خواجہ میر دردؒ
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ نے ’’اردو کلاس‘‘ میں محاوروں کا ذکر کرتے ہوئے خواجہ میر دردؒ کے بارہ میں فرمایا:-
’’میر درد بھی محاوروں کے بادشاہ ہیں، ان کی زبان ٹکسالی زبان ہے۔ وہ بہت بلند پایہ اور بہت اونچے شاعر تھے اور ان کی زبان بہت پیاری تھی۔ میر درد، حضرت اماں جانؓ جو حضرت مسیح موعودؑ کی اہلیہ تھیں، ان کے آباء میں ایک بہت چوٹی کے اردو کے شاعر گزرے ہیں جو صوفی تھے اور شعروں میں بہت معرفت کی باتیں کیا کرتے تھے۔ لوگوں کو عام سے شعر نظر آتے ہیں مگر ان میں قرآن کی باتیں، خدا سے محبت کی باتیں اور دین کی باتیں بیان ہوتی ہیں۔ باوجود اس کے کہ مذہب کی باتیں تھیں زبان اتنی پیاری تھی کہ اس سے کبھی کوئی شخص بور نہیں ہوتا تھا۔ محاورے کی زبان کی وجہ سے ان کے شعر کے اندر بہت مزہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ؎
آپ سے ہم گزر گئے کب کے
کیا ہے ظاہر میں وہ سفر نہ ہوا
پاس ہی ہیں مگر بہت دور رہتے ہیں۔ بظاہر کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ آپ نے ہمیں بھلا دیا ہے۔ جیسے ہم گزر چکے ہیں۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍اپریل 1999ء میں خواجہ میر دردؒ کی زندگی اور شاعری کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون مکرم راشد متین احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
خواجہ میر دردؒ 1720ء میں خواجہ محمد ناصر عندلیب کے ہاں دہلی میں پیدا ہوئے جو عشق حقیقی کے علمبردار تھے اور صوفیا کے طریق پر خشوع و خضوع سے عبادت کرتے تھے۔ آخر ایک کشف میں ایک بزرگ کے ذریعہ انہیں ولایت سے نوازا گیا اور یہ خبر دی گئی ’’ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی۔ اس کی ابتداء تجھ پر ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدی موعود پر ہوگا‘‘۔ اس پر انہوں نے ایک نئے طریق ’’طریقہ محمدیہ‘‘ کی بنیاد ڈالی اور سب سے پہلے میر درد کی بیعت لی اور آپ کو ’’اوّل المحمدین‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ وہ عظیم الشان نعمت اُس وقت پوری ہوئی جب میر درد کے پڑنواسے حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی صاحبزادی حضرت امام مہدی و مسیح موعودؑ کے عقد میں آئیں۔
میر درد کا سلسلہ نسب والد کی طرف سے حضرت بہاؤالدین نقشبندیؒ سے اور والدہ کی طرف سے حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ سے ملتا ہے۔ آپؒ کے بزرگ بخارا سے ہجرت کرکے عالمگیر کے زمانہ میں ہندوستان آگئے تھے۔
جب دردؔ نے آنکھ کھولی تو دہلی اجڑنے کو تیار تھی اور مغلیہ سلطنت زوال پذیر تھی۔ دردؔ کی پرورش مذہبی ماحول میں ہوئی اور آپ نے مروجہ علوم عربی و فارسی کے علاوہ قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر اور تصوف میں بھی مہارت تامہ حاصل کی۔ فن موسیقی میں بھی کمال حاصل کیا۔ فارسی میں پہلی کتاب صرف پندرہ سال کی عمر میں تحریر کی۔ آپ کے مزاج میں اعتدال، حلم و تحمل کی صفات خوب تھیں۔ والد کی وفات کے بعد سجادہ نشین ہوئے لیکن مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف اور شعر و شاعری کا سلسلہ جاری رکھا۔
دردؔ نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی بجائے اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ غزل و رباعی کو بنایا۔ آپ کی شاعری تصوف کی شاعری ہے۔ آپ نے شاعری کو کبھی پیشہ کے طور پر استعمال نہیں کیا اور ہمیشہ قصیدہ اور ہجو سے اپنا دامن بچاکر رکھا۔ وہ مسلسل ایک سفر میں دکھائی دیتے ہیں جو ذات باری تعالیٰ تک رسائی کا سفر ہے اور اس سفر میں عقل کی نسبت دل کو بہتر جانتے ہیں۔
باہر نہ آسکی تو قیدِ خودی سے اپنی
اے عقلِ بے حقیقت دیکھا شعور تیرا
دردؔ کے کلام میں کثرت سے صوفیانہ اصطلاحات کا استعمال نظر آتا ہے
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تُو سما سکے
خواجہ میر درد نے بہت تھوڑا کلام یادگار چھوڑا ہے لیکن تمام کلام ہی سراپا انتخاب ہے۔
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا
بعض مشکل مضامین کو میر نے دیکھئے کس خوبی سے بیان کیا ہے:
وائے ناکامی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں
حضرت میر درد جنوری 1785ء میں 66 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ آپ نے بارہ تصانیف پیچھے چھوڑیں جن میں صرف آپ کا دیوان اردو زبان میں ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
یا ربّ! یہ کیا طلسم ہے ادراک و فہم یاں
دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جا سکے
اُن لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا
مثل نگیں جو ہم سے ہوا کام رہ گیا
ہم رو سیاہ جاتے رہے نام رہ گیا
قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کے رقم کا
حقّا، کہ خداوند ہے تُو لوح و قلم کا
ہے خوف اگر جی میں، تو ہے تیرے غضب کا
اور دل میں بھروسا ہے تو ہے تیرے کرم کا