خلفاء سلسلہ کی یادوں کے انمٹ نقوش
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24 و 27؍ دسمبر 2004ء میں شامل اشاعت مکرم عبد السمیع نون صاحب کا تفصیلی مضمون خلفاء سلسلہ کی یادوں سے مزین ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ
کالج کا زمانہ قادیان میں گزرا۔ اگر حضورؓ کا قیام یہیں ہوتا تو ہفتوں اور مہینوں کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ خطبہ جمعہ سے ہم غیرحاضر رہیں۔ پھر مجلس عرفان کی اپنی ہی کشش تھی۔ حضور انور دینی اور دنیاوی معاملات پر نہایت پر مغز اور دلچسپ گفتگو فرماتے اور بڑی اُلجھی ہوئی گتھیاں چٹکیوں میں سلجھا دیتے اور ادق مسائل دینیہ ایسی عمدگی سے حل فرماتے کہ ہم ایسے کم فہم بھی پوری طرح سمجھ جاتے۔ پھر ساتھ پاکیزہ زبان میں لطائف بھی بیان فرماتے۔ مجلس کو مکمل طور پر گویا گرفت میں رکھتے اور ہر مزاج اور ہر علمی سطح کا شخص آپ کے حسن بیان سے محظوظ ہوتا اور فیض حاصل کرتا۔ لوگ دوردراز کے محلوں سے کھینچے چلے آتے اور کچھ بیرون جات سے بھی۔ ایک سامع کو کبھی غیرحاضر نہ پایا۔ مگر اس نے کبھی آگے بڑھ کر بیٹھنے کی نہ کوشش کی بلکہ آخر میں ہمہ تن گوش بیٹھا رہتا۔ وہ تھے حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ۔
22؍اگست 1956ء کو حضور انور مری سے ربوہ جارہے تھے کہ برادران فضل الرحمان صاحب پراچہ اور محمد اقبال صاحب پراچہ نے حضور کی ناقہ کی باگیں تھام لیں اور بصد منت دوپہر کا کھانا ان کے ہاں کھانے کی درخواست کی۔ حضور بھی بوجوہ ان پر بے حد مہربان تھے۔ بہر حال کینال ریسٹ ہاؤس سرگودھا میں حضورؓ اور حضورؓ کے قافلہ کی دعوت کا انتظام تھا۔ مجھے بھی پراچہ برادران نے شمولیت کا شرف بخشا۔ حضرت مرزا عبدالحق صاحب، حضرت صاحب کے ساتھ صوفے پر تشریف فرما تھے۔ آپ نے میرا تعارف کرایا تو حضورؓ اس عاجز سے مخاطب ہوئے۔ میں حضورؓ کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ کسی دشمن کا ذکر تھا جس کے بارہ میں جب مَیں نے کچھ شہادت عرض کی تو حضورؓ نے پوچھا کہ یہ تمہاری شہادت شائع کر دی جائے۔ میں نے بصد ادب عرض کیا کہ حضور ضرور شائع فرما دیں۔ حضورؓ نے قانونی نکتہ بیان فرمایا کہ موکل اور وکیل کے درمیان جو مشورہ ہوتا ہے، وہ کوئی فریق شائع کرانے کا حق نہیں رکھتا اور جو ایسا کرے اس پر مقدمہ ہو سکتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور کے خلاف وہ بک بک کر رہا ہے۔ میری جان یا عزت کی تو قیمت ہی کوئی نہیں۔ واقعہ سچ ہے اگر مقدمہ کرے گا تو میں بھگت لوں گا۔ پھر دوسرے ہی روز الفضل کے پہلے ہی صفحہ پر میرا بیان شائع ہوا جس میں میرا ذکر سرگودھا کے ’معتبر آدمی‘ اور’کامیاب وکیل‘ کے الفاظ سے کیا۔ میں نہ ’معتبر‘ شخص تھا نہ ’کامیاب وکیل‘ ،بس وہ نگاہ پڑی تو میرے لئے کامیابی کے وہ دَر کھلے کہ میں سوچ کر بھی حیران ہوجاتا ہوں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ
