماعت کے حق میں خلیفہ وقت کی قبولیت دعا کے نشان کو ایک دوہرے رشتہ کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ ہر احمدی کو یہ ارشاد پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ فرمایا:-
’’مَیں نے پہلے بھی یہی دیکھا تھا اور آئندہ بھی یہی ہوگا کہ اگر کسی احمدی کو منصب خلافت کا احترام نہیں ہے، اس سے سچا پیار نہیں ہے، اس سے عشق اور وارفتگی کا تعلق نہیں ہے اور صرف اپنی ضرورت کے وقت وہ دعا کے لئے حاضر ہوتا ہے تو اُس کی دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔ اسی کے لئے قبول کی جائیں گی جو اخلاص کے ساتھ دعا کے لئے لکھتا ہے اور اس کا عمل ثابت کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے عہد پر قائم ہے کہ جو نیک کام آپ مجھے فرمائیں گے، ان میں مَیں آپ کی اطاعت کروں گا … اگر وہ خلافت سے ایسا تعلق رکھتا ہے اور پوری وفاداری کے ساتھ اپنے عہد کو نبھاتا ہے اور اطاعت کی کوشش کرتا ہے تو اس کیلئے بھی دعائیں سنی جائیں گی بلکہ اَن کہی دعائیں بھی سنی جائیں گی، اُس کے دل کی کیفیت ہی دعا بن جایا کرے گی۔‘‘
(روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۷؍جولائی ۱۹۸۲ء)
پس وہ ہزاروں ایمان افروز داستانیں جو دنیا کے ہر علاقہ میں بکھری پڑی ہیں اور خلافت احمدیہ کے جاری فیوض جو روزانہ ہمارے مشاہدہ میں آتے ہیں اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو بھی خلافت کا عاشق صادق بنادیں اور کوشش کریں کہ خلیفہ وقت سے ان کاایسا ذاتی تعلق قائم ہو جائے کہ وہ بھی ان برکتوں سے وافر حصہ پائیں جو خلافت احمدیہ کی اطاعت اور محبت کے طفیل عطا کی جاتی ہیں۔ اس مضمون کا اختتام اس دعا کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں خلافت کے بلند مقام کا شعور عطا فرمائے اور خلافت سے ایسا عشق کا تعلق پیدا فرمادے کہ ہمارے حق میں بھی خلیفۃالمسیح کی دعاؤں کا فیض جاری ہوجائے۔