خلفاء سلسلہ کی مربیانِ سلسلہ کو نصائح
جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن کے خلافت سووینئر 2008ء میں مکرم طاہر احمد شمس صاحب نے خلفاء سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مربیان سلسلہ کے لئے اہم ارشادات کے حوالہ سے ایک مضمون مرتب کیا ہے۔
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے فرمایا:
’’قوم میں دین کو دنیا پر مقدّم کرنے والے مطلوب ہیں جن کو دنیا کی پرواہ بھی نہ ہو جب مقابلہ دین و دنیا کا آکر پڑے۔ باہمّت واعظ مطلوب ہیں جو اخلاص و صواب سے وعظ کریں۔ عاقبت اندیش، صرف اللہ پر بھروسہ کرنے والے، دعاؤں کے قائل اور علم پر نہ گھمنڈ کرنے والے علماء مطلوب ہیں جن کو فکر لگی ہو کہ کیا کیا جائے کہ اللہ راضی ہوجائے‘‘۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’مبلغ کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر خادمانہ حیثیت رکھے۔ لوگوں نے یہ نقطہ نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ بعض نے سمجھا کہ نوکر چاکروں کی طرح کام کرے۔ یہ مراد نہیں۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے ملّانے پیدا ہوئے… دوسری صورت پھر پیروں والی ہے۔ پیر صاحب چارپائی پر بیٹھے ہیں ، کسی کی مجال نہیں کہ پیر صاحب کے سامنے چارپائی پر بیٹھ جاوے … دونوں کا نتیجہ خطرناک نکلا، یہ بڑی نازک راہ ہے۔ مبلغ خادم ہو اور ایسا خادم ہو کہ لوگوں کے دل میں اس کا رعب ہو۔ خدمت کرنے کے لئے اپنی مرضی سے جائے۔ ڈاکٹر پاخانہ اپنے ہاتھوں سے نکالتے ہیں لیکن کوئی انہیں بھنگی نہیں کہتا، ڈاکٹر اپنے ہاتھوں سے بناکر دوائی بھی پلاتے ہیں لیکن کوئی انہیں کمپوڈر نہیں کہتا، وہ بیمار کی خاطرداری بھی کرتے ہیں لیکن کوئی انہیں اُن کا خادم نہیں کہتا۔ یہ اس کی شفقت سمجھی جاتی ہے۔ اس لئے جب تم میں بھی توکّل ہوگا اور تم کسی کی خدمت کسی کے بدلے کے لئے نہیں کروگے تو پھر تمہاری بھی ایسی ہی قدر ہوگی۔وہ شفقت سمجھی جائے گی، وہ احسان سمجھا جائے گا‘‘۔
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:
’’دعا، تقویٰ (اور) تزکیہ نفس کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہوسکتے۔ مَیں بہت سوچتا رہا ہوں اور اب بھی سوچتا ہوں کہ ہمارے بہت سے اچھے لکھے پڑھے مربی اتنے کامیاب نہیں ہوتے جتنا کہ ایک کم پڑھا ہوا جس کو اتنے دلائل یاد نہیں ہوتے … صرف دلائل ہی کو کافی نہ سمجھیں۔ ان کے علاوہ کچھ اَور چیزیں بھی ہیں … ایک بچہ اگر دعاگو ہے ، اگر اس کا تعلق اپنے ربّ سے پختہ ہے تو وہ اس بوڑھے مربی سے زیادہ ذی اثر ہوگا جس میں یہ بات نہ پائی جاتی ہو‘‘۔
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ’’مبلغین کے لئے بڑا ضروری ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے کردار کا محاسبہ کریں اور اپنے طرز کلام کا بھی محاسبہ کریں۔ بہت سے مبلغین مَیں نے ایسے دیکھے ہیں جو زندگیاں تبلیغ میں صرف کرتے ہیں لیکن اُن کی بات کاٹنے والی ہوتی ہے۔ وہ جب آگے سے سختی کی بات سنتے ہیں یا تیزی دیکھتے ہیں تو جواب میں بھی تیزی پیدا کرتے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ دشمن کو شکست دینا ہمارا کام ہے۔ حالانکہ دشمن کو شکست دینا ہرگز کام نہیں ہے، دشمن کا دل جیتنا کام ہے‘‘۔
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’آپ نے اپنے علمی معیار کو بلند کرنا ہے اور قربانی کے معیار کو بلند کرنا ہے، اپنے تقویٰ کے معیار کو بلند کرنا ہے۔ آپ عام آدمی نہیں ہیں… لوگوں کی آپ پر نظر ہوتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ لڑکا کس عمر کا ہے۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ یہ واقف زندگی ہے، مربی ہے، ہماری تربیت کے لئے مرکز نے یہاں بھیجا ہے۔ واقفین زندگی مرکز کی نمائندگی نہیں کر رہے ہوتے، خلیفۂ وقت کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں‘‘۔