حضرت مصلح موعودؓ کی تدفین کے بعد سیدی حضرت میرزا ناصر احمد صاحبؒ نے مسجد مبارک میں حاضر لوگوں کو شرف مصافحہ عطا فرمایا۔ اس عاجز کو 21,20 سال سے حضورؒ کی چاکری کا شرف حاصل رہا تھا۔ جب میری باری آئی تو حضرت ممدوح نے ازراہ بندہ نوازی ایک منٹ کے قریب میرے ساتھ مختصر دو باتیں کیں۔ حضور کی من موہنی عادات اور صفات کا شمار ممکن نہیں۔ حضورؒ کے انتخاب کے روز ہی میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ حضورؒ اب بہت عالی منصب پر فائز ہوچکے ہیں، اب وہ پہلے سی بے تکلفی اور صبح شام کی ملاقاتیں نہیں رہیں گی کچھ فاصلہ رکھنا پڑے گا۔ مگر اللہ والوں کے حوصلے بھی بڑے ہوتے ہیں چنانچہ احسان، مروت وشفقت کا یہ سلسلہ حضور کی وفات تک چلتا رہا۔
خلیفہ بننے سے قبل یہ حال تھا کہ حضورؒ جہلم سے ربوہ کے لئے روانہ ہوئے تو مکرم حافظ مسعود احمد صاحب کو فون کیا کہ فاتح الدین بول رہا ہوں، آج فلاں وقت سرگودھا سے گزروں گا۔ چنانچہ ہم میرزا عبدالحق صاحب کی قیادت میں سڑک کے کنارے موجود تھے۔ وہیں کھڑے ہو کر حضورؒ نے ملاقات کا شرف عطا کیا اور کار کے بونٹ پر چائے کی پیالی رکھ کر نوش فرمائی۔ فرمایا کہ یہاں چائے ٹھنڈی نہیں ہوگی یہ میز بہتر ہے۔
لیکن ایک دفعہ حافظ صاحب نے متفکر ہو کر ذکر کیا کہ حضرت صاحب اب آتے جاتے ہمیں کوئی اطلاع نہیں دیتے اور نہ ہمیں لب سڑک زیارت کا شرف عطا ہوتا ہے۔ اس پر مَیں نے پریشانی میں خط لکھا کہ حضور کے ارادتمند تو سرگودھا میں ہزاروں ہیں مگر حضور کا نوکر ہونے کا اعزاز شاید مجھے ہی حاصل ہے اور آقا اگر غلام کے گھر آجائے تو گو آقا کے مقام ومرتبت میں کچھ فرق نہیں آتا مگر غلام کی خوشی اور خوش بختی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ حضور مجھے اگر پتہ چل جائے کہ حضور سرگودھا سے گزرہے ہیں تو میں حضورؒ کی سواری کی باگ تھام کر اپنے گھر لے آؤں گا۔ حضورؒ نے جواب میں لکھوایا کہ ربوہ سے چلیں تو سرگودھا سے آگے طویل سفر باقی ہوتا ہے اور ربوہ کی طرف آرہے ہوں تو سرگودھا آنے سے پہلے ہی گویا ربوہ نظروں میں آجاتا ہے اس لئے سرگودھا میں رُکنا دونوں صورتوں میں ممکن نہیں ہوگا ورنہ مجھے تمہارے گھر آنے میں باک نہیں اور پہلے آبھی چکا ہوں۔ اس جواب سے ہمارے دلوں میں شگفتگی آگئی۔
حضورؒ احمدنگر اور نصرت آباد کی زمینوں پر جاتے تھے۔ میں حاضر ہوتا تو ارشاد فرماتے اپنی موٹر یہیں کھڑی کر دو اور میرے ساتھ بیٹھو۔ مَیں حضور کے ساتھ ویگن میں بیٹھ جاتا۔ حضرت صاحبزادہ میرزا منصور احمد صاحب اکثر ساتھ جاتے۔ ایک دن باغ میں حضورؒ پھر رہے تھے کہ فرمایا چھوٹی سی مشین ہے جو درختوں کو کاٹتی ہے۔ میں نے امپورٹ کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ بڑا لمبا procedure ہے۔ میں نے عرض کیا حضورؒ مجھے حکم دیتے تو میں حال ہی میں یورپ سے آیا ہوں، ساتھ لے آتا۔ میں نے عرض کیا کہ حضور میں ا س دفعہ کوکاکولا بنانے والی مشین یورپ سے لایا تو کسٹم والوں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ کوکاکولا بنانے والی فیکٹری۔ وہ افسر حیران ہوا تو میں نے کہا بڑے نون (نورحیات صاحب نون MNA) نے لاہور میں بڑی فیکٹری لگائی ہوئی ہے، میں چھوٹا سا نون ہوں، چھوٹی سی فیکٹری مَیں بھی لے آیا ہوں۔ وہ مسکرایا اور بولا کہ لے جاؤ، ہمارے پاس اس پر ٹیکس لگانے کا کوئی قاعدہ نہیں ہے۔
ایک روز مَیں نے عرض کیا کہ حضورؒ کو جس دن، جس وقت، جس ماہ، جس سال فرصت ہو، اس عاجز کے بیٹے عبدالبصیر کا نکاح پڑھادیں تو عنایت ہوگی۔ حضور نے وعدہ فرما لیا۔ پھر گھوڑ دوڑ ہورہی تھی۔ حضورؒ خود تشریف فرما تھے۔ مَیں بھی قدموں میں بیٹھا ہوا تھا۔ حضورؒ نے فرمایا کہ عبد البصیر نون اگر کلّہ اٹھا لے گیا تو میں آج ہی اس کا نکاح پڑھا دوں گا۔ چنانچہ بصیر کلّہ اٹھا کر لہراتا ہوا لے گیا اور حضور نے اسی شام نکاح پڑھا دیا۔ بلکہ اس سے پہلے اس کے لئے رشتہ کی تجویز میں نے حضورؒ کی خدمت میں پیش کی تو فرمایا تم نہ بات کرنا، میں ربوہ آیا تو مجھے یاد کرادینا۔ چنانچہ خود حضورؒ کے ہاتھوں ہی یہ رشتہ طے پایا اور حضورؒ سیدہ حضرت بیگم صاحبہؒ کے ساتھ بارات میں بھی شامل ہوئے۔
تین بیٹیوں کے رشتوں کے لئے دعا کی درخواست کی تو فرمایا جو تجویز تمہارے پاس آئے تم مجھے بتا دینا فیصلہ میں خود کروں گا۔ دلربائی اور دلداری اور بندہ نوازی کے عجیب انداز تھے۔ مختصر سی بات کر کے دل جیت لینا یہ حضورؒ کا ایک نہایت حسین طریق تھا۔
حضورؒ کی وفات جس رات کو ہوئی نہ معلوم مجھے کہاں سے آواز آئی ’’حضور فوت ہوگئے ہیں‘‘۔ مَیں اندھیرے میں ہڑبڑا کر پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گیا اور اس اندوہناک آواز کے متعلق سوچنا شروع کیا۔ آخر حضورؒ کے جائے قیام اسلام آباد فون کیا تو کسی نے فون اٹھاکر ’’انا للہ‘‘ پڑھا۔ پھر کچھ پوچھنے کی ہمت ہی نہ پڑی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ
1944ء میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے جو پیشگوئی فرمائی تھی اس کا مفہوم تھا کہ شرک کے زمانہ میں مَیں دوبارہ دنیا میں آؤں گا یعنی میرے جیسی طاقتوں والا ایک انسان ظاہر ہوگا۔ پس جب وہ زمانہ جس میں اللہ کے نام لینے پر قدغن اور کلمہ توحید پڑھنے پر تعزیریں تھیں اس میں سیدنا حضرت مرزا طاہر احمدؒ اپنے والد ماجد کے ہر لحاظ سے مثیل بن کر آئے۔ کئی مشابہتیں ہیں۔ ایک یہ کہ دونوں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، دونوں کا زمانہ مہجوری 19,18 سال کا ہے، دونوں دارالہجرت میں فوت ہوئے اور وہیں دفن ہوئے۔
حضورؒ سے میرا رسمی تعارف تو لڑکپن سے ہی تھا مگر گہرے تعلقات کی بنیاد ربوہ میں ہی پڑی۔
خلافت سے قبل ایک بار ادرحمہؔ سے باہر ایک جلسہ گاہ بنائی گئی۔ حلالپور سے ہم 5,4 آدمی گئے۔ آپؒ جب کھانے کیلئے ایک مکان کی بیٹھک میں تشریف لائے تو ہم اِدھر اُدھر ہوگئے کہ مہمان خصوصی کے ساتھ شریک طعام ہونا ادب اور تہذیب کے خلاف تھا۔ اُدھر سے آدمی آیا کہ میاں صاحب آدھ گھنٹے سے تمہارا انتظار فرما رہے ہیں کہ اسے بلاؤ تو کھانا کھائیں۔ پھر تو مجھے شرم آئی کہ آپ کی کوفت کا موجب بنا ہوں۔ غرض اس خاندان کی وفاؤں اور اعلیٰ تہذیبی روایات کا ادراک بھی ہم ایسے کم فہموں کے بس میں نہیں ہے۔